0
Wednesday 19 Jun 2013 19:40

حزب اللہ لبنان شام میں مداخلت کیوں نہ کرے؟

حزب اللہ لبنان شام میں مداخلت کیوں نہ کرے؟

تحریر: علی حیدری

اسلام ٹائمز- حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے 13 جون کی تقریر میں کہا:
"ہم نے سب سے آخر میں شام میں مداخلت کا فیصلہ کیا ہے اور ہم سے پہلے المستقبل اور لبنان کی دوسری جماعتیں جن کا نام میں لینا نہیں چاہتا شام میں مداخلت کا آغاز کر چکی تھیں۔ اگر ہم شام کے حکومت مخالف گروہوں کی حمایت کر رہے ہوتے تو ہمیں حقیقی حزب اللہ کا خطاب بھی دیا جاتا اور ہماری مداخلت کو بھی اچھی نظر سے دیکھا جاتا"۔ 

سید حسن نصراللہ نے مزید کہا:
"شام کی مسلح افواج ملک کے مختلف حصوں میں مسلح باغیوں کے مقابلے میں برسرپیکار ہیں اور ہم نے اس امریکی – اسرائیلی اور تکفیری سازش کا مقابلہ کرنے میں ذمہ داریوں کا ایک چھوٹا سا حصہ سنبھال رکھا ہے جس کا مقصد نہ صرف شام بلکہ تمام خطے کو نابود کرنا ہے۔ ہم نے شام میں مداخلت کی ہے اور اس کا کھل کر اعلان بھی کیا ہے اور اسے نہیں چھپایا۔ ہم نے اپنے جوانوں کو اس لئے شام نہیں بھیجا کہ وہ وہاں کمبل اور دودھ تقسیم کریں اور قتل کر دیئے جانے کی صورت میں انہیں وہیں دفن کر دیا جائے اور لبنان میں ان کے اہلخانہ کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جائے"۔ 

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اس تقریر میں انتہائی صراحت سے شام کی جنگ میں حزب اللہ کی موجودگی کا اظہار کیا ہے اور ساتھ ہی شام میں اپنی مداخلت کی وجوہات بھی بیان کی ہیں۔ 

شام میں حزب اللہ لبنان کی موجودگی پر مبنی خبریں منظرعام پر آنے کے بعد بعض عرب اور مغربی ممالک نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور شام میں حزب اللہ کی مداخلت کی مذمت بھی کی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اس سے پہلے بھی اپنی تقاریر کے دوران شام میں اور خاص طور پر القصیر کے محاذ پر حزب اللہ جنگجووں کی موجودگی کا اعلان کیا تھا اور اسکی وجہ یوں بیان کی تھی کہ اس علاقے میں لبنانی شہریوں کی کثیر تعداد مقیم ہے۔ 

القصیر شام کے صوبہ حمص کا ایک انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ ہے جو لبنان کی سرحد پر واقع ہونے کے ناطے شام کے حکومت مخالف مسلح گروہوں کو جنگجو اور اسلحہ فراہم کرنے کا بہترین راستہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہ علاقہ شام کی حکومت اور حکومت مخالف مسلح گروہوں دونوں کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ سمجھا جاتا ہے لہذا جب شامی فوج اس علاقے کو مسلح دہشت گرد گروہوں کے وجود سے پاک کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو سیاسی اور فوجی تجزیہ کاروں نے اسے شام کی حکومت کیلئے ایک بڑی اور اسٹریٹجک فتح قرار دیا جس کے شام کے اندرونی حالات اور بین الاقوامی سطح پر گہرے اثرات ظاہر ہوں گے۔ 

القصیر معرکہ گذشتہ دو سال سے شام میں جاری بدامنی اور کشمکش میں ایک اہم موڑ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ اس علاقے میں بڑے پیمانے پر لبنانی شہریوں کی موجودگی وہ دو بڑی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن کی بنیاد پر حزب اللہ لبنان شام میں مداخلت کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ 

مزید برآن یہ کہ شام خطے میں اسلامی مزاحمت کی زنجیر کی ایک انتہائی اہم کڑی ہے جو آج ہر دن سے زیادہ ان ممالک، تحریکوں اور گروہوں کی مدد کی محتاج ہے جن کی وہ ہمیشہ سے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے مقابلے میں بے دریغ حمایت اور مدد کرتا چلا آیا ہے۔ 

سب اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اگر آج اسلامی مزاحمت کی یہ کڑی ٹوٹتی ہے تو خطے میں موجود اسرائیل مخالف محاذ شدید صدمے سے دچار ہو جائے گا جس کا سب سے پہلا اثر خود حزب اللہ لبنان پر ہی پڑے گا۔ دوسری طرف اسرائیل بھی ایک عرصے سے اسی فرصت کی تاڑ میں ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ شام میں بدامنی اور کشمکش یقینی طور پر لبنان پر بھی منفی اثرات پڑنے کا باعث بن سکتی ہے لہذا اگر ہم اس زاویے سے شام میں حزب اللہ لبنان کی مداخلت پر نظر ڈالیں تو جان جائیں گے کہ اس مداخلت کی پیچھے نظریاتی اور پارٹی سے مربوط عوامل کے علاوہ قومی مفادات کی حفاظت اور دفاع بھی مدنظر قرار پائی ہے۔ 

شام کی فوج حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کی مدد سے القصیر پر قابض ہونے میں کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہے اور اب اس کا رخ ترکی کی سرحد پر واقع حلب کے علاقے کی سمت ہو گیا ہے تاکہ اس علاقے کو بھی مسلح دہشت گرد تکفیری عناصر سے پاک کر کے امریکی اور اسرائیلی مفادات کی خاطر برسرپیکار باغیوں پر دوسری کاری ضرب لگا سکے۔ البتہ یہ دوسری بڑی کامیابی بھی حزب اللہ لبنان کی مدد سے ہی حاصل ہو گی۔ 

ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر شام موجودہ بحران سے باہر نکلنے میں کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا ہے، جس کے واضح شواہد بھی نظر آ رہے ہیں، تو شام کی طاقت میں اضافے کے علاوہ خطہ بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گا جو ماضی سے بالکل مختلف ہو گا۔ 

خطے میں اسلامی مزاحمت کی طاقت کا بول بالا اور عالمی طاقتوں کی جانب سے اسے رسمی طور پر قبول کیا جانا، جیسا کہ آج دو بڑی عالمی طاقتیں یعنی چین اور روس اسے رسمی طور پر قبول کر چکے ہیں، اس کامیابی کے دو بڑے نتائج شمار ہوتے ہیں۔ یقینا اس نئی صورت حال کا فائدہ حزب اللہ لبنان کو بھی پہنچے گا کیونکہ نہ صرف صدر بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی کی صورت میں لبنان پر ممکنہ اسرائیلی حملے اور لبنان میں بحرانی صورت حال پیدا ہو جانے کا خطرہ ٹل جائے گا بلکہ خطے میں لبنان کی قومی طاقت میں بھی اضافہ ہو گا۔ 

اسلامی مزاحمت کی کامیابی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے جس کی ابتدائی علامات امریکہ کے پٹھو عرب ممالک اور فرانس جیسے مغربی ممالک کی جانب سے شدید غصے کے اظہار کی شکل میں ظاہر ہو چکی ہیں اور جو اب اپنا پورا زور اس پر لگائے ہوئے ہیں کہ کس طرح حلب کے معرکے میں بھی شکست سے دچار ہونے سے بچ سکیں۔ 

ایسے وقت جب سعودی عرب، قطر، ترکی، تیونس اور لیبیا جیسے خطے کے ممالک اور فرانس، برطانیہ اور جرمنی جیسے مغربی ممالک ہزاروں میل دور امریکہ کی حمایت اور مدد سے اربوں ڈالر خرچ کرنے اور اسلحہ فراہم کرنے کے ذریعے شام میں مداخلت کرنے میں مصروف ہیں، کیوں حزب اللہ لبنان جو اس بدامنی کی آگ کے پڑوس میں واقع ہے اپنی مستقبل کی سلامتی کو مستحکم کرنے کی خاطر موثر اقدام انجام نہ دے؟
خبر کا کوڈ : 275034
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش