0
Friday 7 Jun 2013 00:39

ایران کے صدارتی انتخابات

ایران کے صدارتی انتخابات
تحریر: ثاقب اکبر 

14 جون 2013ء کو ایران کے گیارھویں صدارتی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات میں ایران کی آٹھ نامور سیاسی شخصیات قسمت آزمائی کے لیے میدان میں ہیں۔ ان میں سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی، ایران کے سابق نائب صدر محمد رضا عارف، سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر حداد عادل، سپاہ پاسداران کے سابق سربراہ جنرل (ر) محسن رضائی، قومی سلامتی کونسل کے سابق سیکرٹری ڈاکٹر سعید جلیلی، سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر حسن روحانی، سابق وزیر سید محمد غرضی اور تہران کے مقبول میئر محمد باقر قالیباف شامل ہیں۔ موجودہ صدارتی انتخابات ایک نئے پارلیمانی قانون کی روشنی میں بننے والے ایک گیارہ رکنی آزاد انتخابی بورڈ کی زیر نگرانی منعقد ہو رہے ہیں، جس میں تین ماہرین قانون، سات ٹیکنوکریٹس اور ایک رکن پارلیمان شامل ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قبل ازیں انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری وزارت داخلہ انجام دیتی تھی۔ ماہرین نے اس بورڈ کی تشکیل کو ایک قابل ذکرجمہوری اقدام قرار دیا ہے۔ 

ویسے تو دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں انتخابات کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن بعض ممالک کے انتخابات خاص طور پر اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ ایران کے انتخابات انہی میں سے ایک ہیں۔ امریکہ سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں ایران کے صدارتی انتخابات میں غیر معمولی دلچسپی لے رہی ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کی خواہش رہی ہے کہ ایران میں ایسی حکومت برسراقتدار آجائے جو ان کے مفادات کی آلۂ کار ہو۔ موجودہ حکومت اور نظام کو تبدیل کرنے کے لیے امریکہ نے باقاعدہ کانگریس کی منظوری سے ایک سالانہ بجٹ مختص کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکہ طرح طرح کے اقتصادی اور نفسیاتی حربے استعمال کرتا رہتا ہے۔
 
ایران کے خلاف ویسے تو امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے متعدد نہایت خوفناک پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، لیکن خاص طور پر صدارتی انتخابات کے نزدیک آنے پر اس نے بعض نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ ان پابندیوں کے تحت ان افراد کے لیے بھی سزا مقرر کی گئی ہے جو زیادہ تر کاروبار ایرانی ریال میں کرتے ہیں یا ایران سے باہر بڑی تعداد میں ریال بنک میں رکھتے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کی طرف سے ایران کے خلاف پابندیوں کا یہ نواں اقدام ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے تحت ادارے ریال میں کام کرنا چھوڑ دیں گے، جن سے ایرانی کرنسی مزید کمزور ہو جائے گی۔ حالیہ پابندیوں کے تحت ایران کی گاڑیوں کی صنعت کو بھی ہدف بنایا گیا ہے جو ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور بڑے پیمانے پر روزگار فراہم کرتی ہیں۔ قبل ازیں لگائی گئیں پابندیوں کے نتیجے میں ایران میں زندگی بچانے والی بہت سی دوائیاں اور جراحی کے آلات کی دستیابی بہت مشکل ہوچکی ہے۔ 

ان پابندیوں کی نوعیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کا اصل ہدف ایران کی جوہری توانائی حاصل کرنے کی کوششیں نہیں ہیں بلکہ وہ ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ پابندیوں کی اس نوعیت پر جمہوریہ چین نے بھی امریکہ کو کئی مرتبہ ہدف تنقید بنایا ہے۔ روس کی طرف سے بھی ایسی غیر منصفانہ پابندیوں کی مذمت کی جاچکی ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ایک سابق رکن گیری سک کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ان کی رائے کے مطابق ان پابندیوں کے پیچھے چند کانگریسی ارکان کے ذاتی مفادات کارفرما ہیں۔ ان پابندیوں کا امریکی قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جہاں تک ایرانی قیادت کا تعلق ہے تو اس کا یہ کہنا ہے کہ استعماری پابندیوں ہی کی بدولت ایران نے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ آزادی اور استقلال کی قیمت قوموں کو بہرحال ادا کرنا پڑتی ہے اور ایران اس جدوجہد سے آخر کار سرخرو ہو کر نکلے گا۔ 

صدارتی انتخابات کے قریب امریکہ کی طرف سے عائد کی گئی تازہ پابندیوں کے مقاصد کیا ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری رائے میں اس کا بنیادی مقصد ایرانی عوام کو موجودہ نظام کے بارے میں دل سرد کرنا اور انتخابات میں ان کی شرکت کو کم از کم بنانا ہے۔ امریکہ ایرانی عوام کو یہ بھی پیغام دینا چاہتا ہے کہ موجودہ نظام کی تبدیلی ہی کی صورت میں وہ اقتصادی مشکلات کے چکر سے نکل سکتا ہے۔ 

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے ایرانی قوم کی چونتیس سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو وہ پہلے دن سے ہی امریکی استعمار کی طرف سے مسلط کی گئی مشکلات کا جرأت مندی سے مقابلہ کرتی چلی آئی ہے۔ اس نے زندگی کے تمام شعبوں میں حیران کن پیش رفت کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی آزادی کا سودا کرنے کے لیے کسی صورت بھی تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ تمام انتخابات میں ایرانی قوم نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ ایرانی انتخابات صدارتی ہوں یا مجلس قانون ساز کے یا پھر بلدیات کے، ایرانی قوم نے دیگر جمہوری ملکوں کے عوام سے بڑھ کر ان میں شرکت کی ہے۔ اس وقت مذکورہ بالا آٹھ صدارتی امیدواروں کی انتخابی مہم میں عوام کی گرم جوش شرکت دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 14جون کے انتخابات میں بھی پورے جوش و خروش سے ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں گے۔ ایرانی قیادت بھی ہمیشہ کی طرح عوام کو ان انتخابات میں شرکت کے لیے آمادہ کرنے کی خاطر کوشاں ہے۔
 
دوسری طرف بعض قوتیں انتخابات کے موقع پر ایران میں گڑبڑ کروانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس سلسلے میں گذشتہ دنوں ایرانی حکام نے موساد اور برطانوی انٹیلی جنس ادارے کے بارہ جاسوسوں کو گرفتار کیا ہے۔ یہ افراد ملک میں نسلی اور مذہبی فسادات کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ گروہ پہلے ہی متعدد تخریبی کارروائیاں کر چکا ہے۔ اس کا سرغنہ برطانیہ میں ہے، جس سے یہ افراد مسلسل رابطے میں تھے۔ یہ افراد ذرائع ابلاغ کے سامنے اپنے منصوبوں اور کارروائیوں کا اعتراف بھی کرچکے ہیں۔ قبل ازیں گذشتہ ماہ دو افراد گرفتار کیے گئے، جن میں سے ایک کا تعلق امریکی انٹیلی جنس سے تھا اور دوسرے کا اسرائیلی موساد سے۔ ان دونوں افراد پر فرد جرم ثابت ہونے کے بعد پھانسی دی گئی۔ 

ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے صداراتی انتخابات کے موقع پر اس کے خلاف کس کس طرح کی سازشوں کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ تاہم ایرانی حکام اور عوام اپنے انقلاب کو محفوظ طریقے سے اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا توقع کی جانا چاہیے کہ آئندہ صدارتی انتخابات ایران کو مزید استحکام اور ترقی کی طرف لے جانے کا باعث بنیں گے۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے، دونوں کو ایک ساتھ رہنا ہے۔ دونوں ہمیشہ اچھی دوستی کی مثالیں قائم کرتے آئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دونوں کے عوام ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔ ایران کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے ہماری نیک تمنائیں اسی پس منظر میں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 271187
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش