QR CodeQR Code

ایران کے انتخابی نتائج، مغرب کو اپنے لئے صحیح پیغام تلاش کرنے کی ضرورت

23 Jun 2013 19:12

اسلام ٹائمز: روحانی کی فتح ظاہر کرتی ہے کہ انتخابی مقابلہ ایک حقیقی مقابلہ تھا جسے کسی بھی صورت میں مصنوعی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایرانی عوام نے امیدواروں کی انتخابی مہم کے دوران ان کے منشوروں، منصوبوں، دعووں اور وعدوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی کسی کے حق میں اپنے ووٹز ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 14 جون 2013ء کے انتخاب میں عوام کا جوش و خروش ٹھاٹھیں مارتا سمندر کی مانند تھا۔ 82 فیصد رائے دہندگان کی پولنگ بوتھ پر موجودگی جمہوری انتخاب کی تاریخ میں ایک غیر معمولی ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ جیسے ملک میں جو جمہوریت کے چیمپیئن کی حیثیت سے دنیا میں اپنی شہرت رکھتا ہے، جہاں انتخابی عمل میں رائے دہندگان کی موجودگی بہت کم ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ولولہ انگیز بھی ہوتی ہے۔


تحریر: سید راشد احد

ایرانی حالات سے متعلق امریکی ماہرین جن کے اندازے ایران کے حوالے سے ہمیشہ ہی غلط ثابت ہوتے ہیں صدارتی انتخاب میں حسن روحانی کی فتح کو ایران کی داخلی شکست و ریخت کی واضح علامت قرار دینے کی ادھیڑبن میں ہیں۔ درحقیقت روحانی کی کامیابی سے ایک بالکل مختلف پیغام موصول ہوا ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ ایک مضبوط اور سیاسی طور سے ہر آن متحرک اسلامی جمہوریہ ایران کی زندہ حقیقت سے سمجھوتہ کرلیں اور اس کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کریں۔ انتخابات سے پہلے امریکہ اور مغرب کے بہت سارے سیاسی ماہرین حتیٰ کہ بعض دانشوران جو ایرانی نژاد تارکینِ وطن میں سے ہیں یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کررہے تھے کہ ایران کا حالیہ صدارتی انتخاب ایک مصنوعی اور ساختہ عمل ہوگا جس کے ذریعے ولی فقیہ آیت اللہ خامنہ ای کے پسندیدہ اور برگزیدہ امیدواروں میں سے کسی ایک کو کامیابی سے ہمکنار کرانا مقصود ہے۔ یعنی یہ انتخاب انتخاب نہیں بلکہ پسندیدگی کا عمل قرار پائے گا تاکہ اس طرح ایرانی سیاست پر آیت اللہ خامنہ ای کی (بقول ان کے) آمرانہ گرفت کو مزید مضبوط کیا جاسکے۔

بروکنگز انسٹیٹیوشن کی سوزانے مالونی (Suzanne Maloney) کی طرح کے بہت سے سیاسی ماہرین ایران کے ایٹمی مذاکرات کار سعید جلیلی کو آیت اللہ خامنہ ای کاپسندیدہ امیدوار قرار دے رہے تھے اور ان کے صدر بننے کی پیشگوئی کر رہے تھے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے واضح الفاط میں اپنا نقطہ نظر صادر فرمایا تھا کہ ''Rohani will not be allowed to win' یعنی حسن روحانی کو انتخاب میں جیتنے نہیں دیا جائے گا۔ لیکن اسکے برعکس ہم نے دیکھا کہ آخری دنوں میں ایران میں انتخابی رقابت زوروں پر تھی جس کے دوران تمام صدارتی امیدواروں کو قومی میڈیا پر وسیع اور مستقل رسائی دی جارہی تھی۔ ایران کا قومی میڈیا بلاتفریق انتخابی مہم کے مناظر اور تمام امیدواروں کی انتخابی سرگرمیوں کی فوٹیج یکساں طور سے دکھا رہا تھا۔ ہر ایک امیدوار کی انتخابی مہم کی تشہیر ایران کا قومی میڈیا غیر جانبدارنہ طریقے سے کررہا تھا بالخصوص امیدواروں کے درمیان ہونے والے مباحثوں کی تشہیر کہ جن کا اہتمام خود ٹیلی وژن چینلز ہی نے کیا تھا۔ اس انتخاب نے امریکہ کے نام نہاد سیاسی ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اس لئے کہ فاتح کی حیثیت سے ایک ایسا امیدوار ابھر کر آیا ہے جس کے متعلق ان ماہرین کا خیال تھا کہ اُسے ہرگز کامیاب ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ انتخاب میں فاتح ہونے کی بنیاد عوامی حمایت ہے نہ کہ آیت اللہ خامنہ ای کا پسندیدہ اور برگزیدہ ہونا ہے۔

روحانی کی فتح ظاہر کرتی ہے کہ انتخابی مقابلہ ایک حقیقی مقابلہ تھا جسے کسی بھی صورت میں مصنوعی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایرانی عوام نے امیدواروں کی انتخابی مہم کے دوران ان کے منشوروں، منصوبوں، دعووں اور وعدوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی کسی کے حق میں اپنے ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 14 جون 2013ء کے انتخاب میں عوام کا جوش و خروش ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی مانند تھا۔ 82 فیصد رائے دہندگان کی پولنگ بوتھ پر موجودگی جمہوری انتخاب کی تاریخ میں ایک غیر معمولی ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ جیسے ملک میں جو جمہوریت کے چیمپیئن کی حیثیت سے دنیا میں اپنی شہرت رکھتا ہے، جہاں انتخابی عمل میں رائے دہندگان کی موجودگی بہت کم ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ولولہ انگیز بھی ہوتی ہے۔

بہرحال ایرانی عوام صدر کے انتخاب میں دقیق غور و فکر سے کام لیتے ہوئے امیدواروں کے اوصاف نیز اُن کی صلاحیتوں کو بخوبی درک کرنے کے حوالے سے بہت ہی حساس واقع ہوئے ہیں۔ بیشتر ایرانیوں نے بالآخر وہی فیصلہ کیا تھا جس کا تقاضا اُن کے عقل و ضمیر نے کیا تھا۔ اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی برکت سے ایرانی عوام کا شعور قدرے بالیدہ ہوچکا ہے۔ ان کا انتخاب بہت ہی بامعنی ہے اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ صدارتی انتخاب کے علاوہ ایرانی عوام نے دو لاکھ سے زیادہ مقامی و بلدیاتی نشستوں کے لئے بھی ووٹ دئیے جن کے لئے 8 لاکھ سے زیادہ امیدواران میدان میں موجود تھے۔ یہ تمام انتخابی عمل اسلامی جمہوریہ ایران کی آمرانہ روش پر گامزن ہونے کے مغربی دعوے کو مضحکہ خیز اور بچکانہ ظاہر کرتے ہیں۔ یقیناً مغربی ماہرین اس وقت غلطی پر تھے جب وہ یہ کہہ رہے تھے کہ سابق صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کو انتخابی عمل میں حصہ لینے سے نااہل قرار دئیے جانے کے سبب ایران سیاسی بیزاری اور بے حسی کی کیفیت سے دوچار ہوجائے گا۔

آقا ہاشمی رفسنجانی ایرانیوں میں ان دنوں بہت مقبول شخصیت نہیں ہیں وہ یقیناً اس بار بھی انتخاب ہار جاتے اگر وہ عوام کے ووٹوں کے روبرو ہوتے۔ آقا رفسنجانی کا کنارے لگنا جناب روحانی کے فائدے میں گیا جو کہ رفسنجانی کے حمایت یافتہ امیدوار تھے۔ یہ بات بہت عام ہے کہ آقا رفسنجانی ایرانی سیاست میں عملیت پسندی پر مبنی رجحان کو فروغ دینے کے قائل ہیں تاکہ قدامت پسندوں یا اصول گرایوں کی انتہا پسندی کا روک تھام کیا جاسکے اور اپنے اس موقف کی وجہ سے ہی وہ ایران میں اصلاح پسندوں کے رہنما کے طور پر مشہور ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آقا رفسنجانی نے دونوں کیمپوں یعنی اصلاح طلبان اور اصول گرایان کو ناراض کیا ہے اور کوئی ایسا مستقل کیمپ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جو اعتدال اور میانہ روی پر مبنی رجحان کا ترجمان ہو۔ جناب حسن روحانی واحد امیدوار تھے جن کا تعلق علمائے دین کے طبقے سے ہے۔ جناب روحانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران انتہا پسندی خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، کی مستقل مذمت کرتے رہے اور اس معاملے میں انھیں جناب رفسنجانی کی تائید اور حمایت پوری طرح حاصل تھی۔ لہٰذا اس بات کا غالب امکان ہے کہ حسن روحانی جناب رفسنجانی کے خواب کی تکمیل ان کے دوسرے حمایت یافتہ امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے کرسکیں۔

انتخابی مہم کے دوران جناب حسن روحانی کا جو کمزور ترین پہلو تھا وہ 2003 تا 2005 کے دوران کہ جس میں جناب روحانی ایران کی اعلیٰ سیکورٹی کونسل کی جانب سے ایٹمی مذاکرات کار کے طور پر مقرر کئے گئے تھے، یورینیم کی افزودگی کو دو سال کے لئے معطل کرنے پر رضامند ہونا تھا کہ جس کے عوض ایران کو مغرب کی جانب سے کچھ بھی نہیں ملا تھا۔ شاید 2005ء میں احمدی نژاد کی فتح کا سبب جنابِ روحانی کی یہی مصالحانہ روش ہو جو انہوں نے مغرب کے ساتھ مذاکرات میں اپنا رکھی تھی۔ چنانچہ اس مرتبہ روحانی بہت شد و مد کے ساتھ اُن امکانی خطرات کا ذکر کرتے رہے جو اُس وقت ایران کو مغرب کی طرف سے درپیش تھے۔ اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے یہ دلیل بھی پیش کی کہ اُن کی مصالحانہ روش پر مبنی اندازِ گفتگو کے سبب ہی ایران پابندیوں سے گریز کرنے میں کامیاب ہوا تھا اور اُن کی اسی حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا کہ بعد کے دنوں میں ایران نے جوہری ڈھانچے کی تعمیر میں غیر معمولی اور حیرت انگیز پیشرفت کی۔ جناب روحانی کی اس دلیل کو ایرانی مسلح افواج کے چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل سید حسن فیروز آبادی کے اس بیان سے بھی تقویت ملی کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سیکورٹی کے مسائل پر جناب روحانی کا موقف قابل تعریف ہے۔ اس بار امیدواروں کے مابین جب مباحثے کا تیسرا دور چل رہا تھا اور خارجہ پالیسی کا موضوع زیرِ بحث تھا تو ان آخری دنوں میں روحانی کا انتخابی آہنگ دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط نظر آرہا تھا۔

روحانی کے بعد جس امیدوار کی انتخابی سرگرمیوں میں توانائی محسوس کی جارہی تھی وہ تہران کے میئر جناب باقر قالیباف تھے جو انتخابی مقابلے میں دوسرے نمبر پر آئے۔ دو روز پہلے تک ایسا لگ رہا تھا کہ انتخاب اپنے نتیجے کے لحاظ سے دوسرے دور کا متقاضی ہوگا اور پھر اس دوسرے دور میں روحانی اور قالیباف مقابلے کے لئے رہ جائیں گے لیکن انتخاب کے روز شروع ہی میں یہ واضح ہوگیا تھا کہ حسن روحانی اپنے قریب ترین حریف باقر قالیباف نیز دیگر انتخابی حریفوں سے بہت آگے جارہے ہیں جب کہ اس کے بالکل برعکس 2009ء کے صدارتی انتخاب میں تکینکی اعتبار سے کوئی ایسی مضبوط علامت سامنے نہیں آئی تھی جو ظاہر کرتی ہو کہ میر حسین موسوی اپنے قریب ترین انتخابی حریف محمود احمدی نژاد سے آگے ہیں۔ حسن روحانی کی کامیابی کا راز اتحاد و مفاہمت سے کام لینے کی اُن کی صلاحیت میں مضمر ہے، بالخصوص اصلاح طلبان کے ساتھ۔ روحانی بذاتِ خود انتہا پسندوں میں سے نہیں ہیں۔ ان کا تعلق جامعۂ روحانیونِ مبارز سے ہے جو کہ مجمعِ روحانیونِ مبارز کی قدامت پسندانہ شکل ہے کہ جس کے بانی سید محمد خاتمی ہیں جو 1997ء میں ایران کے پہلے اصلاح پسند صدر تھے۔ مجمعِ روحانیون مبارز کی تشکیل میں کچھ دوسرے اصلاح پسند علماء بھی محمد خاتمی کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ بحیثیتِ مجموعی حسن روحانی کو زیادہ ووٹ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں سے ملے ہیں کہ جہاں کے رہنے والے بڑے شہروں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ قدامت پسند ہوتے ہیں۔ چھوٹے علاقوں میں ان کو زیادہ ووٹ پڑنے کی بڑی وجہ ان کا عالمِ دین ہونا ہے۔

اس بار انتخابی امیدواروں میں جو حقیقی اصلاح پسند تھے وہ جناب محمد رضا عارف تھے جو خاتمی کے اول نائب صدر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ عارف بہرحال اپنے آپ کو ایک پرجوش و پرنشاط امیدوار ثابت نہ کرسکے اور ان کی عوامی مقبولیت بھی بہت کم نظر آرہی تھی۔ چنانچہ آخری مباحثے کے بعد دوسرے اصلاح پسندوں نے انھیں انتخابی مقابلے سے باہر نکل جانے پر مجبور کردیا جس کی وجہ سے خاتمی حسن روحانی کی حمایت کرنے میں آزاد ہوگئے۔ اگرچہ اصلاح طلبان روحانی کی انتخابی بنیاد کا محور نہیں تھے تاہم ان کے ووٹوں نے روحانی کو 50 فیصد سے زائد ووٹوں کے حصول میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ 2013ء کے ایرانی صدارتی انتخاب نے ایک اور اہم نکتے کی تصدیق کردی ہے جس پر ایران کے اسلامی نظام کے حامیان برابر زور دیتے رہے ہیں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ مغرب کی روایتی دشمنی پر مبنی تشہیراتی مہم کے علی الرّغم 2009ء کے ایرانی صدارتی انتخاب میں کہ جس میں محمود احمدی نژاد، میر حسین موسوی اور اپنے دو مزید حریفوں پر غالب آئے تھے کے حوالے سے کوئی بھی ایسی مضبوط شہادت سامنے نہیں آئی کہ جس کی بناء پر یہ الزام ثابت ہوتا کہ مذکورہ انتخاب دھاندلی سے عبارت تھا۔

اس کے باوجود ایران کے سیاسی نظام نے گذشتہ سال ایک قانون کی منظوری دی جس کی رو سے ایک انتخابی کمیشن کی تشکیل عمل میں آئی جو 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے وزارتِ داخلہ کے طرزِ عمل کی نگرانی نیز تصدیق کا ذمہ دار ہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر منظم اقدامات کہ جن سے دھاندلی کے امکان یا دھاندلی کے واقعات کا سدِباب ہوتا ہو اسلامی جمہوریہ کی اُس صلاحیت کی مظہر ہے جس سے کام لیتے ہوئے اپنی اصلاحات کا عمل وہ خود انجام دیتی ہے۔ چنانچہ زندانِ کہریزک کا بند کیا جانا کہ جہاں 2009ء کے انتخاب کے بعد پولیس کی زیادتی کے واقعات سامنے آئے تھے، اصلاحاتی عمل کے لئے اسلامی جمہوریہ کے عزم و ارادے کا مظہر ہے۔

مغرب میں اس حقیقت کی نشاندہی سے مبصرین پر بلیک میلنگ کے جھوٹے الزامات عائد کئے جاتے ہیں لیکن جو لوگ اس طرح کے جھوٹے الزامات وارد کرتے ہیں تواتر کے ساتھ اُن کا برسرِ تغلیط ہونا ثابت ہوتا رہا ہے کیونکہ ایرانی سیاست مستقل اُن کے مضحکہ خیز و توہین آمیز جامد خیال یا نقطۂ نظر کا بطلان کرتی رہی ہے۔ 2009ء کے صدارتی انتخاب کا اگر اس بار کے انتخاب سے موازنہ کیا جائے تو امیدواروں کے روئے کا فرق نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ اس بار تمام امیدواروں نے اتفاق کرلیا تھا کہ انتخابی عمل کے بعد اجتماعات کے انعقاد سے گریز کریں گے اور کوئی بیان اُس وقت تک جاری نہیں کریں گے تاآنکہ ووٹوں کی گنتی مکمل نہیں ہوجاتی اور نتائج کا سرکاری طور پر اعلان نہیں ہوجاتا۔ امیدواران اپنے اس متفقہ فیصلے پر قائم رہے البتہ وزارتِ داخلہ وقفے وقفے سے جزوی نتائج کا اعلان کرتی رہی جو اُسے پورے ایران کے پولنگ اسٹیشنوں سے موصول ہورہے تھے۔ باوجود اس کے کہ کامیاب امیدوار حسن روحانی 50 فیصد کی متعینہ حد کی جانب بڑھتے ہوئے ابھی صرف 261251 ووٹوں کے ساتھ آگے تھے کہ ان کے انتخابی حریفوں نے فوری طور سے ان کو مبارک باد کے پیغامات ارسال کرنے شروع کردئیے حتیٰ کہ آیت اللہ خامنہ ای نے بھی یہی کیا۔

اب ذرا ہم اس رویے کا مقابلہ جون 2009ء کے صدارتی انتخاب سے کریں تو دیکھتے ہیں کہ ابھی جبکہ ووٹنگ جاری ہے اور ووٹس کی گنتی شروع بھی نہیں ہوئی ہے تو جناب حسین موسوی یہ اعلان کرتے ہیں کہ سرکاری طور سے انہیں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ بہت ہی نمایاں برتری کے ساتھ اپنے دوسرے حریفوں کے مقابلے میں انتخاب جیت چکے ہیں اس بناء پر اُن کے لئے یہ جواز پیدا ہوگیا کہ وہ انتخاب میں دھاندلی کا دعویٰ کریں اور اپنے حامیوں کو سڑکوں پر جمع کریں اور یوں اپنی جنبشِ سبز (سبز تحریک) کا آغاز کریں۔ پھر موسوی دھاندلی کے اپنے دعوے کے حق میں ٹھوس ثبوت و شواہد لانے سے قاصر رہے تو سبز جنبش کی عوامی بنیاد بری طرح متزلزل ہوگئی اس لئے کہ اس صورت میں اب یہ لوگ کسی مخصوص انتخابی نتائج کو چیلنج نہیں کر رہے تھے بلکہ اسلامی جمہوریہ بطور ایک سیاسی نظام کی فکر ہی پر سرے سے سوالیہ نشان لگارہے تھے۔ سبز جنبش کی ناکامی کے باوجود بھی یہ تحریک ایرانی نژاد تارکینِ وطن، اسرائیل نواز گروہوں نیز مغربی مداخلت پسندی کے حامی افراد کی کمین گاہ رہی جو اس زعمِ باطل میں مبتلا تھے کہ ایران میں بالآخر مغربی طرز کی لادین یا سیکولر جمہوریت مشارکت پر مبنی اسلامی طرزِ حکومت کی جگہ لے لے گی۔ لیکن اصلاح پسندوں اور اُن کے میانہ رو اتحادی جو اسلامی جمہوریہ کے حامی تھے اگرچہ اسلامی جمہوریہ کے مستقبل کے حوالے سے اُن کا نقطۂ نظر اصول گرایان کے نقطۂ نظر سے قدرے مختلف تھا اس کے باوجود انھوں نے جنبشِ سبز سے اپنے آپ کو دور کرنا ضروری خیال کیا۔

ان کی اس روش نے انھیں یعنی اصلاح پسندوں اور ان کے میانہ رو اتحادیوں کو جہاں ایک طرف دوبارہ مجتمع ہونے کا موقع دیا وہیں دوسری جانب 2009ء کے انتخاب، 2005ء کے صدارتی انتخاب میں آقا ہاشمی رفسنجانی کی شکست اور صدر خاتمی کی اپنی صدارتی مدت میں گوناگوں ناکامیوں سے سبق حاصل کرنے کا بھی موقع فراہم کیا۔ چنانچہ حسن روحانی کی حالیہ انتخابی کامیابی میں ان عوامل کا بہت اہم کردار ہے۔ لہٰذا امریکہ اور مغرب کو اپنے مہلک خیالِ خام کو ترک کردینا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ ایرانیوں کے لئے ایک پائدار اور قانونی نظام کی شکل اختیار نہیں کر سکتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ کی بنیادی اور اہم خصوصیات میں مشارکت پر مبنی اس کا طرزِ حکومت ہے اور اس کی آزاد خارجہ پالیسی ہے جو نہ صرف ایرانیوں کے لئے کشش رکھتی ہے بلکہ اسلامی دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے لئے اس میں کشش موجود ہے بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کے لئے جو اسی کشش کی بنا پر اپنی سرزمینوں میں اسلامی بیداری کی تحریک برپا کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا امریکہ اور مغرب کے لئے یہ مناسب وقت ہے کہ وہ اسلامی ایران جیسی حقیقت سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کریں۔ اب آخر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جناب حسن روحانی کی انتخابی تفصیلات، علمی تحصیلات اور اُن کے حالاتِ زندگی کا بھی یہاں مختصراً تذکرہ کردیا جائے۔

ایران کا گیارہواں صدارتی انتخاب جو کہ 14 جون کو منعقد ہوا، میں حسن روحانی نے عوامی ووٹوں کی عظیم اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ ایران کے وزیرِ داخلہ مصطفی محمد نجار نے 15 جون 2013ء کو یہ اعلان کیا کہ 36،704،156 سالم ووٹوں کی گنتی کے نتیجے میں حسن روحانی نے 18،613،329 ووٹس کے ساتھ 50،7 فیصد ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ اصول گرا امیدوار محمد باقر قالیباف روحانی کے قریب ترین حریف ثابت ہوئے جو روحانی کے مقابلے میں 6،077،292 ووٹوں سے پیچھے رہے۔ باقر قالیباف نے نتائج سامنے آتے ہی روحانی کو اُن کی کامیابی پر مبارک باد دی۔ اصول گرا امیدوار سعید جلیلی نے 4،168،946 ووٹزحاصل کئے۔ آزاد امیدوار محسن رضائی نے 3،884،412 ووٹز حاصل کئے۔ اصول گرا امیدوار علی اکبر ولایتی اور آزاد امیدوار سید محمد غرضی نے بالترتیب 2،268،753 اور 446،015 ووٹز حاصل کئے۔ 1،245،409 ووٹز ناقص ہونے کی بنیاد پرضائع قرار پائے۔ تقریباً 50،5 ملین ایرانیوں نے ووٹ کاسٹ کئے جس میں تقریباً 1،6 ملین ووٹروں نے پہلی بار ووٹ کاسٹ کئے کیونکہ عمر کے لحاظ سے یہ لوگ 14 جون کے انتخابات میں ہی حصہ لینے کے اہل ہوئے تھے۔ وزارتِ داخلہ کے اعلان کے مطابق 72،7 فیصد رائے دہندگان نے ووٹ کاسٹ کئے۔


خبر کا کوڈ: 276096

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/276096/ایران-کے-انتخابی-نتائج-مغرب-کو-اپنے-لئے-صحیح-پیغام-تلاش-کرنے-کی-ضرورت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org