0
Monday 22 Apr 2013 22:59

پرویز مشرف کیس، آزاد عدلیہ کا امتحان

پرویز مشرف کیس، آزاد عدلیہ کا امتحان
تحریر: تصور حسین شہزاد

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تین روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں دو رائے نہیں کہ قانون کی بالادستی قائم کرنے میں آزاد عدلیہ کا کردار سب سے نمایاں ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور مقننہ پر بھی لازم ہے کہ وہ آزاد عدلیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں تاکہ بنیادی انسانی حقوق کے اطلاق میں آسانی رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آزاد عدلیہ آخری منزل نہیں بلکہ یہ تو منزل کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ عدلیہ کی خودمختاری اور غیر جانبداری اصل منزل ہے۔ پاکستان کا عدالتی نظام جمہوریت کا پشت بان ہے اور اسے عوام اور ریاستی اداروں کا مکمل اعتماد حاصل ہے۔

حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ نے ریاستی اداروں اور افراد کے جابرانہ اقدامات کرپشن، اغوا، جبری گمشدگیوں، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سخت فیصلے دیئے ہیں لیکن جب تک ریاست کے دیگر ادارے اپنا کردار مکمل طور پر صحیح طریقے سے ادا نہیں کریں گے معاشرتی خرابیوں کی بیخ کنی ممکن نہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ انصاف کے حصول کے نظام کو مزید آسان اور قابل رسائی بنایا جائے اور تنازعات ضلعی سطح پر حل ہونے چاہئیں۔پاکستان میں انصاف کی منزل تک رسائی سب سے دشوار ترین کام رہا ہے۔ عام آدمی کے لئے انصاف کا حصول ایک خواب پریشاں سے زیادہ کچھ نہیں۔

پاکستان میں آزاد عدلیہ کے وجود میں آنے کے باوجود ابھی تک پیش منظر پر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کل بھی کارفرما تھا آج بھی سکہ رائج الوقت یہی ہے۔ طبقاتی تقسیم نے معاشرتی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور انصاف مہیا کرنے کے ذمہ دار ادارے اور ایجنسیاں ابھی تک ’’وہی ہے چال بےڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے‘‘ کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قانون میں موجود سقم مجرموں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وہ سہولت مہیا کرتے ہیں جن کی وجہ سے قانون طاقتور کی زرخرید لونڈی کی طرح اس کے کام آتا ہے اور مظلوم انصاف کے لئے ترستا رہ جاتا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے درست فرمایا کہ انصاف کی رسائی ضلعی سطح تک آسان بنائی جانی چاہیئے۔ گذشتہ دور حکومت میں زیریں عدلیہ کی تنخواہوں میں بےپناہ اضافہ بھی اسی لئے کیا گیا کہ کشائش رزق کی سہولت مہیا کر کے انصاف کرنے والوں کو معاشی پریشانیوں سے نجات دلا کر عام آدمی کی انصاف تک رسائی آسان بنائی جا سکے مگر پاکستان میں اختیارات کے منبع کو جتنی زیادہ سہولتیں اور آسائشیں مہیا کی جائیں وہ تب بھی اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے باز نہیں آتا۔ پورا ریاستی ڈھانچہ اس کی منہ بولتی تصویر ہے۔ جتنے زیادہ بااختیار اور باوسیلہ لوگ ہوں گے اتنے ہی زیادہ کرپشن اور بدعنوانی میں لتھڑے اور ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ یہ بات کہنے کی حد تک بہت سہانی اور درست معلوم ہوتی ہے کہ انصاف اندھا ہے اور تمام انسان قانون کی نظر میں مساوی ہیں مگر پاکستان میں یہ سب باتیں کسی ’’یوٹوپیا‘‘ کے بارے میں کہی معلوم ہوتی ہیں۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان باوسیلہ اور بااثر افراد کے لئے تو جنت نظیر ہے مگر نظرانداز طبقات کے لئے اس سے بری جگہ کوئی نہیں جہاں طاقتور اپنی قوت کے بل بوتے پر سب کچھ کر گزرتا ہے، یہاں تک کہ عورتوں کی عصمت دری کر کے اور خاندانوں کے خاندان تباہ کر کے رکھ دیئے جاتے ہیں، دن دہاڑے قتل و غارتگری کی وارداتیں ہوتی ہیں، سب کے سامنے اپنے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے کو پورے پروٹوکول کے ساتھ ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے، قانون حرکت میں آتا ہے، ملزم واپس بلایا جاتا ہے اور پھر بااثر طبقات اپنے اثر و رسوخ سے قاتلوں کو پہچاننے والوں کو خرید لیتے ہیں اور قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ اسی ملک میں ہوتا ہے جہاں قانون کی عمل داری کی بات صرف زیب داستاں کے لئے کی جاتی ہیں۔

آج پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اس کا بنیادی سبب ہی یہ ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک مقتدر اشرافیہ ہو کہ بالادست طبقے، سب کے سب قانون کو ایک مذاق سمجھ کر اس کے ساتھ کھلواڑ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بیشک عدلیہ آزاد ہے اور یہ بھی درست بات کہ عدلیہ کی آزادی محض ایک منزل نہیں بلکہ اس کے ذریعے انصاف کا پرچم بلند کرنا، عدل اختیار کرنا اور لوگوں کو بلاامتیاز بنیادی انسانی حقوق سے بہرہ مند کرنا ہی اصل مقاصد ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی طبقۂ اشرافیہ تمام تر قوت کے ساتھ قانون کے راستے میں مزاحم نظر آتا ہے جس کی تازہ ترین مثال سابق صدر پرویز مشرف کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالتیں اپنی تمام تر خواہشات اور کوششوں کے باوجود ابھی تک مقتدر اشرافیہ کے تسلط سے آزاد نہیں ہو سکیں۔

عدالت عالیہ لاہور کے مطابق دہشت گردی کے مقدمے میں ملوث ملزم کو جیل کی سی کلاس میں رکھنا ضروری ہے، بیشک وہ کتنا ہی صاحب رسوخ کیوں نہ ہو مگر یہاں سب کے سامنے عیاں ہے کہ سابق صدر کو کس طریقے سے نہ صرف یہ کہ ایک رات از روئے قانون جو پولیس کی تحویل میں گزارنا پڑی اس میں بھی وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا بلکہ اگلے ہی دن انسداد دہشت گردی کی عدالت سے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اسے اڈیالہ جیل کی سی کلاس میں بھیجنے کی بجائے اس کے اپنے فارم ہاؤس میں رکھا گیا ہے، جسے کہنے کو تو سب جیل قرار دیا گیا ہے مگر کون نہیں جانتا یہ سب جیل کسی محل سے کم نہیں۔ ہماری دانست میں مشرف کا کیس آزاد عدلیہ کا سب سے بڑا امتحان ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کے لئے بالخصوص یہ موقع پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ انہیں انصاف کے تمام تقاضوں کو مدنظر رکھ کے ایک ایسے ملزم کو قانونی مراحل سے گزرنے کی تمام تر سہولیات بہم پہنچانی ہیں جس پر خود اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو غیرقانونی طور پر نظربند رکھنے کا کیس چل رہا ہے۔ یہ یقیناً پوری عدلیہ کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ کسی بھی لمحے پر مقدمے کی کارروائی میں عدلیہ کے فاضل اراکین کے ذاتی تعصب کی جھلک کہیں نظر نہ آئے بلکہ دستور اور قانون کے مطابق مقدمات کی کارروائی میں عدل کا شفاف طریق کار ساری دنیا کو بتائے کہ آزاد عدلیہ مکمل غیرجانبدار ہے اور جس کے فورم پر انصاف ہو ہی نہیں رہا بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آ رہا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے عالمی جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کے تناظر میں ہمیں اس مرحلہ امتحان کو طے ہوتے ہوئے دیکھنا بھی ہے کہ یہ انصاف کی نئی نظیر قائم کرنے کا ایک نادر موقع ہے اور عدلیہ کی عظمت ثابت کرنے کا بھی۔
خبر کا کوڈ : 256846
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش