0
Saturday 29 Jun 2013 15:11

شیخ الاسیر اور لبنان میں فرقہ وارانہ فسادات کی سازش

شیخ الاسیر اور لبنان میں فرقہ وارانہ فسادات کی سازش
تحریر: علی اکبر قاسمی

اسلام ٹائمز- اسلامی مزاحمت کے خلاف 33 روزہ جنگ اور رفیق حریری قتل کیس کے بارے میں سیاسی عدالت قائم کرنے پر مبنی مغربی سازشوں کی ناکامی کے بعد امریکی اسرائیلی اتحاد نے اسلامی مزاحمت اور سلفی گروہوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے منصوبے پر غور کرنا شروع کر دیا۔ اسی تناظر میں گذشتہ دو سال کے دوران ایک ایسے سلفی رہنما کا انتخاب کیا گیا جو انہیں اپنے ناپاک عزائم کو جامہ عمل پہنانے کیلئے انتہائی مناسب نظر آیا۔ شیخ احمد الاسیر صیدا میں واقع سلفیوں کی مسجد "بلال بن رباح" کا پیش امام ہے جو اپنی جاہ طلبی اور شہرت طلبی کی وجہ سے معروف ہے۔ امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے اس کی مالی مدد اور میڈیا پر اس کی تشہیر کے عوض اسے یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنی پروپیگنڈا مہم کا آغاز کرے۔ 

شیخ الاسیر نے مغربی طاقتوں کی بالواسطہ مدد اور لبنان میں غرب زدہ سیاسی گروہوں کی حمایت سے اپنے کام کا آغاز کرتے ہوئے حزب اللہ لبنان اور اس کے اندرونی اور بیرونی حامیوں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا شروع کرنے کے ساتھ ساتھ صیدا میں احتجاجی دھرنا دیا اور یہ اعلان کیا کہ جب تک حزب اللہ لبنان مکمل طور پر غیرمسلح نہیں ہو جاتی اس کا یہ دھرنا جاری رہے گا۔ 

شیخ الاسیر جس نے گذشتہ دو سال سے اپنی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے ذریعے لبنان میں مذہبی جنگ کی آگ بھڑکا رکھی ہے اپنے تازہ ترین دہشت گردانہ اقدام میں صیدا سے صور جانے والی ہائی وے کو بلاک کرتے ہوئے اپنی وہابی دہشت گرد ساتھیوں کے ہمراہ صیدا کی ایک آرمی چیک پوسٹ پر حملہ کیا اور تقریبا 16 لبنانی فوجیوں کو شہید کر ڈالا۔ اس کے علاوہ ہزاروں عام شہریوں کو بھی زخمی کر دیا۔ شیخ الاسیر اور اس کے حامی جو اس سے پہلے سڑکوں کو بلاک کر کے احتجاجی دھرنے دیا کرتے تھے اب دہشت گردانہ اقدامات پر اتر آئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کی پالیسیوں اور اہداف میں واضح تبدیلی آ چکی ہے۔ 

لبنان میں شیخ الاسیر اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے یہ دہشت گردانہ اقدام ایک ایسے وقت انجام پایا جب قطر میں امریکہ کی سربراہی میں نام نہاد فرینڈز آف سیریا کا اجلاس ختم ہو چکا تھا اور ساتھ ہی مصر میں وہابی دہشت گردوں کے ہاتھوں 5 شیعہ مسلمان افراد کو بھی انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی طاقتیں مشرق وسطی کے خطے میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات شروع کروانے کی ناپاک سازشوں میں مصروف ہیں۔ 

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لبنان میں شیخ الاسیر کی سربراہی میں وہابی دہشت گردوں کی تازہ سرگرمیاں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں نام نہاد فرینڈز آف سیریا کے اجلاس کا نتیجہ ہیں اور دوسری طرف خطے میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں خاص طور پر شام کے محاذ پر حکومت مخالف دہشت گرد گروہوں کے مقابلے میں شامی فوج کو حاصل ہونے والی کامیابیوں بالخصوص شہر القصیر کو حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کی مدد سے سلفی دہشت گرد گروہوں کے قبضے سے آزاد کروانے کا ردعمل بھی ہو سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں مغربی طاقتیں اور امریکہ سعودی عرب، قطر اور دوسرے عرب ممالک کی مدد سے خطے میں اپنے حمایت یافتہ وہابی تکفیری مسلح دہشت گرد گروہوں کے ذریعے مندرجہ ذیل مقاصد کے حصول کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں:

1.    اندرونی کشمکش اور خانہ جنگی کے ذریعے لبنان میں قومی اور مذہبی فسادات بالخصوص شیعہ سنی جنگ شروع کروانے کا راستہ ہموار کرنا۔
2.    حزب اللہ لبنان کو اندرونی خانہ جنگی اور کشمکش میں مشغول کر کے شام میں اس کے فعال اور موثر کردار کو کمزور کرنا۔
3.    حزب اللہ لبنان اور شیخ الاسیر کے گروہ میں لڑائی شروع کروا کر حزب اللہ لبنان کی حیثیت کو متنازعہ بنانا تاکہ اس کی عوامی مقبولیت اور مشروعیت کو کمزور کیا جا سکے۔
4.    لبنان کے اندر عدم استحکام اور بدامنی پیدا کرنا تاکہ موسم گرما کے آغاز پر اس ملک کی ٹوریزم انڈسٹری کو نقصان پہنچا کر ملکی اقتصاد اور آمدن کو کمزور کیا جائے (یاد رہے حکومت لبنان کی آمدن کا بڑا حصہ ٹوریزم انڈسٹری سے حاصل ہوتا ہے)۔ 
5.    لبنان کی حکومت، فوج اور سیکورٹی ایجنسیز کو ملک میں جاری بدامنی اور خانہ جنگی کو کنٹرول کرنے میں کمزور اور ناچار ظاہر کرنا۔
6.    شام میں برسرپیکار النصرہ فرنٹ اور القاعدہ نیٹ ورک کے دہشت گردوں اور لبنان میں موجود وہابی تکفیری دہشت گردوں کے درمیان مفاہمت اور اتحاد ایجاد کرنا۔ 
7.    لبنان کے مہاجر کیمپوں میں مقیم فلسطینی مہاجرین، بالخصوص عین الحلوہ کیمپ میں مقیم فلسطینی مہاجر جن کی بڑی تعداد حماس میں شامل ہے، کو خانہ جنگی میں دھکیل کر حزب اللہ لبنان اور فلسطینی جہادی گروہوں کے درمیان تعلقات کو ٹھیس پہنچانا۔ 

ان سب کے علاوہ اس فتنہ انگیزی اور شیطنت کا ایک بڑا مقصد اسرائیل کی قومی سلامتی کی ضمانت فراہم کرنا ہے۔ وہ اس طرح کہ لبنان کے اندر خانہ جنگی اور سیاسی کشمکش کی صورت میں اسرائیل کی جنوبی سرحدیں زیادہ سے زیادہ محفوظ سمجھی جائیں گی۔ لبنان کے اندر مذہبی، سیاسی، اقتصادی، سیکورٹی اور فوجی بحران اور تناو کی شدت جس قدر زیادہ ہو گی اسی قدر اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم خود کو محفوظ اور پرامن محسوس کرے گی۔ اسی طرح لبنان کے اندر افراتفری پھیلانے کا ایک اور بڑا مقصد حزب اللہ لبنان کی توجہ تقسیم کرنا ہے۔ یعنی حزب اللہ لبنان جو اس وقت اپنی پوری توجہ اپنے حقیقی دشمن یعنی اسرائیل پر متمرکز کر چکا ہے کسی طرح ملک کے اندرونی مسایل اور مشکلات میں شامل ہو جائے اور اس کی توجہ اسرائیل کی جانب سے ہٹ جائے۔ 

آخر میں اس اہم نکتے کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اب تک کوئی مغربی سازش حزب اللہ لبنان کو ایک قدم عقب نشینی کرنے پر مجبور نہیں کر سکی اور وہ سختی سے اپنے اہداف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ بے شک اس عظیم کارنامے میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی تدبیر اور شجاعانہ اقدامات نے مرکزی کردار ادا کیا ہے جنہوں نے اب تک تمام مشکلات کے باوجود لبنان کے قومی مفادات کو اپنے ذاتی، قومی یا مذہبی مفادات پر قربان نہیں ہونے دیا۔ حزب اللہ لبنان کے دشمن بہت اچھی طرح اس حقیقت کو درک کر چکے ہیں کہ ایک نامتعارف شیخ کی کوششیں اسلام دشمن عناصر بالخصوص اسرائیل کے خلاف حزب اللہ لبنان کے جہادی جذبے کو کمزور نہیں کر سکتیں اور حزب اللہ لبنان ہمیشہ کی مانند اس میدان میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ انشاءاللہ۔
بشکریہ: فارس نیوز ایجنسی
خبر کا کوڈ : 277893
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش