0
Friday 17 May 2013 13:47

ایران پر حملے کی اسرائیلی دھمکیاں، کتنی حقیقت کتنا بلف؟

ایران پر حملے کی اسرائیلی دھمکیاں، کتنی حقیقت کتنا بلف؟
اسلام ٹائمز- ینگ جرنلسٹس کلب کے مطابق اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم نے ہمیشہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے لئے ایک سیریس ایشو قرار دیا ہے اور ایران کی جانب سے کمترین ایٹمی فعالیت کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اکثر مغربی اور غیرعرب ممالک ایران کی جانب سے کم پیمانے پر جوہری سرگرمیوں کو رسمی طور پر قبول کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری پروگرام کی مخالفت کی اصلی وجہ ایران اور اسرائیل کے درمیان پائی جانے والی دشمنی ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم نے ایران کے جوہری پروگرام کو ہمیشہ سے بدبینی کی نظر سے دیکھا ہے اور اپنی اسی بدبینی پر مبنی نظر کی بنیاد پر امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر فوری اقدام انجام دے۔ 

اسی طرح اسرائیل بارہا اعلان کر چکا ہے کہ جب بھی اسے ایران کی جوہری سرگرمیوں سے خطرہ محسوس ہو گا وہ بغیر کسی مشورے اور درنگ کے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو ہوائی حملے کا نشانہ بنائے گا۔ اسی بدبینانہ نگاہ اور سوچ کی بنیاد پر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ستمبر 2012ء میں برگزار ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے یہ دعوا کیا تھا کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ایران 2013ء کی گرمیوں میں اسکی جانب سے تعیین کردہ "ریڈ لائن" سے عبور کر جائے گا۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی دھمکیوں کا ایک اہم مقصد ایران کے خلاف نفسیاتی اور میڈیا وار شروع کرنا ہے لیکن ان دھمکیوں کے پس پردہ عوامل انہیں اھداف میں خلاصہ نہیں ہوتے کیونکہ اسرائیل کے گذشتہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکے فیصلے قابل پیش بینی نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اسرائیل نے گذشتہ کئی عشروں کے دوران عراق اور شام جیسے ممالک کی جوہری تنصیبات کو اپنے ہوائی حملوں کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ 

لہذا ایران کے خلاف اسرائیلی دھمکیوں کو مغربی مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنے کیلئے ایران پر دباو ڈالنے کی خاطر اسکے خلاف محض نفسیاتی یا میڈیا وار شروع کرنے کیلئے قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جنکی وجہ سے اسرائیل اب تک ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے سے گریز کرتا آیا ہے؟

اس سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ اب تک کئی اندرونی، علاقائی اور بین الاقوامی عوامل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملے میں رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ موانع آہستہ آہستہ کمزوری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ موجودہ کالم میں انہیں عوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 
ہر ملک کو ایک نئی جنگ شروع کرنے سے قبل کئی قسم کے چیلنجز اور موانع کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض چیلنجز اور رکاوٹیں شائد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر ختم ہو جائیں اور بعض دوسرے موانع اپنی جگہ پر باقی رہیں لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ضرورت پڑنے پر جنگ شروع ہو جانے کی صورت میں وہ موانع اور رکاوٹیں حقیقت میں جنگ شروع ہونے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو سکیں۔ یہی بات ایران کے خلاف اسرائیل کے احتمالی حملے میں بھی صادق آتی ہے۔ 

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کو اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کرنے میں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ ان میں سے بعض چیلنجز ہو سکتا ہے ختم ہو جائیں لیکن گذشتہ تجربات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسرائیل ایران کے خلاف جنگ کو ضروری سمجھے تو وہ اپنے سامنے موجود چیلنجز اور رکاوٹوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ ور ہونے میں اسرائیل کو مندرجہ ذیل چیلنجز اور موانع درپیش ہیں:

1.    اسرائیل کی محدود اور ناکافی فوجی صلاحیتیں:
اسلامی جمہوریہ ایران کی جوہری تنصیبات پر یکطرفہ اور اچانک حملے میں اسرائیل کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اس مقصد کیلئے ضروری فوجی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ہوائی حملوں کیلئے اسرائیل کو ایسی دو قسم کی فوجی صلاحیتوں کی اشد ضرورت ہے جو آپس میں مرتبط بھی ہیں۔ پہلی یہ کہ اسرائیل ایسی نوعیت کی فوجی صلاحیت کا محتاج ہے جو ایران اور اسرائیل کے درمیان موجود عظیم فاصلے کا جبران کر سکے اور ایران کی سرزمین میں واقع کئی مقامات کو ایک ہی وقت میں کامیابی کے ساتھ ہوائی حملوں کا نشانہ بنا سکے۔ دوسری فوجی صلاحیت جسکی اسرائیل کو اشد ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے بعد ایران کے متوقع ردعمل اور اسکی جانب سے انجام پانے والے میزائل حملوں کا دفاع کر سکے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو بھیجی جانے والے تازہ ترین فوجی امداد کے ذریعے یہ مسئلہ ایک حد تک اسرائیل کیلئے حل ہو چکا ہے۔ 

2.    امریکہ کی مخالفت:
اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ہر قسم کے کامیاب ہوائی حملے کیلئے اسے امریکہ کی فوجی اور سیاسی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ امریکہ نے بھی ہمیشہ سے اسرائیل کی جانب سے ایران پر یکطرفہ حملے کی مخالفت کی ہے لہذا اسرائیل امریکہ کو راضی رکھنے پر مجبور ہے کیونکہ دوسری صورت میں اسے یہ پریشانی لاحق ہے کہ امریکہ اس کو دی جانی والی فوجی امداد کو روک سکتا ہے یا ایران پر حملے کی صورت میں پیدا ہونے والی صورتحال میں اسرائیل کو تنہا چھوڑ سکتا ہے اور اسکے دفاع میں ایران کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے گریز کر سکتا ہے۔ 

لیکن یہ مسئلہ وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ امریکی سینٹ کی روابط خارجہ کمیٹی میں یہ قانون پاس ہو چکا ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کی صورت میں امریکہ اسرائیل کی حمایت اور اسکا دفاع کرنے کا پابند ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں امریکی وزیر دفاع نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ہوائی حملہ انجام دینے یا نہ دینے کا اختیار خود اسرائیل کو ہی سونپ دیا ہے۔ 

3.    ایران کی فوجی صلاحیتیں:
ایران کی فوجی طاقت خاص طور پر میزائل ٹیکنولوجی میں ایران کی حیرت انگیز ترقی اور اسکے علاوہ علاقائی سطح پر اپنے متحدین کی تقویت ایران کے خلاف اسرائیلی حملے کی راہ میں ایک انتہائی اہم رکاوٹ جانی جاتی ہے۔ اسرائیل کے پاس ایران کی فوجی طاقت اور اسی طرح ایران کے اندر اور خطے میں ایران کی حامی قوتوں کے پاس موجود میزائل ٹھکانوں کی ایگزیکٹ پوزیشن کے بارے میں صحیح اور مکمل اطلاعات موجود نہیں۔ یہ اسٹریٹجک عدم آگاہی اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے میں احتیاط برتنے کا باعث بنی ہے۔ اسرائیلی حملے کے مقابلے میں یہ اہم رکاوٹ اگرچہ آج بھی پوری طاقت سے موجود ہے لیکن اسے دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک یہ کہ ایران کو درپیش اقتصادی مشکلات اسکی فوجی اور دفاعی صلاحیتوں کو کمزور کر سکتی ہیں اور دوسرا خطے میں اسکا ایک اہم اتحادی یعنی شام شدید بیرونی دباو اور مشکلات کا شکار ہو چکا ہے۔ 

4.    شام کی حکومت:
شام وہ تنہا ملک ہے جو رسمی طور پر خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا اتحادی جانا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ شام کی حکومت کو مزید مضبوط بنائے اور خطے میں اس کے اثرونفوذ کو مزید فروغ دے اور شام میں موجود سیاسی نظام کو مزید مستحک کرے۔ اسی طرح بعض تجزیات کی روشنی میں اس بات کا قوی امکان پایا جاتا ہے کہ ایران نے اپنے بعض میزائل ٹھکانے شام کی سرزمین میں نصب کر رکھے ہوں۔ اسرائیل کے نزدیک اس قسم کی خبروں کی تصدیق یا تردید نہ ہونا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کوئی فوجی اقدام کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کیونکہ یہ عدم آگاہی ایران کی جانب سے کسی بھی اچانک اور غیرمتوقع ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔ 

شام میں رونما ہونے والے موجودہ سیاسی بحران نے اس عامل کو بہت حد تک کمزور کر دیا ہے۔ اسرائیل دو صورت میں شام کی طرف سے درپیش چیلنجز سے جان چھڑا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ شام میں حکمفرما سیاسی نظام تبدیل ہو جائے اور ایک ایسی حکومت برسراقتدار آ جائے جو اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالف ہو یا کم از کم اسکی حامی اور طرفدار نہ ہو۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اگرچہ شام کی موجودہ حکومت سرنگون نہ ہو لیکن اسے مکمل طور پر مفلوج کر دیا جائے۔ یعنی شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے شام کی حکومت اس قدر کمزور ہو جائے کہ حتی اپنے اندرونی مسائل تک حل کرنے سے عاجز آ جائے۔ ان دو صورتوں میں اگر اسرائیل اسلامی جمہوریہ ایران کی جوہری تنصیبات کو ہوائی حملے کا نشانہ بناتا ہے تو اسے یہ یقین حاصل ہو گا کہ شام کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آ سکتا۔ 

5.    حماس اور ایران کے حامی فلسطینی گروہ:
ایران کے حامی فلسطینی گروہ بھی ایک حد تک اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیلی حملے میں رکاوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ گروہ اسرائیل کے انتہائی قریب ہیں لہذا کسی بھی بحرانی صورتحال میں اسرائیل کو کافی حد تک نقصان پہنچانے کی صلاحیت سے برخوردار ہیں۔ 

دوسری طرف گذشتہ چند ماہ کے دوران قطر، مصر اور ترکی نے حماس سے نزدیک ہونے اور اسے ایران اور شام سے دور کرنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ امریکی صدر براک اوباما کے حالیہ دورہ اسرائیل کے بعد اسرائیلی صدر نے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کی بابت ترکی سے رسمی طور پر معذرت خواہی کا اعلان کیا۔ اسرائیل کی جانب سے ترکی سے غزہ کی جانب گامزن فریڈم فلوٹیلا پر وحشیانہ فوجی حملے کے تین سال بعد اس وقت ترکی سے معذرت خواہی کرنا انتہائی معناخیز ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ ترکی فلسطین میں سرگرم اسلامی مزاحمت کی تحریک "حماس" کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور حماس بھی غزہ میں اسرائیل کے خلاف نبردآزما دوسرے جہادی گروپس کو کنٹرول کرنے پر قادر ہے۔ لہذا اس اسٹریٹجک مقصد کے حصول کیلئے اسرائیل ترکی سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔ 

6.    حزب اللہ لبنان:
حزب اللہ لبنان کا گروہ ایک غیرحکومتی کھلاڑی کے طور پر اسرائیل کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا بڑا اسٹریٹجک اور نظریاتی اتحادی اور حامی جانا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران حزب اللہ لبنان کو ڈرون طیاروں سے مسلح کرنے میں بھی کامیاب ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جنوبی لبنان میں ایران کے میزائل ٹھکانوں کی موجودگی کا خدشہ اسکی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر ہوائی حملوں کی دھمکی کو عملی جامہ نہ پہنانے میں انتہائی موثر اور کارگر ثابت ہوا ہے۔ 

آج اگرچہ شام میں رونما ہونے والے سیاسی بحران نے ایک حد تک حزب اللہ لبنان کو بھی متاثر کیا ہے لیکن اس سے حزب اللہ لبنان کی اسرائیل کے خلاف کارکردگی اور موثر ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے لبنان کی سرحدوں بھاری تعداد میں فوج کی تعیناتی کی شائد یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اسرائیل چاہتا ہے اسلامی جمہوریہ ایران کی جوہری تنصیبات پر ہوائی حملے کے ساتھ ہی حزب اللہ لبنان پر بھی زمینی اور ہوائی حملوں کا سلسلہ شروع کر دے۔ 

نتیجہ گیری:
اگرچہ اسرائیل کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملے کے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے اسرائیل کے اندرونی مسائل اور مشکلات کو بھی مدنظر قرار دینے کی ضرورت ہے لیکن ہمیں اس نکتے کی جانب متوجہ رہنا چاہئے کہ کسی بھی ملک کے سیاست دان فوجی اور سیکورٹی فیصلے کرتے وقت اپنے اندرونی مسائل و مشکلات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور خاص طور پر اسرائیل کے گذشتہ فوجی اقدامات کو مدنظر قرار دینے کے بعد یہ امر زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ 

لہذا مذکورہ بالا تمام مطالب کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے موصول ہونے والی دھمکیوں کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں اور دوسری طرف اسرائیل کی جانب سے کسی بھی قسم کے فوجی اقدام کو رسمی طور پر اعلان جنگ کے معنا میں بھی نہیں لینا چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنی قومی سلامتی اور دفاعی امور کے بارے میں غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ اسرائیل کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دھمکیوں کا زیادہ حصہ نفسیاتی جنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 262142
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش