1
0
Thursday 20 Jun 2013 22:37

طالبان امریکہ مذاکرات کی شروعات!

طالبان امریکہ مذاکرات کی شروعات!
تحریر: طاہر یاسین طاہر 

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے مذاکراتی دفتر کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ ان دوحہ مذاکرات کا آغاز گوانتاناموبے سے پانچ افغان قیدیوں اور طالبان کی قید سے ایک امریکی فوجی کی رہائی سے ہوگا۔ دوحہ میں قائم افغان طالبان کے دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم کا کہنا ہے کہ ان کا دفتر تمام افغانوں کے لیے ہے اور جو بھی آئے گا اس کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ ان کا اشارہ افغان امن کونسل کی جانب تھا، تاہم ڈاکٹر محمد نعیم کا کہنا ہے کہ ابھی تک افغان امن کونسل نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ افغان امن کونسل کے ساتھ بات چیت کرنے کے حوالے سے افغان طالبان نے پہلی بار آمادگی کا اظہار کیا ہے، اس سے قبل انہوں نے ہمیشہ افغان حکومت سے بات چیت کرنے سے انکار کیا ہے۔ 

تاہم دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت اس وقت تک مذاکراتی عمل میں شریک نہیں ہوگی جب تک بات چیت کا یہ عمل افغان قیادت میں نہیں ہوتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ افغان صدر نے دوحہ مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ حامد کرزئی دوحہ میں کھولے گئے طالبان کے مذاکراتی دفتر کے نام پر بھی معترض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ نامی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں۔ خیال رہے کہ 1996ء میں جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی تو افغانستان کا سرکاری نام یہی رکھا گیا تھا۔ 

شنید ہے کہ اس بار طالبان اور امریکہ کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہے ہیں کیونکہ گذشتہ برس مارچ میں قطر میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات اس وقت ختم ہوگئے تھے جب طالبان نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ بغیر کسی منصوبے کے بات چیت کے لئے آیا ہے۔ طالبان نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے گوانتاناموبے میں قید پانچ طالبان قیدیوں کو ایک امریکہ فوجی کے بدلے میں رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا جو ایفا نہ ہوا۔ دریں اثنا امریکی صدر نے امید ظاہر کی کہ تمام مشکلات کے باوجود یہ عمل آگے بڑھے گا۔ امریکی وزیرِ خارجہ سینیٹر جان کیری امریکی نمائندے کی حیثیت سے افغان طالبان سے مذاکرات کا آغاز کریں گے۔ امریکہ اس بات کا بھی اعلان کرچکا ہے کہ وہ طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرے گا۔ امریکہ نے افغان صدر حامد کرزئی کی اس تشویش کو مذاکرات سے قبل دور کر دیا ہے کہ دوحہ میں دفتر کھولنے سے امریکہ طالبان کی سیاسی شناخت کو تسلیم نہیں کرے گا۔ 

اس امر میں کلام نہیں کہ دوحہ میں شروع ہونے والے مذاکرات نہ صرف افغانستان کی صورتحال سے براہِ راست تعلق رکھتے ہیں بلکہ یہ مذاکرات ناکامی و کامیابی، ہر دو صورتوں میں پورے مشرقِ وسطٰی کی صورتحال پر اثر انداز ہوں گے۔ گرچہ قطر میں طالبان کے دفتر کا افتتاح اس امر کا اشارہ ہے کہ امریکہ اب طالبان کے ساتھ گولی کے بجائے بات چیت کو ترجیح دے رہا ہے لیکن یہ معاملے کا ظاہری پہلو ہے۔ امریکہ کابل کی تمام تر تشویش کے باوجود دوحہ میں طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرنے جا رہا ہے، مگر ان مذاکرات کی خاص بات حقانی نیٹ ورک کو امن کے لیے ضروری سمجھا جانا ہے اور یہ نیٹ ورک دوحہ میں امن مذاکرات کی میز پر ہوگا۔ 

یہ وہی حقانی نیٹ ورک ہے جس کے خلاف امریکہ نے سب سے زیادہ فوجی آپریشنز کئے اور حقانی نیٹ ورک کو عالمی سطح پر بھی دہشت گرد قرار دیا گیا۔ پاکستانی حدود میں بھی حقانی نیٹ ورک کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور پاکستان پر بار بار الزامات لگائے گئے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کی مدد کر رہا ہے، جبکہ اسی حقانی نیٹ ورک نے امریکیوں پر تباہ کن حملے کئے اور انہیں جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ مگر آج افغانستان میں امن کی تلاش میں امریکہ اور حقانی نیٹ ورک مل کر منصوبہ بندی کرنے لگے ہیں۔ اسے قدرت کا کرشمہ کہیے یا پھر میر تقی میر کے شعر کو گنگنائیے!
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
 

جب عالمی طاقتیں عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دیئے گئے گروہوں کی طرف امن طلب نظروں سے دیکھنے لگیں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ انسان اپنی مرضی سے زندہ رہنے کا حق کھو چکا ہے، مگر ایسا نہیں شکست دہشت گردوں کا مقدر ہے۔ میرا نہیں خیال کہ دوحہ مذاکرات ثمر بار ہوں گے۔ پیشگی شرائط دونوں فریقوں کو ایک دوسرے سے بدظن کئے ہوئے ہیں۔ افغان طالبان سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کوئی خفیہ پلان رکھتا ہے جبکہ امریکی اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ طالبان بدعہدی کریں گے۔ سادہ سی بات ہے کہ 70 کی دہائی سے لے کر آج تک امریکی ’’جہاد‘‘ ہی اس خطے میں بدامنی کی اصل وجہ ہے اور کون نہیں جانتا کہ جس حقانی نیٹ ورک کو امن کے لیے آج ضروری سمجھا جا رہا ہے 70 کی دہائی میں بھی یہ نیٹ ورک امریکی ’’جہاد‘‘ کے لیے اولین ضروریات میں سے تھا۔ امریکہ اپنے انخلا کے لیے افغان طالبان کو مذاکرات کے کھیل میں مصروف رکھنا چاہتا ہے۔
 
اللہ کرے کہ افغانستان میں امن قائم ہو، مگر جس منصوبہ بندی کے نہ ہونے کے باعث امریکہ کے ساتھ سالِ گذشتہ میں طالبان کے مذاکرات ختم ہوگئے تھے، اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ امریکہ اور طالبان اس بار ایک دوسرے سے بڑھ کر منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ ایک دوسرے کے پرانے تعلق کار ایک دوسرے کی مجبوری کو سمجھیں گے۔ امریکہ شامی باغیوں کو، جن میں سے بیشتر غیر ملکی تکفیری ہیں، انہیں مسلح کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔ اسے افغانستان سے زیادہ اب شام میں ’’جہادیوں‘‘ کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں امن کی فاختہ پتہ نہیں کب اڑے گی، مگر امریکی تھنک ٹینکس دنیا کی توجہ دوحہ مذاکرات کی طرف موڑ کر اپنی ساری توجہ شام پر مرکوز کرچکے ہیں، دوحہ مذاکرات کو اس پہلو سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 275383
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

goods points tahir saheb peshawar dahmaka taliban k pehla gift hy un sy ekhtalf rakhny waly muslims k leay...........
ہماری پیشکش