0
Tuesday 7 May 2013 11:08

شام پر اسرائیل کے فضائی حملے

شام پر اسرائیل کے فضائی حملے
تحریر: ثاقب اکبر 

گذشتہ ہفتے اور اتوار (4 اور 5 مئی 2013ء) کو اسرائیل کی طرف سے شام کے اہم فوجی اور سائنسی تحقیق کے مراکز پر حملوں کے بعد اب اس امر میں کوئی شک نہیں رہا کہ شام میں مصروفِ جنگ دہشت گردوں اور اسرائیل و امریکہ کے مابین گہرے اور تزویراتی روابط قائم ہیں۔ غیر جانبدار مبصرین ایک عرصے سے یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ شام کو اسرائیل کے خلاف جرات مندانہ موقف کی سزا دی جا رہی ہے اور علاقے کی رجعت پسند خاندانی حکومتیں جن کے امریکہ سے دیرینہ تعلقات ہیں وہ امریکہ ہی کی ایما پر شامی باغیوں کو تمام تر سہولیات اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فضائیہ نے دارالحکومت دمشق کے نواح میں جبل قاسیون نامی علاقے میں واقع ایک فوجی تحقیقی مرکز سمیت تین مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہی فوجی مرکز جنوری میں بھی اسرائیلی حملے کا نشانہ بنا تھا اور وہاں سے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
 
شامی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جو تین فوجی مقامات نشانہ بنے ہیں ان میں جمرانہ میں واقع عسکری تحقیقی مرکز، دمشق کے علاقے الدماس میں پیراگلائیڈنگ کی ہوائی پٹی اور مسالون میں ایک مقام شامل ہے۔ یہ بیان شامی کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات عمران الذعبی نے صحافیوں کو پڑھ کر سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے جارحیت کرکے تمام بین الاقوامی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ دنیا کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس کے بعد خطے کے حالات مزید پیچیدہ ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اور قوم دہشت گردی اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرکے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی حاکمیت کے دفاع کے لیے ہم تمام وسائل بروئے کار لائیں گے اور جو لوگ شام کے کمزور ہو جانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ حملے سے متعدد شامی شہری ہلاک اور زخمی ہوئے اور بڑے پیمانے پر تباہی بھی ہوئی اور اس حملے سے اسرائیل، دہشتگرد گروپوں اور ان کے حامی النصرہ فرنٹ کے درمیان تعاون کی نشاندہی ہوتی ہے۔
 
توجہ طلب امر یہ ہے کہ یہ فقط شامی حکومت کا الزام نہیں بلکہ شام میں حکومت مخالف مسلح گروہ کے ایک کمانڈر حسن رستناوی کے اسرائیل کے ٹی وی چینل 2 کو دیئے گئے ایک انٹرویو سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے۔ حسن رستناوی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی طیاروں کے حملے نے شام مخالف فوج کو ناامیدی سے نکالا ہے۔ اسرائیلی حملوں کا استقبال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس سے جنگجوؤں کا دل خوش ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فری آرمی جس کا جذبہ سرد پڑ چکا تھا، اس حملے نے اسے ایک نیا ولولہ عطا کیا ہے۔
ایک روسی سفارت کار نے بھی شامی موقف کی تائید کی ہے، سابق روسی سفارت کار فیٹشسلاف موتوزف کا کہنا ہے کہ دمشق کے فوجی اور تزویراتی ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے اسرائیلی حکومت کے مسلح دہشت گردوں سے تعلقات کی واضح علامت ہیں۔ سفارتکار کے مطابق کرائے کے دہشت گردوں کی امریکہ کی طرف سے سرپرستی روس اور شام کے مابین تمام شعبوں میں تعاون میں اضافے کا باعث بنے گی۔
 
شام مخالف اتحاد کے ساتھ اسرائیلی روابط کی خبریں خود اسرائیلی اخبارات بھی دے رہے ہیں۔ اسرائیلی اخبار بدیعوت احارونوت کے فوجی خبرنگار الکس فشمین نے لکھا ہے کہ امریکہ علاقے میں خفیہ طور پر ایک نیا اتحاد 4+1 بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ خبرنگار کے مطابق 4 سے مراد سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات اور شام کے حکومت مخالف عناصر کا اتحاد ہے۔ یہ چاروں عرب ہیں جبکہ 1 سے مراد ترکی ہے۔ خبر نگار کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اردن کا خفیہ دورہ کیا ہے، جہاں شام میں کارروائیاں کرنے کے لیے تخریب کاروں کو تربیت دی جا رہی ہے۔ خبرنگار کے مطابق اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین روابط نسبتاً دشوار ہیں، البتہ معلوم ہوتا ہے کہ پس پردہ گہرے تعلقات موجود ہیں جو بتدریج ظاہر ہو رہے ہیں۔ 

خبرنگار کے مطابق سال رواں میں فروری کے آغاز میں برلن میں وزرائے دفاع کی کانفرنس کے موقع پر مشیروں، ماہرین اور محافظین کے ہمراہ سعودی ولی عہد اور وزیر دفاع سلمان بن عبدالعزیز ایک مقام سے گزرتے ہوئے سب سے الگ ہوکر اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک سے ملے۔ انھوں نے آپس میں مصافحہ کیا۔ دونوں طرف کے محافظین کے لیے یہ بات حیران کن تھی کیونکہ وہ دونوں آپس میں یوں گفتگو کر رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے قدیمی دوست ہوں۔ خبرنگار کے مطابق امریکی حکومت جانتی ہے کہ سعودی قیادت میں عرب ممالک سے تعلقات اسرائیل کی حفاظت کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
 
ان دنوں شام کے حوالے سے خطے کی موجودہ اور آئندہ حکمت عملی طے کرنے کے لیے اسرائیل اور شام کی نام نہاد آزاد فوج کے مابین روابط اور تبادلہ خیال کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ میں آرہی ہیں۔ ایک خبر کے مطابق آئندہ جمعرات (10 مئی 2013ء) کو واشنگٹن کے انفارمیشن سنٹر میں سابق اسرائیلی وزیر خارجہ ٹزیپی لیونی اور نام نہاد آزاد فوج کے نمائندوں کے مابین ایک ملاقات منعقد ہوگی۔ اس میں آزاد فوج کے ترجمان عبدالحمید زکریا اور شام مخالف دہشت گردوں کے حلب میں کمانڈر عبدالجبار العکیدی شریک ہوں گے۔ امریکہ کی طرف سے چاک ہیگل نمائندگی کریں گے۔ رپورٹ کے مطابق اس نشست میں فلسطین، شام اور مصر کے حوالے سے بات کی جائے گی۔
 
دلچسپ امر یہ ہے کہ 4+1 کے غیر عرب اتحادی ترکی کے بھی اسرائیل کے ساتھ گہرے روابط قائم ہیں۔ خاص طور پر طیب اردگان کی فیملی کے تجارتی تعلقات ترکی کے جہاز مرمرہ پر اسرائیلی حملے کے بعد بھی قائم رہے ہیں۔ اسرائیلی اخبار بدیعوت احارونوت نے لکھا ہے کہ رجب طیبب اردگان کے بیٹے احمد براق اردگان نے گذشتہ تین سالوں میں اسرائیل کے ساتھ اسرائیل کے اندر متعدد نئی تجارتی قراردادوں پر دستخط کئے ہیں۔ اس دوران میں ایم بی نام کی تجارتی کمپنی کہ احمد براق اردگان جس کے حصے دار ہیں، کے بحری جہازوں کی مسلسل ترکی اور اسرائیلی بندرگاہوں کے درمیان نقل و حرکت قائم رہی۔ 

اخبار کے مطابق سفران 1 نامی ایک بحری جہاز جو 95 میٹر لمبا ہے، اس کمپنی کی طرف سے پہلی مرتبہ جنوری 2013ء کو اسرائیلی بندرگاہ اسدود میں تجارتی سامان لے کر پہنچا۔ سی ایچ پی گروپ کی ترک سربراہ امینہ لوکر طرحان نے حال ہی میں انقرہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران میں اس حوالے سے ترک وزیراعظم کے تضادات پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا اسرائیل سے تجارت کی ممانعت سے تمھارا بیٹا مستثنٰی ہے۔؟ کیا یہ ایک اخلاقی کام ہے؟ انھوں نے سوال کیا کہ اسرائیل سے تمھارے بیٹے کے تجارتی جہاز کی تجارت کا حجم کتنا ہے۔؟
 
اس ساری صورت حال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے خلاف 4+1 کا اتحاد درحقیقت امریکی اور صہیونی مفادات کا آلہ کار ہے۔ وہ لوگ جو اس سلسلے میں کسی غلط فہمی میں تھے انھیں ان حقائق پر ایک نظر ڈال کر اپنی رائے کو ازسرِ نو متعین کرنا چاہیے۔ پاکستان میں بعض احباب کا خیال ہے کہ جس طرح سے مصر میں اخوان المسلمین مبارک حکومت کے خلاف برسرپیکار تھی، اسی طرح شام میں اخوان المسلمین شامی حکومت کے خلاف نبردآزما ہے۔ خود مصر میں بھی فقط اخوان المسلمین میدان میں نہ تھی جبکہ شام میں اسرائیل کی واضح مداخلت، ہمسایہ شاہی حکومتوں کی طرف سے دہشت گردوں کی سرپرستی اور حضرت حجر ابن عدی رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسے بلند مقام صحابی رسول (ص) کے مزار کی پامالی جیسے واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ شام کے خلاف کس طرح کا محاذ مصروف کار ہے۔
 
خواب و خیال کی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا میں واپس آئے بغیر امت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور اس کے لئے عصر حاضر میں ایک معیار ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ جس تحریک کی سرپرستی کر رہے ہوں وہ کسی صورت بھی برحق نہیں ہوسکتی اور وہ تحریک جو اسرائیل اور امریکہ کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑی ہو حق کو اسی کی صفوں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں انقلاب اسلامی ایران کے روحانی پیشوا امام خامنہ ای کے الفاظ بہت عمدگی سے معیار کو واضح کرتے ہیں:
’’اسلامی بیداری کی تحریکوں کی صحیح سمت کو پرکھنے کے لئے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں ان کے موقف کو دیکھنا چاہئے۔ ساٹھ سال سے اب تک امت اسلامیہ کے قلب پر سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضے سے بڑا کوئی زخم نہیں لگا ہے۔ یہ ایک کسوٹی ہے۔ جو بھی قدس شریف کی آزادی اور فلسطینی قوم و سرزمین کی نجات کے نعرے کو قبول نہ کرے یا اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرے اور مزاحتمی محاذ سے روگرداں ہو جائے، وہ الزام اور شک کے دائرے میں آجائے گا۔ امت اسلامیہ کو چاہئے کہ ہر جگہ اور ہر وقت اس نمایاں اور اساسی معیار اور کسوٹی کو مدنظر رکھے۔‘‘
خبر کا کوڈ : 261437
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش