0
Saturday 20 Apr 2013 23:33

اے این پی دہشتگردی کے نشانے پر

اے این پی دہشتگردی کے نشانے پر
تحریر: رشید احمد صدیقی 

آئین کے تحت جب سے نگران حکومتوں نے اقتدار سنبھالا ہے، ان کی دو ہی ذمہ داریاں تھیں: روزمرہ کے امور نمٹانا اور شفاف و پرامن انتخابات منعقد کرنے کو یقینی بنانا۔ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن اس کے لیے فضا سازگار رکھنا اور انتظامات کرنا نگران حکومت کا کام ہے۔ روزمرہ کے امور تو چل رہے ہیں۔ حکومت ہو یا نہ ہو، انتظامی مشینری جیسے تیسے اپنا کام ہر صورت میں کر رہی ہوتی ہے۔ امن و امان کی صورت حال بہتر کرنے کے لیے نگرانوں نے کیا کام کیا؟ کیا نظر آیا ہے؟ اب تک کتنی بہتری آئی؟ یا اس کے بعد کیا بہتری آسکتی ہے؟ ان سوالوں کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ نگرانوں نے اب تک کچھ بھی نہیں کیا ہے اور نہ کچھ کرنے کا ان کوئی ارادہ ہے اور نہ کوئی بہتری آئے گی۔ بلکہ ایمانداری سے بات کی جائے تو ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ کام تو ان کے کرنے کا ہی نہیں۔۔۔۔۔ 

خیبر پختونخوا کی حد تک دیکھا جائے تو طالبان کی دھمکیوں اور عملی کارروائیوں کے بعد اے این پی کی قیادت باہر نہیں نکل رہی ہے۔ جو چند ایک بوجوہ نکل رہے تھے۔ ان کو نشانہ بنا یا گیا ہے۔ ایک امیدوار سوات میں جان بحق ہوچکے ہیں۔ چارسدہ میں سابق وزیراعلٰی کے مشیر خاص سید معصوم شاہ شدید زخمی ہوئے۔ پشاور میں معمر رہنماء اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چار سے امیدوار اور کئی مرتبہ وزیر رہنے والے ارباب ایوب جان اور بین الاقوامی شہرت کے حامل حاجی غلام احمد بلور پر خوفناک حملے ہوچکے ہیں۔ بنوں میں بھی اس کے امیدوار پر حملہ ہوا ہے۔ جو لوگ حملوں کا نشانہ بنے ہیں وہ مہم کے لیے کسی حد تک نکلتے تھے۔ وہ طالبان سیاست سے کچھ الگ تھلگ سے تھے اور شائد ان کا خیال تھا کہ ہمیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ 

غلام احمد بلور نے توہین رسالت (ص) کے مرتکب امریکی پادری کے سر کی قیمت ایک لاکھ ڈالر لگانے کا اعلان کیا تھا، جس کی وجہ سے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ طالبان کی ہٹ لسٹ سے نکل گئے تھے۔ لیکن ان کے جلسہ میں ہونے والے دھماکے میں 18 افراد مارے گئے اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔ ارباب ایوب جان اور غلام احمد بلور بھی ان حملوں میں کسی قدر متاثر ہوئے۔ اس کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ اے این پی بطور احتجاج الیکشن سے بائیکاٹ کا اعلان کر دے گی۔ لیکن 18 اپریل کو اسفندیار ولی خان کی صدارت میں اے این پی کے تھینک ٹینک کا اجلاس ہوا، جس نے الیکشن سے دستبردار ہونے کی کسی بھی صورت کو مسترد کر دیا اور قربانیاں دینے کے عزم کے ساتھ یہ جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ 

اے این پی پر ایک مشکل وقت آ پڑا ہے۔ ان کے امیدوار ووٹروں سے رابطہ کرنے میں خاصی مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے میں کامیابی کا حصول انتہائی مشکل محسوس ہو رہا ہے۔ پشاور میں جلسہ پر بم دھماکہ کے اگلے روز اے این پی کے مرکزی رہنماء غلام احمد بلور نے اخباری کانفرنس میں کہا کہ ہمیں انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انھوں نے بڑے دردناک انداز میں کہا کہ بالآخر ہمارا گناہ کیا ہے۔۔۔۔ بلاشبہ اے این پی پر بُرا وقت آیا ہے۔ جمہوری سوچ رکھنے والوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ ایسے میں ان کی قیادت کی بے بسی پر بھی ترس آتا ہے اور جیسا کہ غلام احمد بلور نے کہا ہے کہ بالآخر ہم نے کیا گناہ کیا ہے۔ ایسے موقع پر ان کو ان کا گناہ یاد دلانا کسی قدر کم ظرفی شمار ہوگی کہ ایک طرف ان کی جان پر بنی ہوئی ہے اور کوئی ان کو ان کے گناہ یاد دلائے۔۔۔۔ لیکن اصلاح احوال کے لیے چند تجاویز دی جائیں تو مضائقہ نہیں ہوگا۔

اس سلسلے میں اسفندیار ولی اور غلام احمد بلور ہی کی اس بات کا تذکرہ بھی بےجا نہ ہوگا کہ آئندہ کوئی دھماکہ ہوا تو جاں بحق ہونے والوں کے قتل کا مقدمہ الیکشن کمیشن اور صوبائی انتظامیہ کے خلاف درج کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن بے چارے کو محدود وقت میں محدود وسائل اور اختیارات کے ساتھ انتخابات منعقد کرانے ہیں اور نگران حکومت کو دو ماہ کے انتظامات کرانے ہیں۔ اس دوران اے این پی کو تحفظ دلانا بے شک اس کی ذمہ داری ہے۔ لیکن پانچ سال کے دوران طویل مدت اور لامحدود وسائل کے ساتھ اے این پی کی حکومت اپنے کارکنوں اور قائدین کو کتنا تحفظ دے گئی تھی۔ اس دوران سینئر وزیر بشیر احمد بلور سمیت 707 عہدیدار اور کارکن بشمول دو ارکان اسمبلی دھماکوں کی نذر ہوگئے تھے۔ کیا اے این پی نے ان کے قتل کا مقدمہ صوبائی حکومت کے خلاف درج کروایا تھا۔؟ 

عوامی نیشنل پارٹی ایک طویل جدوجہد کا تسلسل ہے۔ باچا خان اور خان عبدالولی خان کی نظریاتی تحریک کا موجودہ نام اے این پی ہے۔ اس کا دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جانا ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ نہ اس تحریک کو ختم کیا جانا چاہیے۔ اس نے بہت بڑا نقصان اٹھایا ہے۔ سات سو سے زائد اس کے صف اول کے لوگ اس جنگ میں قربان ہوچکے ہیں اور مزید کی جانیں براہ راست نشانے پر ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس جماعت کو، اس کی قیادت اور کارکنوں کو بچایا جائے۔ ظاہر ہے اس کام کے لیے دوسری جماعتیں آگے نہیں آئیں گی اور نہ حکومت یہ کام کرسکتی ہے۔ اگر حکومت کو یہ کام کرنا تھا تو پانچ سال کے دوراں خود اے این پی کی حکومت کر لیتی۔۔۔ اے این پی جس تحریک کا تسلسل ہے اس کی اٹھان سامراج دشمنی سے ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں امریکہ اور برطانیہ کو سامراج کہا جاتا ہے۔ یہ ہمیشہ بائیں بازو کی نظریات کی تحریک رہی ہے۔ غلام احمد بلور نے اگلے روز بڑے دردمندانہ انداز میں کہا کہ ہمارا گناہ کیا ہے؟ یہی سوال اگر وہ اور ان کی جماعت خود اپنے آپ اور اپنی جماعت سے کریں تو ان کو جواب مل جائے گا۔
 
2008ء کے انتخابات کے وقت اس خطہ میں دہشت گردی کے نام پر جو جنگ برپا تھی، اس میں پاکستان اس سامراج کا فرنٹ لائن ملک تھا اور ہمارا صوبہ حقیقت میں فرنٹ لائین صوبہ تھا۔ پاکستان نے اپنے لیے یہ حیثیت خود نہیں اختیار کی تھی۔ امریکہ کی جانب سے باقاعدہ دھمکی ملی تھی کہ اس جنگ میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں یا ہمارے خلاف اور اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے 24 گھنٹے کی مہلت بھی دی تھی۔ ہم پر زبردستی ٹھونسی جانے والی فرنٹ لائن سٹیٹ کی حیثیت میں اے این پی نے صوبہ کو فرنٹ لائین صوبہ کے طور پر اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ شامل کیا تھا۔ اب وہی گناہ اس کے سر ہے کہ امریکہ نے اس جنگ میں اپنے دشمن کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اور اس پر جتنے حملے کیے ہیں، ان میں اے این پی کا کندھا ہی استعمال ہوا ہے۔
 
جس کندھے پر بندوق رکھ کر امریکہ نے اپنے دشمن پر گولی چائی تھی۔ اسی کے کندھے کو اب نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ خود تو سات سمندر پار بیٹھا ہے۔ اسی نے اے این پی کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے سب سے بڑے دشمن اسامہ بن لادن کو اسی خطہ میں ختم کیا تھا۔ طالبان امریکہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں یا نہیں البتہ اے این پی براہ راست ان کے نشانے پر ہے۔ اس مشکل میں اس قوم پرست جماعت کو طعنے دینے کا وقت نہیں۔ اس سے ہماری ہمدردی ہے اور اگر وہ اس صورت حال سے نکلنا چاہتی ہے۔ اپنی قیادت، کارکنوں، پارٹی اور نظریات کو بچانا چاہتی ہے تو اسے چند بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔ 

امریکی جنگ میں اپنے سات سو لوگوں کی قربانی کو بہت بڑا نقصان سمجھ کر اس کو اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم نے امریکی جنگ کو اپنے سر لے کر غلطی کی تھی۔ اس پارٹی کی قیادت نے اس دوران ہر ممکن کوشش کر دکھائی کہ اپنی جماعت کو مشکل سے نکالا جائے لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔ چنانچہ اسے کھلے دل سے اعتراف کرکے قیادت نئے لوگوں کے لیے چھوڑ دینی چاہیے۔ اے این پی جمہوری جماعت ہے۔ اس کے فیصلہ ساز فورم میں بحث کی جائے کہ اپنے خطے کی سیاست اپنے انداز میں کرنے کے لیے نئی پالیسیاں تشکیل دی جائیں۔ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں جس طرح انھوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی اور ان کو مثبت پیغامات دیئے۔ میرے خیال میں غلطی کے اعتراف اور نئی ترجیحات کے اعلان کے ساتھ ان لوگوں کو جو پیغام جائے گا وہ اقتدار کے آخری دنوں کے پیغام سے کافی موثر ہوگا۔ اگر طالبان کو ان کے کلچر کا موافق پیغام دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی جانب سے اے این پی کو مثبت جواب نہ ملے۔ 

اس تجویز کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اے این پی اعتراف شکست کرکے اپنی سیاست سے دستبردار ہو جائے بلکہ یہ اے این پی کے لیے اچھا موقع ہوگا کہ اپنی اصل یعنی سامراج دشمنی کی جانب لوٹ آئے۔ آج کے دور میں یہ اس کے اور طالبان کے درمیان مشترکہ قدر ہوسکتی ہے۔ اس سے اس قوم پرست جماعت کو نئی زندگی مل جائے گی اور یہ خطے کے امن اور استحکام کے لیے بھی بہتری کی جانب اور اچھا آغاز ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب نگرانوں کا جو اصل کام تھا کہ پر امن انتخابات کے لیے فضاء ساز گار بنائے لیکن انھوں نے اعلٰی سطح پر ایک بھی ایسا اجلاس نہیں کیا ہے جس نے طالبان کے خطرے سے نمٹنے کے لیے کوئی فیصلہ یا اقدام کیا ہو۔ طالبان کی دہشت گردی کا مقابلہ تو جانے والی حکومت پانچ سال میں نہ کرسکی۔ پاکستانی حکومت تو کیا امریکہ کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں اور اس نے 2014ء میں جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ نگران حکومت کے بس کی یہ بات نہیں۔ 

البتہ اس کو دو ماہ کے لیے مہلت حاصل کرنے کی بات تو کرنی چاہیے تھی۔ اس بنیاد پر کوئی اقدام تو کیا جانا چاہیے تھا۔ طالبان سے بات ہوسکتی تھی۔ ڈرون حملے بند کروانے کی صورت میں شائد وہ خودکش حملے بند کرنے پر راضی ہو جاتے۔ امریکہ کے ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے لیے بھی چیلنج ہیں۔ لیکن نگرانوں کو اس جانب سوچنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت اس میں سنجیدہ نہیں اور الیکشن کی جانب بڑھتا ہر دن خطرات لیے آتا ہے۔ اللہ اس دوران ہمارے ملک اور قوم کی حفاظت کرے، ایسے میں ہم یہ دعا ہی کرسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 256070
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش