0
Friday 17 May 2013 19:29

شام میں سرگرم دہشتگرد اور عالمی طاقتیں!

شام میں سرگرم دہشتگرد اور عالمی طاقتیں!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

امریکی بدمعاشی سے لے کر اسرائیل کے ناپاک وجود تک، ترکی کے کردار سے اردن، قطر اور سعودی عرب کی سامراج نوازی تک ہر چیز آشکار ہے، کمی مگر جرات کی ہے، ایمانی طاقت تو کب سے امریکی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ یوں نہ ہوتا تو حضرت حجر بن عدی (رض) جیسے جلیل القدر صحابی کی لاش کی بے حرمتی پر عالمِ اسلام یوں خاموش نہ ہوتا۔ جدید دور کا یہ المناک واقعہ عالمِ اسلام کی اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس واقعہ کیخلاف پاکستان، ایران، لبنان سمیت دنیا بھر کے انصاف پسندوں نے مظاہرے بھی کئے لیکن ہم جس اجتماعی بے حسی اور بے بسی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اس سے انکار ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضرت حجر بن عدی (رض) صحابیء رسول (ص) نہ تھے؟ اور اگر ہیں تو پھر ان کے مزار اور تابوت کے بے حرمتی پر ویسی ہی خاموشی کیوں جیسی امریکہ اور اسرائیل میں ہے۔؟

سب آشکار ہے مگر ان کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔ جن کے پاس ایمان کی طاقت ہے اور جو اپنے اللہ پہ بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ شام میں خون ریزی بڑھے گی۔ انتظامات کئے جا رہے ہیں، ایران، چائنہ اور روس کی حمایت نہ ہوتی تو اب تک بشار الاسد کا قصہ تمام ہوچکا ہوتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے کرنل قذافی کا۔ اب مگر ہر طرف سے حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا جاچکا ہے۔ صرف نام نہاد عالمی برادری کو ہم نوا بنانے کے لیے کچھ قراردادیں پیش ہوں گی اور پھر شامی عوام پر قہر آلود ہواؤں کا راج۔ اگر آج بھی دنیا کے امن پسند یکجا ہو جائیں تو شام میں آنے والی مزید تباہی کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ کیسا ’’جہاد‘‘ ہے جو امریکی ایما پر دہشت گردوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔؟ 

ہم یہ نہیں کہتے کہ بشار الاسد کا ایک عشرے سے زائد دورِ حکومت شامی عوام کے لیے کلی طور پر راحتوں اور انسانی آزادیوں کا دور تھا، نہیں ایسا نہیں، لیکن دیگر عرب ممالک سے بہر حال یہاں انسانی آزادی کی قدر تھی، جبھی تو شامی عوام آج بھی اپنے صدر کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن جس طرح یہاں بغاوت کر جنم دیا گیا اور پھر ’’تیل والوں‘‘ سے سرمایہ کاری کرا کے دہشت گردوں کو یہاں لایا گیا، وہ ’’عرب بہار‘‘ کے قصیدہ خوانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ امریکی خواہش مگر یہی ہے کہ خطے میں ہر حال میں اسرائیلی مفادات اور وجود کا تحفظ۔ اس مقصد کے لیے یورپ تو امریکہ کے ساتھ ہے ہی، لیکن ’’اسلام پسند‘‘ ترکی کے رجب اردگان کو کیا ہوا؟ اور وہ جو اسلامی شعائر کے بڑے ’’خادم ہیں‘‘؟ 

سب اللہ کی بجائے امریکہ کے سامنے جھکتے نظر آتے ہیں۔ شام میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ دہشت گرد عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہے ہیں، شامی فوجیوں کے کلیجے چبا رہے ہیں۔ کیا اس وحشی درندے میں ہندہ کی روح حلول کر گئی تھی؟ مگر وہ جس نے حضرت حجر بن عدی (رض) کے تابوت کی بے حرمتی کی، اس میں کس کی روح چلی آئی؟ شام میں خانہ جنگی ہے یا دہشت گردی؟ عالمی سیاسی منظر نامے پہ نظر رکھنے والے البتہ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ شام میں، امریکی، اسرائیلی اور ان کے مسلم و غیر مسلم حواریوں کی مداخلت ہے، جو شام کو داخلی طور پر کمزور کرنے کے لیے دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں۔ 

جان لیجئے کہ سرکاری فوج دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے۔ سامراجی مداخلت نے حالات کو اس نہج پہ لاکھڑا کیا، کہ اب شام پر فیصلہ کن چڑھائی کے بہانے تراشے جا رہے ہیں۔ اگر منظر سے پس منظر کی طرف سفر کریں تو پتہ چلتا ہے کہ شام کم و بیش دو کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل ایک ایسا عرب ملک ہے جس نے ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت و مدد کی۔ عرب اسرائیل جنگ میں شام ہی لبنان کی حفاظت کے لیے میدان میں آیا، اور لبنانی حکومت کی درخواست پر بیروت میں شامی فوج تعینات کرکے اسرائیلی خطرے کو کم کیا۔ امریکہ نے اسرائیل کو مشکل میں دیکھا تو اپنی سازشی صلاحیت کو بروئے کار لایا۔ 2005ء میں لبنان میں رفیق حریری کو ایک منظم سازش کے تحت قتل کرکے اس کا الزام شام پر ڈال دیا گیا، جس کے باعث شامی فوج بیروت سے نکلنے پر مجبور ہوئی۔
 
ٹکڑے ٹکڑے، فرقہ وارانہ دہشت گردی کا شکار اور معاشی و سیاسی طور پر کمزور شام، سامراج کے بین الاقوامی ایجنٹوں کے مفاد میں ہے۔ ایک ایسا شام جو داخلی طور پر اس قدر کمزور ہو جائے کہ اسے فلسطینیوں کی حمایت کرنے کے بجائے اپنی بقا کی فکر دامن گیر رہے اور جو اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے سامراج کے بین الاقوامی ایجنٹوں کے طرف امداد طلب نظروں سے دیکھتا رہے۔ اقوامِ متحدہ میں شام کے مسئلے کے حل کے لیے پیش کی جانے والی تازہ قرارداد، ان تمام طاقتوں کے لئے ولولہ انگیز ہے جو شام پر مسلح چڑھائی کے پر جوش حمایتی ہیں۔ شام میں حکومت کی ’’تبدیلی‘‘ کے خواہش مندوں کی جانب سے نئی حکمتِ عملی سامنے آچکی ہے۔ 

جمعرات کو واشنگٹن میں ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ ان کا ملک شام کے معاملے میں سفارتی اور فوجی آپشنز سمیت ہر قسم کے اقدامات پر غور کر رہا ہے۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ شام میں استعمال ہونے والے کیمیائی ہتھیار ہماری قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ ہمارے اتحادیوں اور ہمسایہ ممالک کے لئے بھی خطرناک ہیں۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ شام میں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور صرف یہی بات ہی بین الاقوامی برادری کے لیے کافی ہے کہ وہ اس مسئلے میں مداخلت کرے۔
 
اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد امریکی صدر کی شام میں مداخلت کرنے کے حوالے سے دو ٹوک پریس کانفرنس منظر نامے کو واضح کرتی ہے۔ امریکہ شام میں براہِ راست فوجی کارروائی کا سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔ ترکی اس کا ہم نوا ہے اور دیگر عرب ممالک بھی۔ قراردادوں کا نیا سلسلہ ان اقدامات کا نقطہء آغاز ہے، جو خطے میں پیش آنے والی تبدیلیوں کے پیشِ نظر سامراجی مفادات کے لیے اٹھائے جائیں گے۔ شام کو داخلی و خارجی طور پر کمزور کرنے اور خاص طور پہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو نقطہء کمال تک لے جانے کے لئے وہ ساری طاقتیں یک آواز ہیں، جو اسرائیل کو خطے میں مضبوط دیکھنے کی امریکی آرزو میں اپنی خواہشیں سموئے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 264869
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش