0
Tuesday 14 May 2013 18:50

خیبر پختونخوا میں عمران خان کا سونامی

خیبر پختونخوا میں عمران خان کا سونامی
تحریر: رشید احمد صدیقی 

11 مئی کے انتخابات کے نتائج خیبر پختونخوا میں مکمل طور پر غیر متوقع تھے۔ عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ دیا اور یہاں کے عوام نے اس امر کو نہیں دیکھا کہ امیدوار کون ہے۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر انہوں نے عمران خان کے انتخابی نشان کو دیکھا، اس پر ٹھپہ لگایا اور بڑے بڑے برج الٹ دیئے۔ پشاور میں بشیر بلور کا حلقہ ایسا تھا جو وہ ایم ایم اے کے طوفان میں بھی بچا گئے تھے۔ لیکن عمران خان کے سونامی میں ان کی شہادت کا فائدہ بھی ان کے فرزند نہ اٹھا سکے۔ جائزوں میں یہ پیش گوئی تھی کہ صوبہ میں عمران خان کی مقبولیت نواز شریف سے تھوڑی سی زیادہ ہے لیکن نتائج میں ان کا فرق 34 اور 12 کا رہا۔ عمرا خان کا نام الیکشن سے پہلے زبان زد عام تھا لیکن مبصرین کہتے تھے کہ تحریک انصاف کے پاس نامی گرامی امیدوار نہیں ہیں اور عام آدمی کا ووٹ پہلے سے متعارف لیڈروں کو ملے گا، لیکن نتائج برعکس نکلے اور کسی نے امیدوار کو نہیں دیکھا بلکہ عمران کے انتخابی نشان کو دیکھا۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کا صفایا ہوگیا۔ جمعیت العلمائے اسلام دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ جماعت اسلامی ایک منظم اور بھرپور مہم چلانے کے بعد توقع سے 60 فی صد کم نتائج حاصل کرسکی۔ آفتاب شیرپائو حسب معمول اپنے آپ کو مولانا فضل الرحمان کے ساتھ نتھی کرکے اپنا بیڑا پار کر گئے۔ 

ذیل میں مئی کے خیبر پُختونخوا میں نتائج کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی مرکز اور صوبہ میں اتحادی جماعتیں رہیں۔ اس دوران پورا صوبہ دہشتگردی کی لپیٹ میں رہا۔ سب سے زیادہ اے این پی کو اس کا نقصان اٹھانا پڑا اور ایک تاثر یہ تھا کہ اے این پی ہمدرردی کا ووٹ لے کر اپنی قربانیوں کا صلہ پا لے گی۔ لیکن عوام دہشت گردی کی جنگ میں حکومتی پالیسی سے نالاں تھے۔ یہ پالیسی چونکہ امریکہ کی ایماء پر اپنائی گئی تھی، لہذا خیبر پختونخوا کی عوام نے اس پالیسی کے خلاف کھلم کھلا اور بھرپور اعلان جنگ کرکے دونوں جماعتوں کا صفایا کر دیا۔ عمران خان نے دہشت گردی، ڈرون حملوں اور امریکی پالیسیوں کے خلاف جاندار آواز اٹھائی۔ عوام نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور ان کو توقع سے زیادہ پذیرائی دی۔ ان نتائج کا حیران کن پہلو یہ رہا کہ عمران خان کی طرح جماعت اسلامی کا موقف بھی امریکہ مخالفت پر مبنی تھا۔ بلکہ ان سے کچھ زیادہ سخت تھا۔ دونوں کے درمیان کافی نظریاتی قربت تھی۔ لیکن عوام نے جماعت اسلامی کو بھی ایک طرح سے مسترد کر دیا۔ سوائے دیر اور ضلع بونیر کے اس کے تمام امیدوار بری طرح ہار گئے۔ یہ جماعت اسلامی کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جس منشور پر پاکستان تحریک انصاف کو پذیرائی ملی عوام نے اسی منشور پر جماعت کو مسترد کیا۔ 

دوسری طرف جے یو آئی رہی۔ جس کا گذشتہ پانچ سال میں آدھی سے زیادہ مدت تک پیپلز پارٹی سے اتحاد رہا۔ جس کی پالیسی عملی طور پر امریکہ مخالف نہیں تھی پھر بھی اس کو عوام نے ووٹ دیئے اور 15 نشستوں کے ساتھ صوبہ میں تحریک انصاف کے بعد دوسرے نمبر پر رہی۔ جمعیت العلماء اسلام کی کامیابی کی وجوہات نظریاتی اور منشور سے زیادہ حکمت عملی کی مرہون منت رہی۔ انھوں نے چارسدہ، صوابی، بونیر، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان میں مقامی طور پر ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اپنائی۔ انھوں نے امیدوار بھی ایسے رکھے جن کی کامیابی کا امکان زیادہ تھا۔ اگرچہ پشاور، مردان نوشہرہ، سوات اور دیر میں ان کی یہ پالیسی ناکام رہی لیکن پھر بھی ان کی جماعت ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ مولانا فضل الرحمان نے ایسے امیدوار دوسری جماعتوں سے کاٹ کر ان کو ٹکٹ دیا تھا جو اہل ثروت تھے اور جنھوں نے پیسے کا خوب استعمال کیا لیکن عمران خان کے سونامی میں وہ بھی بہہ گئے۔ انتخابات میں کامیاب حکمت عملی اپنانے کے بعد مولانا فضل الرحمان تحریک انصاف سے نصف سے بھی کم عددی اکثریت کے باوجود حکومت سازی کے لیے سرگرم ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ نواز شریف اور آفتاب شیرپائو ان سے مل کر حکومت بنائیں اور تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے روکیں۔

اگرچہ نواز شریف اور مسلم لیگ نون کی جانب سے مسلسل یہ اشارے دیے جا رہے ہیں کہ وہ اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور اسے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع دینا چاہتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان بضد ہیں کہ سب ان کے ساتھ مل کر عمران خان کی جماعت کا راستہ روکیں۔ وہ اپنی اس کوشش میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں ایک دو روز میں اس کا پتہ چل جائے گا۔ مستقبل کا جو نقشہ بنتا نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ 13 میں سے بیشتر آزاد امیدوار مل جائیں گے اور ان کی تعداد میں کم از کم دس کا اضافہ ہو جائے گا۔ عام نشستوں میں سے 44 کے حساب سے تحریک انصاف کو خواتین کی آدھی یعنی دس نشستیں اور اقلیتوں کی بھی چار تک نشستیں مل جائیں گی۔ یوں اس کی عدد اکثریت تقریباً 60 تک چلی جائے گی۔ 124 کے ایوان میں حکومت سازی کے لیے 63 ارکان کی ضرورت ہوگی۔ جماعت اسلامی کے سات ارکان ملا کر ان کو آسانی کے ساتھ مطلوبہ تعداد فراہم ہو جائے گی۔ آفتاب شیرپائو کو ملالیا تو کافی مستحکم حکومت بن سکتی ہے۔
 
کہا جا رہا ہے کہ مخلوط حکومت کافی کمزور ہوگی لیکن عمران خان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دھن کے پکے ہیں۔ اصولوں کی بنیاد پر چلیں گے تو صوبہ کی روایات ہیں کہ ان کی حکومت کامیابی سے چل سکے گی۔ جماعت اسلامی کو شکست کے باوجود اچھی اتحادی جماعت ملنے کا امکان ہے اور ہوسکتا ہے کہ مخلوط حکومت کا حصہ بن کر وہ کچھ کارکردگی بھی دکھائیں، لیکن اس کے لیے سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ منظم اور بھرپور انتخابی مہم کے باوجود یہ عام ووٹروں کو اپنی طرف کھینچنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی قیادت کو اس بات پر سوچنا ہوگا کہ سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود انتخابی کامیابی ان کی قسمت میں نہیں ہے۔ ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جماعت اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کھلے ذہن کے ساتھ ان وجوہات پر غور کرے جن کی بنا پر ووٹر ان سے دور رہنے پر مجبور ہیں۔
خبر کا کوڈ : 263770
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش