0
Monday 22 Apr 2013 23:53

قومی قیادت کیلئے Hugo Chavez کی تلاش

قومی قیادت کیلئے Hugo Chavez کی تلاش
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم

ہوگو رافیل شاویز 1999ء سے 2013ء تک وینز ویلا کا 14 سال تک صدر رہا اور 3 مارچ 2013ء کو 59 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ شاویز کا تعلق ایک متوسط دستکار گھرانے سے تھا۔ وہ سب سے پہلے عسکری پیشے سے منسلک ہوا، پھر سیاست میں آکر ایک سوشلسٹ جماعت بنائی اور آخر میں دوسری جماعتوں کے اتحاد سے مسند صدارت تک جا پہنچا۔ وہ ایک بے لوث، سچا، کھرا اور نڈر لیڈر تھا جس نے صحت اور تعلیم پر زور دیا اور ملک میں غربت کی شرح کو 48.6 سے نیچے گھٹا کر 29.5 فیصدی تک لے آیا۔ اس کے علاوہ اس نے ملک کو نیا دستور دیا، جس سے لوگوں کے حقوق کو مزید تحفظ ملا۔ ہر دلعزیز شاویز 7 اکتوبر 2012ء کو اگلے چھ سالوں کے لئے چوتھی دفعہ وینزویلا کا صدر منتخب ہوا۔ اس کی نکارا گوا، کیوبا، بولیویا اور اکواڈور کے صدور کے ساتھ پکی دوستی تھی۔ اس کی پالیسی کا محور Anti Imperialism تھا، یعنی وہ چاہتا تھا کہ امریکہ سمیت بڑی فوجی طاقتیں غریب اقوام کے حقوق سلب کرکے ان پر اپنی دھاک نہ بٹھائیں۔ وہ جنوبی امریکہ کے ممالک کا ایک اتحاد بنانے کی کوشش میں تھا۔ 

امریکی قلم کار ڈاکٹر پال کریگ رابرٹس، جو وال اسٹریٹ جرنل کا سابقہ ایڈیٹر ہے، نے 13 مارچ 2013ء کو ایک کالم میں لکھا کہ وینزویلا کا مرحوم صدر ہوگو شاویز امریکہ کا دشمن نہیں تھا بلکہ وہ تو واشنگٹن کی طرف سے دنیا کے دوسرے ممالک پر امریکی برتری کے دعوں کا مخالف تھا۔ وہ امریکی حکومت کی ناانصافیوں، عسکری جارحیت اور جھوٹ پر مبنی خارجہ پالیسی کے خلاف تھا۔ شاویز کہتا تھا
"Washington is not America. Washington is Satan's home town."
یعنی واشنگٹن امریکہ نہیں، بلکہ یہ شہر تو شیطانوں کا آبائی مسکن ہے۔ 

امریکی صحافی لکھتا ہے کہ شاویز ایک جرات مند قائد تھا جو ناقابل فروخت تھا، اس نے اپنے ملک کی تیل کی دولت کے ناجائز استعمال سے اپنے ناجائز اثاثے نہیں بنائے۔ وہ امریکہ کو ایک غاصب ملک تصور کرتا تھا، جس نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد پچھلے 68 سالوں سے جرمنی اور جاپان پر، اور کورین جنگ ختم ہونے کے 60 سال بعد بھی جنوبی کوریا پر اپنا تسلط قائم رکھا ہوا ہے۔ مرحوم صدر شاویز کے خیال میں امریکہ نے افغانستان، پاکستان، عراق، لیبیا، سوڈان، یمن، صومالیہ، شام، فلسطین، لبنان اور مالی کے عوام سے بہت زیادتی کی اور اب وہ ایران، روس، چین اور جنوبی امریکہ کو نشانہ بنانے کی سوچ رہا ہے۔ 20 ستمبر 2006ء کو امریکی صدر جارج بش کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے ایک دن بعد شاویز نے اپنی تقریر کی ابتدا اس طرح کی،
"کل شیطان خود یہاں کھڑا تھا، جہاں میں آج کھڑا ہوں۔ وہ ایسے بول رہا تھا جیسے وہ پوری دنیا کا مالک ہے۔ اس کے جانے کے بعد مجھے آج بھی یہاں سے گولہ بارود میں استعمال ہونے والی سلفر کی بو آرہی ہے"۔ 

شاویز نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ
"امریکی صدر بش کا کسی دماغی امراض کے ماہر سے معائنہ کروانا ضروری ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں قائم موجودہ بڑی طاقتوں کے تسلط کا نظام جاری رہنا چاہئے اس پر ایک فلم بنائی جاسکتی ہے جس کا عنوان "The Devil's Recipe" یا شیطان کا نسخہ ہونا چاہئے۔"
شاویز نے اپنی تقریر میں کہا کہ
" امریکی صدر جارج ڈبلیو بش ہماری کھال کا رنگ دیکھ کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ہم انتہا پسند ہیں۔ یہ ہم سب کو انتہا پسند تصور کرتا ہے، حالانکہ ہم انتہا پسند نہیں بلکہ دنیا میں ابھی سیاسی بیداری آچکی ہے اور لوگ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔"
شاویز نے کہا،
"The imperialism is afraid of truth. It is afraid of independent voices. It calls us extremists but they are the extremists."
یعنی غاصبیت سچ سے خائف ہے، آزاد صدائیں اس کے کانوں کو نہیں بھاتی۔ یہ ہمیں انتہا پسند سمجھتے ہیں لیکن یہ خود انتہا پسند ہیں۔
 شاویز نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ
یہ لوگ ہمارے اوپر وہ جمہوریت مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی راسیں Elite یا امیر طبقہ کے ہاتھوں میں ہوں۔
شاویز نے سوال کیا کہ
"What type of democracy you impose with Marines and bombs?"
یعنی آپ اپنی فوج اور بموں سے کونسی جمہوریت ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہو۔؟
 
امریکی صحافی لکھتا ہے کہ جنوبی امریکہ اور غیر مغربی دنیا کے لوگ اب یہ کہہ رہے ہیں کہ شاویز کو امریکی CIA نے بالکل اسی طرح زہر دے کر قتل کروایا ہے، جیسے 1970ء میں امریکی چرچ کمیٹی نے کیوبا کے صدر کاسٹرو کو CIA کی طرف سے زہر دینے کی ایک سازش کو بے نقاب کیا تھا۔ اسی طرح قلم کار پال کریگ رابرٹ لکھتا ہے کہ امریکی صدر جان ایف کینڈی کو امریکی جائنٹ چیف آف اسٹاف نے ایک منصوبہ، جس کا نام "North Woods Project" تھا، پیش کیا تھا، جس کے مطابق امریکی سرزمین پر ایک جھوٹا حملہ کروا کر الزام کیوبا پر لگانا مقصود تھا، تاکہ پھر کیوبن حکومت کا تختہ الٹنے کا معقول بہانہ سامنے آسکے، لیکن صدر کینڈی نے اس کو غیر اخلاقی کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔
 
قارئین! یہ سچی بات ہے کہ کئی سو سالوں تک دنیا کے سینکڑوں ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے زیر تسلط رہے۔ ان نو آبادیوں پر ان مغربی طاقتوں کا بلا واسطہ قبضہ تھا۔ اس کے بعد اب امریکہ کی باری ہے، جس نے نئے نو آبادیاتی نظام کو وضع کیا، جس کے مطابق اب دنیا کے بہت سارے ممالک امریکہ کی بلواسطہ کالونیاں ہیں۔ ان ممالک میں N.R.O کی طرز کی کٹھ پتلی حکومتیں ہیں اور ان پر نظر رکھنے کے لئے ان ممالک میں امریکی عسکری اڈے ہیں۔ بظاہر ہم آزاد لیکن دراصل اسیر ہیں۔ اللہ کرے کہ آمدہ قومی انتخابات کے بعد جو سیاسی اتحاد سامنے آئے وہ ملک کو امریکی مداخلت سے آزاد رکھے۔ یہ کمزور، کرپٹ اور بزدل حکمرانوں کے لئے ایک بہت ہی مشکل کام ہے، لیکن اگر وینزویلا کے مرحوم صدر ہوگو شاویز کی طرح نڈر اور دیانتدار قیادت قومی مفادات کی خاطر اپنے سیاسی مفادات کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوجائے تو پھر کوئی مائی کا لال ہمیں اپنا غلام نہیں بنا سکتا۔ آئیے قومی قیادت کے انتخابات کے وقت ہوگو شاویز کی تلاش میں رہیں۔
خبر کا کوڈ : 256892
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش