QR CodeQR Code

شام کا بحران، فلسطینی مزاحمت کیلئے خطرہ

14 Jun 2013 01:24

اسلام ٹائمز: جب ہم فلسطینیوں کی غاصب اسرائیل کے مقابلے میں جدوجہد کی بات کرتے ہیں تو ہم صرف مسئلہ فلسطین کو فلسطینیوں تک محدود نہیں کرتے بلکہ یہ پورے خطے میں رہنے والے تمام عربوں اور عرب ریاستو ں کے لئے ہے۔ فلسطینی کاز صرف فلسطینیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا مسئلہ ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ تمام عربوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے جو اس خطے میں موجود ہیں۔


تحریر: صابر کربلائی
 (ریسرچ اسکالر) 

انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین گذشتہ پینسٹھ برس سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے تسلط میں ہے، غاصب اسرائیل جو کہ 15 مئی 1948ء کو برطانوی سامراج کی سازشوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ اسرائیل اپنے غاصبانہ وجود کے پہلے روز سے اب تک فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی ہزاروں داستانیں رقم کرچکا ہے۔ دوسری جانب فلسطین اور فلسطین کے باسیوں نے بھی یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ خطے میں موجود چند عرب ممالک بھی فلسطینیوں کی مدد و نصرت میں پیش پیش ہیں۔ البتہ اوائل میں یہ بات ہمیشہ ان عرب ممالک کو واضح رہی ہے کہ تنہا اسرائیل جیسے دشمن سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے، تاہم دور حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ فلسطینی مجاہدوں سمیت سرحدوں پر موجود کچھ عرب ممالک میں موجود مجاہدین کی مزاحمت رنگ لائی ہے اور اب اسرائیل جیسی خطرناک طاقت شکست کا سامنا کر رہی ہے۔ آج فلسطین پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط اور نکبہ کے پینسٹھ سال مکمل ہونے کے باوجود بھی فلسطینیوں کو کئی ایک مسائل اور معاملات کا سامنا ہے۔ 

خلیجی ریاستوں کی تنگ نظری ایک بڑا مسئلہ:
ناہید حتار جو کہ اردن میں مقیم ہیں اور معروف تجزیہ نگار ہیں، کہتے ہیں کہ پوری فلسطینی قوم اور عربوں کی جدوجہد کا محور و مرکز صرف اور صرف یہ ہے کہ اسرائیل خطے میں ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ حتار کے مطابق فلسطینی جدوجہد آزادی اور اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں تمیز کرنا ضروری ہے، کیونکہ مجاہدین جو قدم اٹھا رہے ہیں وہ انکا بنیادی حق ہے، جبکہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے، جو غیر قانونی طور پر قابض ہے اور اس کا وجود بھی غیر قانونی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرب ریاستیں اس بات پر معتقد ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین گفت و شنید کا عمل ہونا چاہئیے اور اس مسئلہ کو حل کیا جائے، جبکہ فلسطینیوں کی خواہشات اس کے برعکس ہیں، کیونکہ فلسطینی ایک غاصب صیہونی ریاست کے زیر تسلط ہیں، جسے وہ کسی صورت تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب عرب ریاستیں جو خطے میں طاقت رکھتی ہیں لیکن ان کی طرف سے فلسطین کی جدوجہد آزادی میں کسی قسم کی کوئی مدد سامنے نہیں آتی، جو کہ خود ایک سوالیہ نشان ہے۔

جب ہم فلسطینیوں کی غاصب اسرائیل کے مقابلے میں جدوجہد کی بات کرتے ہیں تو ہم صرف مسئلہ فلسطین کو فلسطینیوں تک محدود نہیں کرتے بلکہ یہ پورے خطے میں رہنے والے تمام عربوں اور عرب ریاستوں کے لئے ہے۔ فلسطینی کاز صرف فلسطینیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا مسئلہ ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ تمام عربوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے، جو اس خطے میں موجود ہیں۔ بہرحال اردن کے معروف تجزیہ نگار ناہید حتار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غاصب اسرائیلی دشمن کے ساتھ مزاحمت کی زبان میں بات کی جائے۔ دوسری جانب درپیش مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حتار کہتے ہیں کہ خلیجی ریاستوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی تنگ نظری اور خلیجی ممالک میں فرقہ واریت کو فروغ دینا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کیونکہ یہاں فرقہ واریت کو کبھی زیادہ مستحکم نہیں کیا گیا لیکن اب ایک منصوبہ بندی کے تحت فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے، جو کہ آزادیٔ فلسطین اور جدوجہد فلسطین کے لئے شدید خطرناک ہے۔ ناہید حتار خلیجی ممالک میں فرقہ واریت کو سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔

یہ سعودی عرب جیسی مسلم ریاست کی تنگ نظری ہی تھی کہ جس نے 1976ء کی جنگ میں مصر کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دیا اور اسرائیل جیسے خطرناک دشمن کو مالی تعاون جاری رکھا۔ اسی طرح مسئلہ فلسطین کو سبوتاژ کرنے کے لئے اوسلو جیسے معاہدے بھی کئے گئے، جو دراصل فلسطینی کاز اور فلسطینیوں سے خیانت کے مترادف ہے۔ آج کل قطر اور سعودی عریبیہ نے شام میں جنگ چھیڑ رکھی ہے اور اس جنگ کی وجہ سے فلسطینیوں کی مزاحمت براہ راست اسرائیل کے خلاف کمزور پڑنے کے خطرات موجود ہیں۔ حتار کہتے ہیں کہ ان دونوں عرب خلیجی ریاستوں نے دسیوں ہزار دہشت گردوں کو شام میں لڑائی کے لئے بھرتی کیا ہے، جو شام میں لڑائی میں مصروف ہیں اور بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر رہے ہیں۔ یہاں سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ یہ ہے کہ خلیجی ریاستوں کے پاس بیش بہا دولت موجود ہے، جسے وہ فلسطینیوں کی آزادی کے لئے ہونے والی مزاحمت کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح مزاحمت کے لئے دوسرا بڑا خطرہ اور مسئلہ امریکہ اور اسرائیل خود ہیں۔ یہ دونوں قوتیں فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے مزاحمتی گروہوں کے خلاف خطرناک ترین اسلحوں کا استعمال کرتی ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح مزاحمت کو ختم کیا جائے۔

اردن کے تجزیہ نگار حتار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ہونے والی جدوجہد میں مزاحمت کی طاقت کے کئی ایک محور ہیں، جن میں سے پہلا اور بنیادی محور حزب اللہ لبنان ہے، جو دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر رہی ہے اور مضبوط ہو رہی ہے۔ اسی طرح شام مزاحمت کی طاقت کا دوسرا عنصر ہے، حالانکہ دمشق آج کل حالت جنگ میں ہے لیکن اس کے باوجود کافی مضبوط ہے۔ شام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حتار کہتا ہے کہ شام ایک طرف دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف شام فلسطینی مزاحمت کو بھرپور مدد فراہم کر رہا ہے، جبکہ شام نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے ساتھ بھی محاذ کھول رکھا ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شام فلسطینی مزاحمت کا حامی اور مدد گار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ شام کو کمزور کیا جائے، تاکہ فلسطینی مزاحمت کا راستہ روکا جائے۔ مزاحمت کی طاقت کا تیسرا بڑا عنصر ایک عالمی اتحاد جو کہ ایران، روس، چین سمیت BRICS ممالک پر مشتمل ہے۔

مزاحمت درست راہ ہے:
مسجد القدس کے پیش امام شیخ مہر حمود نے گذشتہ برسوں میں کئی ایک حقیقتوں پر گفتگو کی ہے، شیخ حمود کہتے ہیں کہ امریکہ، اسرائیل اور خلیجی ممالک کی تمام تر منصوبہ بندیاں ناکام ہوچکی ہیں اور فلسطینی مزاحمت اپنے راستے پر گامزن ہے۔ اس حوالے سے شیخ مہر حمود کا کہنا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنا یا کسی قسم کی سودے بازی کرنا قطعاً جائز نہیں اور یہ درست راستہ نہیں ہے۔ شیخ حمود کا کہنا ہے کہ مزاحمت ہی صرف واحد درست راستہ ہے، جو اسرائیل جیسے دشمن کے ساتھ روا رکھا جانا چاہئیے۔ شیخ حمود نے فلسطین کو درپیش کئی ایک مسائل کی طرف روشنی ڈالی ہے۔ شیخ حمود کے مطابق فلسطین کی جدوجہد اور مزاحمت کو جو بڑے خطرات لاحق ہیں، ان میں بنیادی خطرہ فرقہ واریت اور شام میں جاری بحران ہے، جس کا مقصد فلسطین مزاحمت کو کمزور کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فرقہ واریت ایک زہر قاتل ہے، جبکہ فلسطینی مزاحمت متحد اور وحدت کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ 

شیخ حمود کا کہنا ہے کہ عربوں کا دبائو ہے کہ فلسطین کسی طرح مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہو جائے اور اسرائیل جیسے غاصب دشمن کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات کا حل نکالے۔ معروف عالم دین شخ احمد نے شام میں جاری بحران اور شام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو فلسطینی کاز کے لئے شدید خطرہ قرار دیا ہے۔ شیخ کہتے ہیں کہ جب ہم شام کے بحران کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں چاہئیے کہ اس کے اسٹراٹیجیکل پہلو اور مقاصد پر غور کریں۔ ہمیں دمشق کی وہ تمام مدد اور حمایت نہیں بھولنی چاہئیے جو آج تک فلسطینی مزاحمت کے لئے جاری ہے۔

فلسطین آزادی کے قریب ہے:
دوسری طرف جماعة السلامیہ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اعظم الایوبی کہتے ہیں کہ فلسطین آزادی کے قریب ہے اور فلسطینی کاز پہلے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوچکا ہے جبکہ عرب ممالک اپنے مقامی مسائل میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ ایوبی کہتے ہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی کاز آزادی کے بہت ہی قریب پہنچ چکا ہے، ہمیں یقین ہے کہ اسرائیل اپنی نابودی کے ایام میں داخل ہوچکا ہے اور خطے کے عوام بہت جلد اس خوش خبری سے آگاہ ہوں گے۔ خطے کی موجودہ صورتحال اور فلسطین مزاحمت کی راہ میں درپیش مسائل کے بارے میں ایوبی کا کہنا ہے کہ یقیناً خطے میں کئی ایک ایسے مسائل ہیں جو براہ راست فلسطین کی آزادی کی راہ میں رکاوٹوں کے مترادف ہیں اور انہی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ شام میں پیدا ہونے والا بحران ہے، جو چند عرب ریاستوں کی ایماء پر پیدا کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ خطے کے ممالک کے لوکل اور سطحی مسائل دراصل فلسطین کی آزادی میں بڑی رکاوٹ کا باعث ہیں، تاہم عرب ممالک کو چاہئیے کہ اس قسم کے معاملات سے صرف نظر کریں اور فلسطین کی آزادی کے لئے مسائل پیدا نہ کریں۔ ایوبی کہتے ہیں کہ میں انتہائی یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر عرب ریاستیں اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرلیں تو فلسطین کی آزادی انتہائی قریب ہے۔


خبر کا کوڈ: 273447

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/273447/شام-کا-بحران-فلسطینی-مزاحمت-کیلئے-خطرہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org