8
0
Saturday 6 Apr 2013 23:35

اسلامی انقلاب، عوامل اور ارکان

اسلامی  انقلاب، عوامل اور ارکان
تحریر: عون علوی
aownalavi@yahoo.com


بیسیوں صدی عیسوی میں بہت سارے اہم واقعات اور حادثات رونما ہوئے جیسے جنگ عظیم اول و دوم، پاکستان کا معرض وجود میں آنا اور امت مسلمہ کے قلب میں غاصب صیہونی ریاست کا قیام۔ بیسیوں صدی میں رونما ہونے والا سب سے عظیم واقعہ جس کا اثر رہتی دنیا تک باقی رہے گا انقلاب اسلامی ایران ہے جو امام خمینیؒ کی با بصیرت اور شجاع قیادت میں افق عالم پر رونما ہوا۔
انقلاب اسلامی ایران اپنی نوعیت کا انوکھا انقلاب ہے۔ آج ہم پوری دنیا میں انقلاب اسلامی کے اثرات دیکھ رہے ہیں۔ انقلاب اسلامی نے لبنان، فلسطین، پاکستان اور کئی دیگر ممالک میں انتہائی عمیق اثرات مرتب کئے ہیں۔ امام خمینیؒ کی قیادت میں شروع ہونے والی اس عظیم تحریک نے دنیا کی استعماری طاقتوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔

انقلاب کی تعریف اور خصوصیات:
انقلاب کی بحث کوئی جدید بحث نہیں ہے بلکہ یہ بحث صدیوں پر محیط ہے۔ کئی صدیاں پہلے ارسطو نے اپنی رسالے سیاست کی پانچویں کتاب میں انقلاب اور اس کے علل و اسباب پر بحث کی ہے۔ کیلی جارج (Kelly George) اور براؤن کلیفورڈ (Brown Cliford) کی تحقیق کے مطابق 600 ق۔م سے لیکر 146 ق۔م تک یونان میں 84 انقلاب وقوع پذیر ہوئے۔ مختلف دانشوروں نے انقلاب کی گوناگون تعریفیں پیش کی ہیں۔ ان میں سے سب بہتر تعریف شہید مرتضیٰ مطہریؒ نے پیش کی ہے۔

شہید مطہریؒ کے مطابق:
"انقلاب کسی خطے یا سرزمین پر مطلوب نظام کے حصول کی خاطر موجودہ نظام کے خلاف عوامی بغاوت اور نافرمانی کو کہتے ہیں"۔
شہید مطہری مزید فرماتے ہیں کہ:
"دو چیزیں کسی بھی انقلاب کی بنیاد ہیں: ایک موجودہ نظام سے عوام کی ناراضگی اور عمومی غم و غصہ دوسری مطلوبہ مثالی صورتحال"

مختلف دانشوروں کے مطابق انقلاب کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں:
1۔ انقلاب کی اہم ترین خصوصیت اس میں عوامی شرکت ہے۔ انقلاب میں عوام کے تمام طبقات کی منظم فعال شرکت ضروری ہے۔
2۔ انقلاب میں عوامی غم و غصہ اور مقاومت کا اہم کردار ہے۔
3۔ انقلاب اچانک اور سرعت کے ساتھ وجود میں آتا ہے لیکن اس کے مقدمات کی فراہمی پر ممکن ہے کئی سال لگ جائیں۔ لہذا عوامی جدوجہد اور مقاومت کے آغاز سے مطولبہ اہداف کے حصول تک ایک طولانی عرصہ درکار ہوتا ہے۔
4۔ انقلاب میں ایک ہمہ جانبہ تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ معاشرے کے تمام شعبوں پر انقلاب کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
5۔ جیسا کہ انقلاب عوامی مشارکت سے معرض وجود میں آتا ہے لہذا اس کے لئے عوام کو منظم کرنے، ان کی مناسب رہبری اور نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
6۔ انقلاب کے اہداف اور خد و خال پہلے سے معین ہوتے ہیں۔

انقلاب کے عوامل:
کسی بھی تحریک یا انقلاب کے کچھ عوامل اور علل و اسباب ہوتے ہیں۔ شہید مرتضیٰ مطھریؒ کے بقول دنیا میں آنے والے انقلابوں میں تین طرح کے عوامل مؤثر ہوتے ہیں۔ وہ تین عوامل مندرجہ ذیل ہیں: الف: اقتصادی و مادی عامل۔ یہ عامل معاشرے میں طبقاتی نظام کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں ایک جانب امراء کا طبقہ ہو اور دوسری جانب غریب اور محروم طبقات اور دولت اور بنیادی حقوق کی تقسیم غیر عادلانہ ہو اس کا نظام طبقاتی نظام کہلاتا ہے۔ ایسا انقلاب جو اقتصادی عامل کی وجہ سے معرض وجود میں آئے اس کا ہدف ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جہاں طبقاتی نظام حاکم نہ ہو۔
ب: انسان کے اندر آزادی طلبی کی خصلت: آزادی ایک اعلیٰ انسانی قدر ہے۔ ایک انسان کے لئے آزادی ہر مادی قدر سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ شہید مطہری کے نزدیک فرانس کے انقلاب کا اہم عامل آزادی طلبی ہے۔
ج: انقلاب کا تیسرا عامل دین اور معنویت ہے۔ ایسے انقلاب جن کا سبب دین اور معنویت ہو اصطلاحاً نظریاتی انقلاب کہلاتے ہیں۔

شہید مرتضیٰ مطہری کے نزدیک انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی میں مندرجہ بالا تینوں عوامل کا کردار ہے۔ انقلاب اسلامی ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا انقلاب نہیں ہے جس میں مندرجہ بالا تینوں عوامل کارفرما ہوں۔ جہاں یہ انقلاب اسلامی اور نظریات حیثیت کا حامل ہے وہاں حریت، آزادی اور عدالت بھی اس کی اہم خصوصیات میں سے ہیں۔ معنویت اور حریت کے ساتھ ساتھ یہ انقلاب اقتصادی بھی ہے کیونکہ اس انقلاب نے ایرانی معاشرے میں طبقاتی فاصلوں کو کم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔

انقلاب کے ارکان (ستون):
ایک درس میں نمائندہ ولی فقیہ آیت اللہ ابولفضل بہاوالدینی (دامت برکاتہ) فرماتے ہیں کہ: "کسی بھی انقلاب کے چار ارکان ہوتے ہیں: مکتب، قیادت، خواص اور عوام"۔ دیگر انقلابوں کی طرح اسلامی انقلاب کے بھی یہی چار ارکان ہیں۔

مکتب یا نظریہ:
کسی بھی انقلاب یا انقلابی تحریک کا اہم ترین رکن یا ستون مکتب اور نظریہ ہے۔ مکتب عوامی جدو جہد کو سمت دیتا ہے۔ مکتب انسان کو ہدف، راستے اور روش کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ کسی بھی انقلاب کے خدوخال کے تعین میں اس کے عوامل اور مکتب و نظریہ کا اہم کردار ہے۔ کن عوامل کی صورت میں کیا حکمت عملی اپنانی ہے؟ اس کا تعین مکتب کرتا ہے۔ مکتب قیادت، خواص اورعوام کو حوصلہ اور جذبہ دیتا ہے۔ کسی بھی انقلاب کا مکتب اور نظریہ جس قدر قوی ہوگا وہ انقلاب بھی اسی قدر قدرتمند ہوگا اور اس کے اثرات بھی اسی قدر دور رس ہوں گے۔ ایک اسلامی انقلاب کے خد و خال کا تعین یقیناً اسلام کرتا ہے۔ اسلام بہترین مکتب ہے جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مکتب اسلام قرآن اور تعلیمات محمد(ص) و آل محمد (ع) پر مشتمل ہے۔ چونکہ انقلاب ایک ہمہ جانبہ تبدیلی کا نام ہے لہذا اسلامی انقلاب بھی زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہوگا۔ اسلام نے بھی تمام شعبہ ھای زندگی کے لئے ہدایات دی ہیں۔ اسلام نے نظام حکومت (ںظام ولایت)، اقتصاد نظام، عدالتی نظام، ںظام تربیت، نظام تعلیم، اجتماعی نظام وغیرہ کے لئے رہنما اصول بیان فرمائے ہیں۔ ایک اسلامی انقلاب کے لئے ضروری ہے کہ ان رہنما اصولوں کی مدد سے حیات انسانی کے تمام شعبوں کے لئے زمانی اور مکانی تقاضوں کے مطابق معین اہداف وضع کئے جائیں اور ان اہداف کے حصول کے لئے راستہ اور روش کا تعین کیا جائے۔ انقلاب اسلامی ایران الٰہی مکتب کی پیروی کرتے ہوئے الٰہی اہداف کے حصول کی بہترین مثال ہے۔

قیادت:
انقلاب کا ایک اور اہم رکن قیادت ہے۔ ایک مضبوط قیادت کی کچھ خصوصیات ہیں۔ قیادت کو اپنے مکتب، نظریہ، ہدف، راستے اور روش پر ایمان ہونا چاہئے۔ علم، بصیرت، شجاعت، عدالت، تقویٰ، جاذبہ و دافعہ اسلامی قیادت کی اہم خصوصیات ہیں۔ اسلامی انقلاب کی قیادت کو اسلام کے فقہی، اخلاقی، کلامی، حکومتی، معاشرتی، اقتصادی احکام پر مکمل احاطہ ہونا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے با بصیرت ہونا چاہئے۔ اسے عصری تقاضوں کا مکمل ادراک ہونا چاہئے۔ اسے دشمن شناس اور دوست شناس ہونا چاہئے۔ کس وقت اور کن حالات میں کیا اقدامات کرنے ہیں، کیا موقف اختیار کرنا ہے، کس کی مخالفت کرنی ہے اور کس کی حمایت کرنی ہے، مخالفت یا حمایت کی صورت میں اس کی شدت کتنی ہو، مختلف عالمی و علاقائی تحریکوں کے ساتھ کیسے روابط برقرار کرنے ہیں وغیرہ کا بصیرت سے گہرا رابطہ ہے۔ اسلامی انقلاب کی قیادت میں شجاعت کا ہونا انتہائی ضروری ہے کیونکہ انقلاب کئی مقامات پر شجاعانہ فیصلوں اوراقدامات کا متقاضی ہوتا ہے۔ بزدل قیادت کبھی بھی مطلوبہ مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتی۔

اگر اسلامی انقلاب کی قیادت میں عدالت اور تقویٰ موجود نہ ہو تو وہ انقلاب کے کسی بھی موڑ پر انحراف کا شکار ہو سکتی ہے اور پھر اس کا انحراف حتیٰ قوم کے انحراف کا باعث بن سکتی ہے۔ اسلامی قیادت میں جاذبہ اور دافعہ بہت اہم ہے۔ اگر اس میں مناسب جاذبہ نہیں ہو گا تو وہ اپنے دوستوں کو بھی دشمن بنا لے گا۔ اس کے قریبی ترین ساتھی بھی ایک ایک کر کے اس سے دوری اختیار کر لیں گے۔ عوام میں وحدت کے بجائے تفرقہ عام ہو جائے گا۔ اگر قیادت میں مطلوب دافعہ نہیں ہوگا تو وہ اسلام و مسلمین کے دشمنوں سے بھی تعلقات بنانے لگے گا۔

اسلامی قیادت کو ایک جانب "اشداء علی الکفار" کا مصداق بننا ہوگا تو دوسری جانب "رحماء بینھم" کے سنہری اصول پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ انقلاب کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو انقلاب کے خد و خال سے آگاہ کرے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی یہ قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس انقلاب کو اپنے اصلی راستے سے منحرف نہ ہونے دے۔ مذکورہ خصوصیات سے تہی قیادت کبھی بھی یہ کام انجام نہیں دے سکتی۔ ہمارے دور میں امام خمینیؒ اور امام خامنہ ای اسلامی قیادت کے بہترین نمونے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کامیابی سے ہمکنار ہوا اور آج تک اپنے اعلیٰ الٰہی اہداف کی جانب گامزن ہے۔ امام خمینیؒ اور امام خامنہ ای علم، بصیرت، شجاعت، تقویٰ، عدالت، تدبیر اور اسلامی دافعہ و جاذبہ کے عالی ترین مظہر ہیں۔

خواص:
کسی بھی انقلاب کی کامیابی اور دوام میں خواص کا کردار انتہائی اہم ہیں۔ خواص قیادت کے سفیر اور معد و معاون ہوتے ہیں۔ اگر خواص اپنا کردار صحیح انداز میں ادا نہ کریں تو امام حسنؑ جیسی معصوم قیادت بھی معاویہ کے ساتھ صلح کے لئے مجبور ہو جاتی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی میں خواص نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای، شہید مطہری، شہید مفتح، شید قدوسی، شہید بہشتی، شہید با ہنر، شہید رجائی، آقای ہاشمی رفسنجانی وغیرہ وہ خواص ہیں جنہوں نے اس دور میں امام خمینیؒ کے پیغام کو ایران کے گوش و کنار تک پہنچایا۔ شہید حسینیؒ، شہید باقر الصدر، شہید عباس موسوی، سید حسن نصراللہ، مولانا صفدر حسین نجفی اور شہید ڈاکٹر نقوی جیسے خواص نے امام راحل کے پیغام کو پوری دنیا میں عام کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی ایران انتہائی وقار اور عظمت کے ساتھ کامیاب ہوا اور اس کے نور سے پوری دنیا منور ہوئی۔ اس کے برعکس آیت اللہ باقر الصدر کے پاس خواص نہ ہونے کی وجہ سے ان کی جدوجہد عراق میں رنگ نہ لاسکی اور ان کی اپنی اور ان کی مجاہدہ بہن کی دردناک شہادت کے بعد دم توڑ گئی۔

عوام:
جیسا کہ انقلاب کی خصوصیات میں کہا گیا ہے انقلاب کی ایک اہم خصوصیت اس میں عوام کی بھر پور شرکت ہے۔ اسلامی قیادت کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت ایک اہم عنصر ہے۔ اگر قیادت کو مقبولیت میسر نہ ہو تو امیرالمومنینؑ جیسے عظیم امام کو بھی پچیس سال اپنے الٰہی حق سے محروم رہنا پڑتا ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے لئے عوام کا قیادت پر اعتماد، قیادت کے ساتھ عوامی تعاون، عوامی اتحاد اور نظم انتہائی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کا اپنے مکتب، نظریے، ہدف اور راستے پر پختہ یقین بھی کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ عوامی شعور اور بیداری بھی انقلاب کی کامیابی کے لئے بہت موثر ہے۔ عوام کو انقلاب کے خد و خال کا کم از کم اجمالی علم ضرور ہونا چاہئے۔ انقلاب اسلامی ایران ایک بھرپور عوامی جد و جہد کا ثمرہ ہے۔

نتیجہ:
کسی بھی جد و جہد کے آغاز سے قبل اگر اس کے اہداف اور خد و خال واضح نہ ہوں تو اسے کبھی بھی انقلاب نہیں کہا جائے گا۔ اس جد و جہد میں اگر عوامی شرکت نہ ہو تب بھی اسے انقلاب کے نام سے یاد نہیں کیا جائے گا۔ کسی بھی ملک یا خطے میں انقلاب کے لئے اس کے مذکورہ بالا عوامل اور ارکان کا ہونا ضروری ہے۔ اگر انقلاب کے عوامل موجود ہوں لیکن اس کے بنیادی ارکان میں سے کوئی ایک رکن کم ہو تو ایسا انقلاب کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ انقلاب میں مکتب اور اہداف کے تعین کے بعد ان کی خاطر قربانیاں دینا بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ قربانیاں قیادت بھی دیتی ہے، خواص بھی اور عوام بھی۔ جیسے انقلاب اسلامی ایران میں امام خمینیؒ نے اپنے عزیز فرزند مصطفیٰ خمینیؒ کی قربانی دی، شہید مفتح، شہید بہشتی اور شہید رجائی جیسے خواص نے اپنی جانیں شمع ولایت پر نثار کیں اور عوام نے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ انقلاب ایک طویل جد و جہد کا متقاضی ہوتا ہے لہذا اس کے لئے بلند حوصلوں اور عزم گران کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اگر پاکستان میں انقلاب لانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان ارکان کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی قربانیوں اور ایک طویل عوامی جد و جہد کے لئے تیار ہونا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 252079
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عون بھائی، یہ تو بتائیں کہ الیکشن میں حصہ لینا انقلاب لانے کا مقدمہ ہے یا اس میں رکاوٹ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
سلام ، حصہ لینا انقلاب کے تربیتی پراسس کا جصہ ہے۔
احسن عون بھائی
سلام، موجودہ صورتحال میں الیکشن میں حصہ لینا یقیناً ضروری اور آئندہ آنے والی تبدیلی کا مقدمہ ہے، اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے صرف تقریروں میں ہی لگے رہے تو اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے، البتہ اس کے لئے افراد کو بھی پروان چڑھانے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ہماری قوم کے کچھ علماء و دانشور یہی کام کر رہے ہیں۔
آرٹیکل ہے یا مدرسے کے لئے تحقیق؟
Iran, Islamic Republic of
پاکستان میں اسلامی انقلاب کے دوست نما دشمن سیاسی انقلاب سے ڈر رہے ہیں۔ عون بھائی آپ اپنی انقلابی تحریریں لکھتے رہیں۔
آج پاکستان میں جو لوگ انقلاب اسلامی لانے کا نعرہ لگا رہے ہیں وہ ارکان اور عوامل کو نظر انداز کرکے برائے راست اسلامی انقلاب لانے کے خوایشمند ہیں، ورنہ اگر پاکستان میں صرف اس ایک رکن یعنی عوامی شعور پر پر نظر ڈالی جائے تو اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ جب کسی کے سامنے ولی فقیہ کا نام لیا جائے تو کہتے ہیں کہ فقیہ کو ولی کیوں کہتے ہو، ولی تو معصوم ہوتا ہے یا امام خمینی(رہ) کو امام کیوں کہتے ہو، امام تو صرف بارہ ہیں، ایسے ماحول میں اسلامی نظام کیا خاک نافذ ہوگا۔ سوائے انتشاری نظام کے: اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نظام اسلامی کیلیے کام ہی نہ کریں، بہت سا کام کرنا ہے لیکن قائد شہید کی طرح اسی نظام میں رہ کر نہ کے نظام کا بائیکاٹ کرکے میدان کو دوسروں کیلیے خالی چھوڑ کر، تاکہ وہ آکر ہمارے فیصلے کریں۔
Good but pakistan me kon hai jo imam khomeini wala inqlaab laye? Yahan har Aalim o Danishwar ki apni raag hai, kisi bhi inqalaab k liye awam ka akatha hona bohat zarori hai, aur yeh tab ho ga jab hamaray baray Ulema karam maslan Allama Sajid Ali Naqvi, Allama Raja Nasir Abbas Jafari aur Allama Jawad Naqvi aur Deegar Ulema karam akathay nahi ho jatay, apnay aap ko daikh kr Janab.....!
Iran, Islamic Republic of
کیا اس وقت پاکستان میں موجودہ دور میں سید جواد نقوی صاحب سے بڑھ کر اسلامی انقلاب کو سمجھنے والے اور اسلامی انقلاب کے وفادار موجود ہیں؟ جب وہ کچھ کہہ رہے ہیں تو ہمیں کم از کم ان کی مخالفت تو نہیں کرنی چاہیے اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش تو نہیں کرنی چاہیے۔
ہماری پیشکش