0
Saturday 15 May 2010 09:37

امریکہ اور بھارت

امریکہ اور بھارت
محمد سلیم قریشی
 تو کیا اس فکری اور نظری مماثلت کے بعد بھی کسی تبصرے یا تجزیے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔جس میں بھارتی وزیر داخلہ چدم پرم اور امریکی سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن کی دھمکیاں ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔اجمل قصاب کو عدالت کی جانب سے چار مرتبہ سزائے موت اور چھ دفعہ عمر قید پر بھارتی وزیر داخلہ نے کہا تھا ”یہ فیصلہ پاکستان کے لئے ایک پیغام ہے وہ یہ کہ پاکستان اپنی دہشت گردی کو بھارت برآمد نہ کرے“ اور ہیلری کلنٹن کا ملا عمر اور اسامہ بن لادن کا پاکستانی حکام سے روابط کے الزام کے پہلو بہ پہلو یہ بیان کہ ”ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہم پر حملے کے لئے لوگوں کو تربیت دے کر امریکہ بھیجا جائے“۔ ایک ہی بات کے الگ الگ خدوخال اور ایک ہی چکّی کے دو پاٹ ہیں۔ 
اس بیان سے دو روز پہلے ایک پاکستانی نژاد امریکی باشندے کی ٹائمز اسکوائر کو بم دھماکے سے اڑانے کی ناکام کوشش پر امریکی سیکرٹری خارجہ نے کہا تھا ”آئندہ ٹائمز اسکوائر جیسا واقعہ ہوا تو پاکستان کو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے“ یہ ایک پیش قدمی کرنے والی اسٹریٹجی ہے جو اسلامی دہشت گردی کے نام پر پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور اسے گھیرنے کی کوشش ہے،جس میں بھارت کے بعد امریکی تائید و حمایت سے روس بھی اپنے قدم دوبارہ جمانے کیلئے کابل میں آگیا ہے۔روسی سفیر برائے افغانستان نے بڑے بڑے افغان رہنماؤں کریم خلیلی،رشید دوستم،اسماعیل خان اور احمد کرزئی سے رابطے کئے ہیں۔امریکی فوجی کمانڈ نے بڑی مشاورت کے بعد بھارت کو افغانستان میں مضبوط بنانے کے لئے روس کے کردار،اس کی افغانستان میں آمد اور اس کے سیاسی کردار اور رابطوں کو استوار کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ 
بھارت میں امریکی سفیر ٹموتھی جے روئمر نے 4 روز میں وزیراعظم منموہن سنگھ سے دو مرتبہ ملاقات کی اور امریکی حکام کی طرف سے بھارت کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان بھارتی سرحد کے قریب اپنی سرگرمیاں محدود کر رہا ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ خطے میں امریکہ بھارت اسٹریٹجی پارٹنر شپ مل کر کام کر رہی ہے،جس کا ہدف پاکستان ہے۔پاکستان کو مشکوک انفرادی سرگرمیوں پر تصنع پر مبنی تند و تیز بیانات اور پروپیگنڈے کے حربے سے ملامت کا ہدف بنایا جا رہا ہے جب کہ پاکستان کی سلامتی کی مخدوش صورتحال اور معاشرتی امن کی بربادی میں امریکہ اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں اور فورسز نے نہایت گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ 
امریکہ کی خوفناک ترین انٹیلی جنس ایجنسیاں اور فورسز پاکستان کے مختلف علاقوں میں اپنے خود ساختہ پاکستانی طالبان کی آڑ لے کر دہشت گرد کارروائیاں اور قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرونز سے میزائل حملے کر رہی ہیں۔منگل 11مئی کو ایک ہی دن میں 27 حملے کئے گئے جن میں 32 افراد ہلاک ہوئے،لیکن امریکہ کا غرور اور جہل مرکب پناہ گاہ اور ریاست کے سہارے سے محروم ان خاک نشینوں کی ہلاکت پر کوئی شرم اور پشیمانی محسوس نہیں کرتا جبکہ ٹائمز اسکوائر میں ایک امریکی شہری کے اضطراری فعل پر جس میں کوئی دھماکہ ہوا اور نہ ہی مالی اور جانی نقصان،پاکستان کے خلاف دھمکیوں اور پروپیگنڈے سے ہنگامہ برپا کر دیا جاتا ہے۔ہمارے غیر موٴثر خود مختاری اور غیرت سے محروم حکمران بھی ان ڈرونز حملوں اور ہلاکتوں پر قابل احتساب رد عمل اور غم و غصے کا اظہار نہیں کرتے۔امریکہ کے ساتھ تابعداری پرمبنی تعلقات سے کوئی دفاعی اور حربی کامیابی حاصل کرنے کی بجائے ہم نے اپنے پیکر قومی کو عظیم سانحات اور پریشانیوں سے دو چار کر دیا ہے۔
امریکی احکامات کی تعمیل کے علاوہ اگر ہماری کوئی نیشنل اسٹریٹجی ہے تو وہ کام نہیں کر رہی ہے۔دہشت گردی کی امریکی جنگ میں بے پناہ قربانیاں دینے کے باوجود ہم نے سودی قرضوں،مکر و فریب پر مبنی امداد اور وعدوں کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔وعدوں کے باوجود پاکستان کو امریکی منڈیوں تک رسائی دی گئی اور نہ بھارت امریکہ سمجھوتے کی طرز پر ایٹمی توانائی۔فوج کو ”کولیشن سپورٹ فنڈ کی ادائیگی بھی تاخیر سے کی جاتی ہے اور جدید فوجی سسٹم اور مطلوبہ اسلحہ کے نام پر بھی محض چند ایف سولہ طیارے ہی دیئے گئے ہیں۔
امریکہ کا قدرتی حلیف بھارت گزشتہ چھ عشروں سے پاکستان کو مذاکرات میں الجھا کر نقصان پہنچانے کی پالیسیوں پر کاربند ہے،ایک طرف خفیہ سفارتکاری،اعتماد کی بحالی کے اقدامات اور ون ٹو ون ٹیلی فونک رابطوں اور ملاقاتوں پر زور دیا جاتا ہے،تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بگلیہار ڈیم کے دوسرے حصے کی تعمیر شروع کر کے پاکستان کے حصے کا مزید پانی روکا جا رہا ہے۔کشن گنگا ڈیم کے تنازع پر بھی بھارتی ہٹ دھرمی برقرار ہے۔کشمیر کے تنازع کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی رسائی اور پانی روکنے کے اقدامات پاکستان کی سلامتی کے لئے سنگین خطرات ہیں۔امریکی صدر بارہا کہہ چکے ہیں کہ ”پاکستان اور بھارت کے درمیان جب تک تعلقات معمول پر نہیں آئیں گے اور وہ دیتانت پیدا نہیں ہو گا جس سے پاکستان اپنی سلامتی کو لاحق خطرات سے مطمئن ہو سکے۔پاکستان دہشت گردوں کے خلاف وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جس کی ضرورت ہے“۔ لیکن اس ادراک اور علمیت کے اظہار کے باوجود امریکہ نے بھارت سے پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کے ازالے کے لئے کچھ نہیں کیا۔پانی کا مسئلہ ہو یا کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی،بھارت کو امریکہ کی در پردہ حمایت ہے۔
 امریکہ،پاکستان کو بھارت کی ذیلی ریاست دیکھنا چاہتا ہے۔لیکن اس کے باوجود ہماری حکومتیں امریکہ کے آگے سربسجود ہیں۔اس کی ہر بات مان رہی ہیں امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اپنی فوج کو مشرقی سرحدوں سے کم کر کے مغربی سرحد پر تعینات کر دے۔تاکہ ایک طرف امریکہ کو افغانستان میں مجاہدین سے نمٹنے میں زیادہ نقصان نہ اٹھانا پڑے اور دوسرے بھارت پر پاکستانی دباؤ میں کمی آسکے۔یہ قدم سراسر پاکستان کی سلامتی کے منافی اور بھارت کو کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے۔جس میں بھارت کی جارحیت سے محفوظ رہنے کی واحد امید یہ امریکی وعدہ ہے کہ ”بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا“ لیکن ہم نے اس امریکی مطالبے کے آگے بھی سر خم کر دیا ہے،یوں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے امریکہ،انڈیا مشترکہ منصوبے کا راستہ صاف کر دیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کانگریس کو پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ”پاکستان نے اپنے ایک لاکھ فوجی بھارتی سرحد سے افغان سرحد پر منتقل کر دیئے ہیں“ ایک اور امریکی مطالبہ جو حالیہ دباؤ کا اصل مدعا ہے وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ہے۔تاکہ سوات اور جنوبی وزیرستان سے سرخرو ہو کر نکلنے والی پاکستان فوج کو شمالی وزیرستان میں الجھا کر تباہ کر دیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان مطالبے کی راہ میں حائل ہیں کیونکہ آپریشن کی وسعت کی وجہ سے اس کی معاملات کو سنبھالنے کی صلاحیت متاثر ہو گی۔یہ ایک درست اسٹریٹجی اور علاقے کی جنگی نفسیات کو سمجھنے کے مترادف ہے۔لیکن بعض حلقے سمجھتے ہیں کہ پاکستان زیادہ دیر تک اس امریکی دباؤ کی مزاحمت نہ کر سکے گا۔خیرہ کن وعدوں کے باوجود امریکہ پاکستان کی مادی اور اقتصادی ترقی کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی خشکی اور صحراؤں میں تبدیلی ہوتی پاک سر زمین کو سرسبز رکھنے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالنے کیلئے تیار ہے۔ 
امریکہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ ایک ناکام ریاست کو دباؤ میں لانا اور اس سے مطالبات منوانا آسان ہوتا ہے۔اس مقصد کے لئے امریکہ اور بھارت پاکستان کے خلاف شور مچا رہے ہیں تاکہ پاکستان کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کے مہیب گڑھے کی طرف دھکیلا جا سکے اس کی ایٹمی صلاحیت کو برباد کیا جا سکے۔ پاکستان کے خلاف امریکہ اور بھارت کی مشترکہ سازشوں سے نمٹنے کے لئے بڑے ارتکاز،غور و خوص اور جامعیت پر مبنی فیصلوں کی ضرورت ہے۔پاکستان کی فضا بڑی حد تک بے قرار،مضطرب اور مشتعل ہیں۔لیکن یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ افواج پاکستان دشمنوں کی سازشوں کا توڑ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔لیکن کیا عوام کی شمولیت کے بغیر ملک کا دفاع ممکن ہے؟
 ان عوام کی شمولیت ملکی معاملات میں ضروری ہے جنہیں لوڈ شیڈنگ،مہنگائی اور بری طرز حکمرانی نے ملک سے لاتعلق کر دیا ہے۔جن کی کسی کو پروا نہیں۔جن پر سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے،جن کا اعتماد بحال کرنے کا رویہ کہیں نظر نہیں آتا،سڑکوں پر جن کا احتجاج شہر در شہر پھیلتا جا رہا ہے۔جو لوگ ملک کی پہلی دفاعی لائن یعنی عوام کی ان مشکلات کے ذمہ دار ہیں وہ امریکہ اور بھارت سے بڑھ کر پاکستان کے دشمن ہیں۔ 
"روزنامہ جنگ"

خبر کا کوڈ : 25880
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش