0
Thursday 20 May 2010 10:57

ایران پر نئی پابندیوں کی امریکی کوشش

ایران پر نئی پابندیوں کی امریکی کوشش
ثروت جمال اصمعی 
ایران کے خلاف نئی پابندیوں کی امریکی کوششوں کو ترکی اور برازیل کے ساتھ ایرانی حکومت کے جوہری معاہدے نے یقینا سخت دھچکا پہنچایا ہے،جس کے نتیجے میں صورت حال نہایت دلچسپ ہو گئی ہے۔اس سمجھوتے کے تحت جو ترکی کے صدر رجب طیب اَردُوغان اور برازیل کے صدر لولا ڈا سِلوا کی کوششوں سے پایہٴ تکمیل کو پہنچا، ایران 1200 کلوگرام کم افزودہ یورینیم ترکی کو بھیج کر اس کے بدلے ترکی سے جون کے آخر تک 120 کلوگرام،بیس فی صد افزودہ یورینیم تہران ریسرچ ری ایکٹر میں میڈیکل آئسو ٹوپس کی تیاری کے لیے حاصل کرے گا۔یہ مقداریں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکا،برطانیہ،فرانس،روس،چین اور ان کے ساتھ غیر مستقل رکن جرمنی کی جانب سے تجویز کی گئی تھیں اور گزشتہ اکتوبر میں عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ذریعے ایران کو اس سے آگاہ کیا گیا تھا۔
 تاہم امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کو یقینا یہ امید نہیں تھی کہ برازیل اور ترکی کے تعاون سے ایران اس تجویز کے مطابق معاہدہ کر کے گیند امریکا ہی کے کورٹ میں پھینک دے گا۔چنانچہ اس پیش رفت پر امریکی حکومت سخت پیچ و تاب کھانے کے باوجود خاصی بے بس دکھائی دیتی ہے۔اس کا اندازہ تہران میں معاہدے کے فوراً بعد وائٹ ہاوٴس کے پریس سیکریٹری رابرٹ گبس کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے،جس میں بدرجہ مجبوری اس معاہدے کا خیرمقدم کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کو ڈرانے دھمکانے کی کھسیانی کوشش بھی کی گئی ہے۔
بیان میں ان نمائشی خیرمقدمی الفاظ کے بعد کہ”ہم ان کوششوں کی قدر کرتے ہیں جو ترکی اور برازیل کی جانب سے کی گئیں۔“ دل میں چھپے اصل جذبات کا اظہار یوں کیا گیا ہے ”امریکا اپنے بین الاقوامی شرکاء کے ساتھ اس سلسلے میں کام جاری رکھے گا،اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے توسط سے ایرانی حکومت پر واضح کرتا رہے گا کہ اسے محض الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بین الاقوامی ذمہ داریوں کے ساتھ چلنے کی خواہش کو ثابت کرنا ہو گا ورنہ پابندیوں سمیت نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔“
امریکا سے استعماری مفادات کے رشتے میں بندھی یورپی یونین نے یہی راگ یوں الاپا ہے:”اگر ایران نے اب بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی تجویز قبول کر لی ہے تو ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں، لیکن اس سے اصل مسئلہ حل نہیں ہوتا،جو یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری،ایرانی جوہری پروگرام کے پرامن عزائم پر مبنی ہونے کے حوالے سے سنجیدہ تشویش کا شکار ہے۔“یہ بات یورپی یونین کی ترجمان Maya Kocijancic نے معاہدے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ ہی کی تجویز کے مطابق عمل کیا جا رہا ہے تو پھر آپ کی تشویش دور کیوں نہیں ہوتی۔اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ صورت حال آپ کے اندازوں کے برعکس ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اب آپ کے لیے ہنسنا بھی مشکل ہے اور رونا بھی۔ چنانچہ آزاد ماہرین کی رائے ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی ایران کے خلاف پابندیوں کے چوتھے مرحلے کے نفاذ کی آئندہ چند ہفتوں میں سلامتی کونسل سے منظوری کے لیے عرصے سے جو کوششیں کر رہے تھے،ایران ترکی اور برازیل کے وزرائے خارجہ کے دستخطوں سے طے پانے والے اس سہ فریقی سمجھوتے نے ان میں ایک بڑا رخنہ ڈال دیا ہے۔ترکی اور برازیل دونوں سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن ہیں،اور ایران سے اس معاہدے کے بعد ان کی جانب سے ایران پر نئی پابندیوں کے حق میں ووٹ دیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کے دوسرے غیر مستقل ارکان بھی امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے تابع مہمل بنے رہنے کے بجائے ایران کے خلاف پابندیوں کے حق میں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کر سکتے ہیں،جبکہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان روس اور چین کی جانب سے،جنہوں نے ان سطور کے لکھے جانے کے وقت تک اس معاہدے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، پابندیوں کی نئی قرارداد کو ویٹو کیے جانے کے امکانات بھی خاصے روشن ہو گئے ہیں۔
ایران،ترکی اور برازیل کا یہ معاہدہ ایران کے خلاف نئی پابندیوں کی کوشش میں کتنی بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے اور اس سے ایران کے خلاف امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں کے عزائم کو کس حد تک نقصان پہنچ سکتا ہے،اس حوالے سے کولمبیا یونیورسٹی سے وابستہ ایرانی امور کے امریکی ماہر اور صدر جیرالڈ فورڈ،جمی کارٹر اور رونالڈ ریگن کے ساتھ ایران پر کام کرنے والے محقق اور تجزیہ کار Gray Sick کا یہ تبصرہ نہایت چشم کشا ہے:
There are those in Washington (but also in Paris and London) who were fully committed to passing a strong sanctions resolution in the United Nations Security Council next month, and this is a blow to them and all the intense diplomatic work they have done in the past five or six months. Clearly, it will be immensely more difficult, if not impossible, to get a sanctions resolution if this deal is on the table.
”واشنگٹن میں ایسے لوگ ہیں جو آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زبردست پابندیوں کی نئی قرار داد کی منظوری کے لیے انتہائی پرعزم تھے،جبکہ یہ معاہدہ ان کے،اور پچھلے پانچ چھ مہینوں میں انتہائی عرق ریزی سے کیے گئے ان کے سارے کام کے لیے تباہ کن دھچکا ہے۔میز پر یہ سمجھوتہ موجود ہوا تو پابندیوں کی قرارداد کا لانا،محال نہیں تو واضح طور پر انتہائی مشکل ضرور ہو گا۔“ جبکہ قرارداد آبھی گئی تو اس کی منظوری بہرحال تقریباً ناممکن دکھائی دیتی ہے۔
اس طرح ایران نے امریکا اور دوسری مغربی سامراجی قوتوں کے عزائم کے خلاف ترکی اور برازیل کے تعاون سے یقینا ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور پاکستان سمیت امریکا کو دنیا کا مالک و آقا سمجھنے والے تمام مسلم ملکوں کے حکمرانوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے۔ 
"رونامہ جنگ"

خبر کا کوڈ : 26225
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش