0
Tuesday 25 Jun 2013 13:02

دوحہ مذاکرات اور پاکستان

دوحہ مذاکرات اور پاکستان
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم 
 
یہ سچی بات ہے کہ 9/11 کے بعد افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا حملہ امریکہ کی تاریخ کا ایک Strategic Blunder تھا۔ امریکی صدر اوباما کے دل کو اگر کھول کر دیکھنا ممکن ہو تو امریکہ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے شروع ہونے والی بے سود افغان جنگ کا داغ ندامت واضح نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما نے پہلی انتخابی مہم میں کامیابی کے بعد اپنی خستہ حال معاشی صورت حال کو ورثے میں قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ "Afghan war is not a war of choice" یعنی افغان جنگ ان پر تھوپی گئی ہے۔ بہرحال اس کے باوجود اس وقت صدر اوباما اپنے فوجی کمانڈروں کے دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور بادل نخواستہ بھی افغانستان میں اپنی سپاہ کی تعداد میں مزید اضافہ کرنے پر مجبور ہوگئے، لیکن ساتھ ہی امریکہ کی دفاعی صنعت کے بڑے بیوپاریوں، ہندوستان اور اسرائیل کی پاکستان دشمن لابیوں، طالبان دشمن شمالی اتحاد اور افغانستان میں کرپشن اور ڈرگ منی کے مال حرام سے سوجے ہوئے سیاستدان اور وار لارڈز اس وقت سکتے میں آگئے جب صدر اوباما نے 2014ء تک افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلا کا اعلان بھی کر دیا۔ 

لیکن یہ فیصلہ درست تھا، چونکہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے بھی طویل موجودہ افغان جنگ نے امریکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ امریکہ چین سمیت دوسرے ممالک کا کھربوں ڈالرز کا مقروض ہوچکا ہے۔ غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ بیروزگاری بڑھی اور امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ لاکھوں لوگ فوڈ اسٹیمپ پر گذر اوقات پر مجبور ہوئے۔ افغانستان کے جنگی میدانوں میں پچھلے دس سالوں میں ہر روز غروب آفتاب تک ایک یا دو فوجی لقمہ اجل بنتے رہے۔ 2009ء میں 521، 2010ء میں 711، 2011ء میں 566 اور 2012ء میں 402 امریکی اور نیٹو سپاہی ہلاک ہوئے۔ سب سے چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ میدان جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں سے خودکشیوں سے ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد حیران کن حد تک زیادہ ہو گئی۔ مثلاً 2012ء میں اگر نیٹو سپاہیوں کے علاوہ 295امریکی فوجی جنگ میں ہلاک ہوئے تو امریکہ کی اپنی ایک آرمی رپورٹ کے مطابق 349 امریکی فوجیوں نے خودکشی کی راہ اختیار کی۔

ایسا تو دونوں عظیم جنگوں، کوریا اور ویت نام کی جنگ میں بھی نہیں ہوا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ معاشی بدحالی، بڑے پیمانوں پر انسانی جانوں کا ضیاع اور فتح کے دور دور تک کسی نشان کی عدم موجودگی کی بدولت امریکہ افغانستان سے انخلا پر مجبور ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ جن طالبان کا نام سن کر بھی امریکی قیادت کا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا تھا، اب امریکہ ان سے مذاکرات کے لئے تیار ہی نہیں بلکہ بے تاب ہے۔ امریکہ نے پہلے تو مذاکرات کے لئے کچھ شرائط رکھیں۔ مثلاً 
1) ہتھیار رکھو اور مزاحمت بند کرو۔ 
2) القاعدہ سے سارے رشتے توڑ لو۔
 3) افغانستان کے آئین کا احترام کرو۔ 
طالبان نے جواب میں کہا
 1) ہتھیار اٹھانا اور مزاحمت کرنا ہمارا حق ہے چونکہ قابض فوجوں نے ہماری آزادی سلب کر رکھی ہے۔ 2) امریکہ سے مذاکرات اس وقت تک نہیں کریں گے، جب تک آخری اتحادی فوجی افغانستان سے نکل نہیں جاتا۔ 
3) کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت اور اس کے بنائے ہوئے آئین کو ہم نہیں مانتے۔ 

لیکن بالآخر برطانیہ، پاکستان، قطر، جرمنی اور سوئیڈن کی کوششوں سے طالبان قطر میں مذاکرات کے لئے ان شرائط پر تیار ہوگئے۔ 
1) پہلی یہ کہ چونکہ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا ابھی نہیں ہوا، اس لئے افغانستان میں مزاحمت جاری رہے گی، لیکن ہم فوجی انخلا سے پہلے مذاکرات کے لئے رضا مند ہیں اور افغان طالبان مذاکرات میں حقانی گروپ سمیت سب کی نمائندگی کریں گے۔ یہ بات امریکہ کو پسند آئی۔
 2) طالبان کا دفتر قطر کے شہر دوحہ میں کھولا جائے گا۔ جس پر امریکہ نے رضا مندی ظاہر کر دی، لیکن طالبان نے دفتر پر اپنا جھنڈا اور Islamic Emirates of Afghanistan کا بورڈ بھی لگا دیا، جس پر کرزئی معترض ہوا۔
 3) طالبان نے کہا القاعدہ سے تعلقات توڑنے یا جوڑنے کی بات بے معنی ہے، لیکن ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف دہشتگردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ (گارڈین اخبار 19 جون 2013ء) امریکہ نے اس کو طالبان کے القاعدہ سے تعلقات منقطع کرنے کی جانب پہلا قدم سمجھتے ہوئے خوش آئند قرار دیا۔
 4) ہم کرزئی کو نہیں مانتے، لیکن کرزئی اور اس کی ہائی پیس کونسل کے ارکان دوحہ مذاکرات میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اس پر بھی امریکی مطمئن ہوئے۔ 
5) طالبان نے یہ بھی کہا کہ وہ واحد امریکی جنگی قیدی کو چھوڑنے پر رضامند ہیں، اگر امریکہ پانچ طالبان قائدین کو بدنام زمانہ گوانتانامو بے کی جیل سے رہا کرنے پر رضا مند ہو جائے۔ اس میں بھی امریکہ کو اپنے ایک حوالدار قیدی کی رہائی کی خبر اچھی لگی۔
 
اب امریکہ اور افغانستان ان شرائط پر مذاکرات کے لئے تیار ہیں، لیکن افغان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ چونکہ طالبان کے قائم کردہ دوحہ دفتر کو طالبان کا سفارت خانہ مانا جاسکتا ہے، جس سے طالبان cause کو بین الاقوامی پذیرائی مل سکتی ہے، اس لئے عمارت سے جھنڈا اور اسلامک امریٹ آف افغانستان کا بورڈ ہٹا دیا جائے۔ چونکہ امریکہ خود ان مذاکرات میں اپنے مفاد کی خاطر دلچسپی رکھتا ہے، اس لئے لگتا یوں ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ پھر چل پڑے گا۔
 
قارئین، امریکہ کے ایک سینئیر تجزیہ نگار Joseph Blady نے، جو امریکی انڈر سیکرٹری آف ڈیفنس فار انٹیلی جنس کے لئے کام کرتا ہے، 19 جون کے اخبار "The Blog" میں ایک کالم بعنوان "Afghan Sad Last Chapter" میں مختصراً مندرجہ ذیل حقیقت پسندانہ نقاط اٹھائے:
1) بہت سارے پیشہ ور لوگوں کی رائے یہ ہے کہ ہم امریکن طالبان سے مذاکرات کریں یا نہ کریں، ہمیں افغانستان چھوڑنا ہوگا۔ 
2) جوزف بلیڈی نے مزید کہا کہ ہمارے انخلا کے بعد طالبان افغانستان کی "Dominant Power" ہونگے چونکہ اس وقت افغان فوج کی پیشہ وارانہ اہلیت کا پول بھی کھل جائے گا۔ یاد رہے کہ افغان آرمی میں افغانستان کے سب سے بڑے پشتون قبیلے کی نمائندگی صرف 20 فیصدی ہے۔
 3) امریکی دانشور نے کہا کہ بہرحال امریکی قوم کے ضمیر کو مطمئین کرنے کے لئے مذاکرات ضروری ہیں، لیکن ہمیں کرزئی کو بالکل اہمیت نہیں دینی چاہئے اور ہر وہ قدم اٹھانا چاہیے جس سے ہمارا افغانستان سے انخلا جلد ہوسکے۔
4) امریکی دانشور کے مطابق امریکہ کے شمالی ویت نام کی طرح افغانستان سے نکل جانے کے بعد، طالبان امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہونگے۔ 
آخر میں جوزف بلیڈی نے کہا:
"All we need to see now are the news clips of helicopters leaving the roof of the US embassy in Vietnam"
یعنی اس وقت ہمیں اخباروں کے وہ تراشے ضرور دیکھنے چاہیں، جن میں ویت نام کی جنگ کے اختتام پر امریکی ہیلی کاپٹروں کو امریکی سفارت خانے کی چھت سے اڑتے دیکھا گیا تھا۔ 

قارئین، پاکستان میں ایک کامیاب اور قابل تعریف انتقال اقتدار کے بعد دہشتگردی اور بربریت کی موجودہ خونی لہر کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں خطے کی مجموعی صورت حال اور خصوصاً افغانستان جنگ کے آخری باب کو ذہن میں ضرور رکھنا چاہیے۔ غیر ملکی سیاحوں کی چلاس کے قریب نانگا پربت کے علاقے میں زندگیوں پر دہشتگردانہ حملے کے فوراً بعد 23 جون کو ہی پاکستان کی قومی اسمبلی میں ساری سیاسی جماعتوں کے قائدین نے حیران کن قومی یکجہتی کے جذبے سے معطر تقاریر کیں، جو بہت ہی قابل تعریف تھیں، لیکن ہر پارٹی کے قائد نے اپنی تقریر کا محور صرف ملک کے اندرونی حالات، سکیورٹی کے ناقص انتظامات، مذہبی انتہا پسندی اور جرائم پیشہ درندوں کی اندرون ملک وارداتوں تک محدود رکھا۔ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ملک کے اندر غیر معمولی چیلنجز کی وجہ سے ہمیں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے غیر معمولی اقدامات تو ضرور اٹھانے ہوں گے۔
 
اس سلسلے میں ہماری کمزوریاں بھی بہت واضح ہیں، لیکن ہمیں یہ بالکل نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک کے اندر موجودہ دہشت گردی کا خاکہ، جس کی گرفت میں بلتستان سمیت ہمارے سارے صوبے ہی نہیں بلکہ قائداعظم کی قدیم رہائش گاہ سے لے کر بین الاقوامی سیاحوں کی جانوں تک سب کچھ آچکا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ اس کے پیچھے پاکستان دشمن بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی سے جب چینی سفیر نے سوال کیا کہ اس تازہ دہشت گردی کا ہدف کون تھا تو وزیر موصوف نے برملا کہا کہ پاکستان کی ریاست۔ اگر ہدف واقعی پاکستان ہی تھا تو پھر ایسی سازش اس ملک کا نمک کھانے والا پاکستانی تو نہیں کرسکتا۔ ہاں ایک بدنصیب پاکستانی کا چہرہ اور جسم ڈالروں کے عوض بیرونی طاقتیں ضرور استعمال کرسکتی ہیں اور دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔
قارئین، پاکستان اور اس کے سارے صوبوں میں جمہوری نظام کی مکمل بحالی اور پرامن انتقال اقتدار کے بعد پاکستان کی ریاست پر حالیہ حملوں کے محرکات کچھ یوں ہوسکتے ہیں۔
1) ملک میں مضبوط حکومت کے قیام کے بعد پاکستان معاشی خوشحالی کی راہ پر گامزن ہونے والا ہے۔ ایٹمی پاکستان کی معاشی خوشحالی پاکستان دشمن قوتوں کے ایجنڈے سے متصادم ہے۔
2) امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے ممکنہ انخلا پر کرزئی، شمالی اتحاد، اپنی فوج رکھنے والے قبائلی سردار اور کرپٹ وڈیرے ناخوش ہیں اور خطے میں بربریت کرکے امریکہ کو افغانستان میں مزید روکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
3) ہندوستان جس نے افغانستان میں 2 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ اپنی جاسوسی کے اڈے کھولے ہوئے ہیں، امریکہ کو بار بار کہہ رہا ہے کہ انخلا میں جلدی نہ کریں اور اس سلسلے میں کسی بھی سرخ لائن کو عبور نہ کیا جائے۔
4) پاکستان میں دہشتگردی، مہران اور کامرہ بیس پر حملوں، سیاستدانوں اور سیاحوں کے قتل سے امریکہ سمیت بیرونی دنیا کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں القاعدہ اور ایٹمی پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں کا راج ہوگا، جو امریکی مفادات کے خلاف ہے۔ اس لئے امریکہ افغانستان سے نہ نکلے۔
 
5) پاکستانی طالبان کے کچھ گروہوں کو یہ ڈر ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستانی حکومت سوات کی طرح اپنی عسکری طاقت کا کھل کر استعمال کرسکتی ہے۔ چونکہ پھر پاکستانی عوام اسے امریکی Dictation تصور نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ افغانستان سے اسلحے اور ڈالروں کی ترسیل بھی TTP کے لئے رک جائے گی۔ اسی طرح آزاد افغانستان میں فضل اللہ جیسے بھگوڑوں، برآمدات بھگتی جیسے سی آئی اے کے کارندوں اور ہندوستانی جاسوسی کی کوئی گنجائش نہیں رہیگی۔
6) 5 اپریل 2014ء کو افغانستان مین صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، جن میں کرزئی آئینی پابندی کی وجہ سے اپنے بھائی قیوم کرزئی کو صدر بنانے کا متمنی ہے۔ طالبان۔امریکہ مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں اگر ملا عمر کو بھی صدارتی انتخابات لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے تو یہ موجودہ افغان حکومت کے لئے تباہ کن ہوسکتا ہے، چونکہ جنوبی اور مشرقی افغانستان سمیت ملک کے 80 فیصد علاقے پر کرزئی نہیں بلکہ طالبان کا کنٹرول ہے۔
 مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں جہاں ہمیں اپنے انٹیلی جنس سسٹم، کرائم سے متعلق قوانین اور سکیورٹی کو بہتر کرنا ہے، وہاں ہمیں اس خطے کی سیاست اور بیرونی خطرات پر بھی کڑی نظر رکھتے ہوئے طالبان۔ امریکہ مذاکرات کو ہر ممکن کامیاب بنانا چاہیے۔ یہی ہمارے مفاد میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 276590
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش