0
Tuesday 28 May 2013 19:04

واشنگٹن و جدّہ یا بیجنگ و تہران؟؟ فیصلہ کریں

واشنگٹن و جدّہ یا بیجنگ و تہران؟؟ فیصلہ کریں
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com 
 
کیا خوبصورت ہم آہنگی اور اتفاق یا اشتراک ہے، ایک طرف صدر زرداری نے بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی کی شکست کے پیچھے عالمی اور ملکی اداروں کا ہاتھ ہے جو ہمارے خطے میں موجود ہمسایہ ممالک اور مقامی طاقتوں سے پی پی کے اتحاد اور تعاون پر خوش نہیں تھے، انہی عالمی طاقتوں نے ایک منصوبے کے تحت ہمارے مقامی اداروں کے ذریعے پی پی کو شکست دلوانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کا واضح اعلان کیا اور حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی مولانا سمیع الحق سے طالبان اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کر دیا۔ اب بھلا ان دونوں بیانات سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟ 

جب سے پی پی کی سابقہ حکومت نے چین اور ایران کے ساتھ معاہدات کئے تب سے امریکہ، سعودی عرب اور اسی گروپ کی دیگر قوتوں نے نہ صرف اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا بلکہ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں، لیکن سابق حکومت نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کے بنیادی مسائل کے حل اور پاکستان کی حقیقی ترقی کے لیے ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے اقدمات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اگرچہ پاکستان کی اکثر سیاسی و دینی جماعتوں نے ان معاہدوں کی کھل کر مخالفت نہیں کی بلکہ عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے ایک حد تک حمایت بھی کردی، لیکن امریکی اور سعودی لابی کے قوتیں شمار ہونے کی وجہ سے بعض سیاسی اور دینی جماعتوں نے اس انداز میں مخالفت کی کہ یہ معاہدے پی پی نے انتخابات میں عوامی ہمدردی اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے کرائے ہیں، اگر پی پی مخلص ہوتی تو آخری سال سے پہلے یہ معاہدے کرا دیتی۔ اس مخالفت کی وجہ جہاں پی پی پر تنقید کرکے اگلے انتخابات میں جانے کی تیاری کرنا تھا، وہیں ان عالمی قوتوں کو بھی اپنی وفاداری کا یقین دلانا تھا جو ان معاہدوں کے حق میں نہیں ہیں۔
 
صدر زرداری اگرچہ اس وقت ایک شکست خوردہ اور عوامی انتقامی جذبات کے طوفان میں بہہ جانے والی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں، لیکن اگر غیر جانبدارانہ انداز میں دیکھا جائے تو ہمیں بہت محکم اور ٹھوس شواہد ملتے ہیں کہ ہمارے انتخابات میں بیرونی قوتوں کا عمل دخل اور ملکی اداروں کا تعاون بھی شامل تھا۔ اگر ماضی قریب میں تھوڑا سا جھانکا جائے تو ہمیں اس حوالے سے ایک تسلسل ملے گا، جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ زرداری کی بات میں وزن نظر آتا ہے۔ انتخابات سے قبل دہشت گردانہ دھمکیاں، دو خاص موقف کی حامل جماعتوں کو انتہائی تیزی کے ساتھ میدان عمل و سیاست میں مقام دلوایا جانا، طالبان نواز گروہوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینا، امریکہ مخالف ہر قوت کو اجاگر کرنے کی پالیسی اور چین و ایران کو دوست رکھنے والی ہر قوت کو دبانے کی پالیسی، نیٹو سپلائی لائن کے خلاف بظاہر علی الاعلان امریکہ کی مخالفت کرنے والے اتحاد کو انتخابی اتحاد میں بدلنا اور شدت پسند فرقہ پرستوں کو انتخابات میں کھلے عام اجازت دلوانا، ایوان عدل کے مزاج میں تبدیلی اور ہر اس قوت کے حق میں فیصلوں کا برآمد ہونا جو امریکہ و سعودی گروپ سے تعلق رکھتی ہیں اور آخر میں الیکشن کمیشن کی مخصوص انداز میں تشکیل اس سارے ماحول سے لگ رہا تھا کہ فتح بالاخر انہی بیرونی قوتوں کی ہوگی، جو ان معاہدات پر برہم و نالاں ہیں اور پاکستان میں ایسی حکومت لانا چاہتی ہیں جو نہ صرف ان معاہدوں کو پامال کرنے کے لیے جواز پیدا کرے بلکہ ان عالمی طاقتوں کے تمام مفادات پورے کرنے کے لیے سرتسلیم خم کرنے میں ذرا تاخیر نہ کرے۔
 
یہ تو انتخابات سے قبل کا ماحول تھا جس میں ساری منصوبہ بندی کی گئی لیکن اب انتخابات کے بعد اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد ہوتا ہوا واضح نظر آرہا ہے، جس کا پہلا مظہر انتخابات کے بذات خود نتائج ہیں۔ ہر طرف دھاندلی کے شور، دھرنوں کے غلغلے اور احتجاج کے ماحول نے لوگوں کی توجہ اصل سازش سے ہٹا دی ہے اور وہ انتخابات کے پری پلان ہونے کو بھول ہی گئے ہیں۔ پہلی حیرت یہ ہے کہ انتخابات میں جن قوتوں کو طالبان اور اس کے حامی گروہوں نے نشانہ نہیں بنایا بلکہ محبت کا اظہار کرتے رہے یا انہیں ثالث بنانے کا اعلان کرتے رہے، وہی قوتیں اب حکمرانی کی مسند حاصل کر رہی ہیں۔ دوسری حیرت یہ ہے کہ جنہیں امریکہ نواز، لبرل، سیکولر اور پتہ نہیں کیا کیا نام دیا جاتا تھا انہیں مکمل طور پر کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے۔ تیسری حیرت یہ ہے کہ امریکہ بہادر نے جہاں اپنی دوست (بقول شدت پسند حلقے) جماعتوں کی شکست پر کسی قسم کی افسردگی کا اظہار نہیں کیا وہاں بالکل برخلاف طالبان نواز قوتوں کی فتح کو نہ صرف مثبت شمار کیا ہے بلکہ انتہائی تیزی کے ساتھ ان تمام قوتوں سے امریکی و سعودی سفیر نے ملاقاتیں بھی کرلی ہیں، حالانکہ ابھی حکومت سازی کا عمل شروع تک نہیں ہوا۔
 
میاں نواز شریف کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات اور اس میں مولانا سمیع الحق کو سفارشی یا ثالث یا رابطہ کار بنانے کی بات سے زیادہ واضح اور واشگاف اور کیا اشارہ ہوسکتا ہے؟ سیاسیات سے تعلق رکھنے والا ایک عام انسان اور ملکی اداروں کی پالیسیوں سے آگاہ ایک پاکستانی شہری اس بات سے بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ میاں صاحب کی اس بات کے پس پردہ ان کی ذاتی خواہش ہے یا عالمی احکامات و خواہشات کا تسلسل؟؟ افغانستان سے پرامن انداز میں انخلاء کی ضرورت کے تحت یہ پالیسی اختیار کی جا رہی ہے یا ایران و چین کو رگڑا لگانے کے لیے ایک شدت پسند حکومت کی ضرورت کو محسوس کیا گیا ہے۔؟ چین و ایران کو خطے میں طاقتور ہونے سے روکنے کے لیے سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے یا امریکہ و سعودی عرب کا تسلط قائم کرنے کے لیے ان کی دوست حکومت لائی جارہی ہے۔؟؟ ہم تو پہلے بھی عرض کرتے رہے ہیں کہ طالبان یا اس قسم کے دیگر گروہوں کے خالق اور ان سے دیہاڑیاں لگوانے والے خود ہی ان کی دہشت گردیوں کی کہانیاں گھڑتے ہیں اور وقت کے ساتھ اس کہانی کو ڈرامائی تشکیل دیتے ہیں، پھر اسی ڈرامے کی مختلف اقساط میں سسپنس ڈالنے کے لیے نئے نئے کردار سامنے لاتے ہیں اور دیوتا و عمران سیریز کی طرز پر عالمی ناول جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کا مطالعہ پوری دنیا کے لوگ ہر مہینے نہیں ہر لمحہ کرتے رہتے ہیں۔
 
ہمیں صدر زرداری اور میاں نواز شریف کے بیانات میں مکمل واقعاتی یکسوئی اور تصویر کے دونوں رخ نظر آگئے ہیں۔ ایک ایسی تصویر جو عالمی طاقتوں نے ڈرون کیمرے سے بنائی، تیل کے ذخیرے میں ڈویلپ کی اور بارودی جیکٹوں سے رنگ سازی کرکے سیاسی ویسٹ کورٹ تک پہنچا دی ہے، جس نے حکومتی معاملات سنبھالنے سے قبل ہی ملک کے مختلف اداروں کے دفاتر میں یہ تصویر آویزاں کرا دی ہے اب قائد اعظم (رہ) کی جگہ یہی تصویر ہماری علامت ٹھہرے گی اور اسی کے سائے میں ہمارا سارا نظام چلے گا۔ ماضی کے تلخ تجربات اور مذکورہ عالمی طاقتوں کے ساتھ دوستی کے عملی فوائد و نقصانات کا عملی مشاہدہ کرنے کے بعد ہم قبل از وقت کہہ سکتے ہیں کہ اس دوستی اور تابعداری کا خمیازہ مستقبل کے حکمرانوں کو کم اور حسب عادت پاکستانی عوام کو زیادہ بھگتنا پڑے گا۔ حالیہ دونوں بیانات سے امریکہ کے خلاف تحریک انصاف، مسلم لیگ نون، جماعت اسلامی، تحریک تحفظ پاکستان، ایم ڈی ایم اور اس جیسی دیگر تمام قوتوں کے بیانات ایک ڈرامہ نظر آتے ہیں یا پھر حسب اطلاع یہ سب طالبان و سعودی پالیسی کے ذریعے امریکہ بہادر کے ہم رکاب ہوچکے ہیں۔ اس وقت کا اندازہ کیجئے جب مستقبل قریب میں کے پی کے میں نئی حکومت کا تیا پانچا کرنے کے لیے وہی گروہ اٹھیں گے جنہوں نے حکومت سازی کرنے والی جماعتوں کو نہ صرف ووٹ دئیے ہیں بلکہ ان کے مخالف ووٹوں کو اسلحہ و بارود کے زور پر روکا بھی ہے۔
 
صدر زرداری اور میاں نواز شریف کے بیانات نے جہاں ان مبصرین کے رائے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے جو کہتے رہے ہیں کہ مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی ان دنوں ایک وقت میں امریکہ و سعودی نواز کیساتھ طالبان نواز بھی ہیں اور انہیں ہی امریکی ہم آہنگی سے حکومت میں لایا جا رہا ہے، تاکہ طے شدہ عالمی ایجنڈہ پورا کیا جاسکے اور پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ لڑوا کر اس طرح تنہا اور ہر حوالے سے کمزور کر دیا جائے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے ایک بار پھر واشنگٹن اور جدہ کا بے دام غلام بن جائے۔ وہاں ہمیں 1980ء کی دہائی کا ماحول بھی یاد آگیا جب ہم نے غربت، جہالت، فرقہ واریت، لسانیت اور دہشت گردی کی اتنی فصلیں بوئیں جو ابھی تک کاٹ رہے ہیں۔ تب بھی یہی عالمی قوتیں ہمیں تباہ و برباد کرنے میں پیش پیش تھیں اور اب بھی لگتا ہے ایک بار پھر ہم نئے سرے سے اپنی بربادی کو دعوت دے کر اپنی موت کا جواز پیدا کرکے اپنی ہی قبر خود کھود رہے ہیں۔
 
خدا جانے ہمیں چین و ایران جیسے دوستوں سے دور رکھنے کے لیے بنائی جانے والی سازشوں اور منصوبوں کی سمجھ کیوں نہیں آتی؟ یا پھر ہم دانستہ ایسا کر رہے ہیں۔ غربت، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور دہشت گردی نے پاکستانی عوام کو جس منزل تک پہنچا دیا ہے اس کا حل سب سے پہلے ہماری خود مختاری و خود کفالت میں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ و عرب منصوبوں سے ہم نے غلامی اور رسوائی تو حاصل کی ہے آج تک خود انحصاری، خود مختاری یا خود کفالت حاصل نہیں کرسکے۔ لیکن چین و ایران کی طرف سے ہمیں اب امید پیدا ہوچکی تھی کہ ان کے تعاون اور دوستانہ جذبے کے بعد پاکستان بہت سے مسائل سے نکل آئے گا۔ لیکن میاں صاحب کے ارادوں سے بہت سارے خطرات کی بو آ رہی ہے۔ پاکستانی عوام بالخصوص اور دنیا بھر کے عوام بالعموم جانتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے ہمنوا ممالک اگر کسی قوم یا ملک کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لیے کوئی پیکیج دے رہے ہوتے ہیں تو اس میں اس سے زیادہ مواد ایسا ہوتا ہے کہ مذکورہ قوم یا ملک کو ایسے تحفے دیئے جائیں کہ وہ اصل امداد کو بھول کر تحفوں کو یاد کرتا رہے۔ جیسا کہ اسّی کی دہائی میں ناجائز اسلحہ، فرقہ واریت، منشیات اور غربت کے تحائف اور نائن الیون کے بعد خودکش حملے، اقتصادی پابندیوں، القاعدہ و طالبان، سیکولر و ہم جنس طبقے کی طاقت کے تحائف۔ ہمیں ساری امدادیں بھول گئی ہیں لیکن واشنگٹن اور جدہ کے یہ تحفے یاد ہیں۔
 
اب 2013ء میں ہم ایک دفعہ پھر واشنگٹن و جدہ سے امداد کے ساتھ کیا کیا تحائف لینے جا رہے ہیں؟ شاید جدید انداز کا قتل عام، شاید چین و ایران سے دوری، شاید فرقہ واریت کا نیا طوفان، شاید بلوچستان پر امریکی قبضہ، شاید کسی خاص گروہ کے ذریعے جدہ پرستی، شاید فقیری کے نئے گُر، شاید نیو برانڈ انتہا پسندی، شاید ترقی یافتہ دہشت گرد گروہ یا شاید پتہ نہیں کیا کیا؟ ہم بطور غریب اور حساس پاکستانی صدر زرداری سے یہی خواہش کریں گے کہ وہ جاتے جاتے ان تمام منصوبوں اور سازشوں کو طشت از بام کرتے جائیں جو پاکستان کے خلاف عالمی یا اندرونی سطح پر ہو رہی ہیں، اور میاں نواز شریف سے بھی یہی اپیل کریں گے کہ وہ خاندانی و ذاتی اور کاروباری دوستی یا کسی قسم کے خوف و دہشت کو ترجیح دیئے بغیر پاکستان کے بارے میں سوچیں۔ چین و ایران کے ساتھ تعلقات کو سابقہ پی پی حکومت سے زیادہ مستحکم کریں اور سابقہ معاہدوں کو جاری رکھتے ہوئے نئے سے نئے معاہدے کریں۔ بے شک اس تعاون میں ہمسایہ ملک بھارت کو بھی شامل کریں جو آپ کی ذاتی، جماعتی اور سیاسی خواہش بھی ہے۔ لیکن خدا کے لیے امریکہ اور اس کے دوستوں کی خاطر پاکستان کو ایک بار پھر داؤ پر نہ لگائیں۔ ورنہ تاریخ آپ کو معاف کرے نہ کرے معافی کی آخری اتھارٹی رکھنے والی ذات کبھی معاف نہیں کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 268375
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش