0
Sunday 30 Jun 2013 01:18

خطے کے حالات پر حزب ﷲ کی اثر گزاری

خطے کے حالات پر حزب ﷲ کی اثر گزاری
تحریر: سید راشد احد

یہ حقیقت اب برملا ہوکر سامنے آگئی ہے کہ شام میں جنگ و فساد کا سلسلہ حکومت کے خلاف عوام کی بے چینی کے نتیجے میں شروع نہیں ہوا بلکہ امریکہ، برطانیہ، اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ کی حلیف شاہی حکومتوں کی شراکت سے شام میں خونریزی کا بھیانک کھیل کھیلا۔ اس خونی کھیل کو کھیلنے کے لئے بہانہ انہوں نے یہ بنایا تھا کہ بشار الاسد اور ان کی حکومت آمرانہ روش پر سختی سے کار بند اور گامزن ہیں لہٰذا شامی حکومت کو گرانا بہت ضروری ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل نے اس پورے کھیل میں بڑی ہی ہوشیاری اور مکاری سے انسانی وسائل مسلمانوں کے استعمال کئے۔ مسلمانوں کے درمیان ان استعماری قوتوں نے شیعہ سنی تعصب کو پہلے خوب ہوا دی پھر عالم عرب میں اخوان المسلمین جیسی تحریکوں کو پٹی پڑھائی کہ بشارالاسد شیعہ ہے اور اس کی حکومت سے سنیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ یہ حقیقت اظہر من الشمس تھی کہ شام کی بشار الاسد حکومت سے صرف اسرائیل اور مغربی قوتوں کو خطرہ درپیش تھا اس لئے کہ یہ حکومت فلسطین اور لبنان کی مزاحمتی تحریکوں کو کمک پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کو شام نے کبھی تسلیم نہیں کیاجب کہ قطر اور ترکی اسرائیل سے رسمی تعلق بحال رکھتے ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ہر طرح کی فوجی، اقتصادی اور سفارتی فعالیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بعض دوسرے عرب ممالک مثلاً سعودی عرب نے اگر رسماً اعلانیہ تعلق اسرائیل سے نہیں بھی رکھا ہے تو عملاً اور خفیہ سطح پر انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کی ہوئی ہے اور اسرائیل کے مفاد میں نیز فلسطین کی مزاحمت کے خلاف چپکے چپکے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شام کی حکومت کو یہ اسی لئے ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل کی ہم سائیگی میں موجود فلسطینی مزاحمت نیز حزب اﷲ لبنان جیسی اسرائیل دشمن مزاحمتی قوت کا قلع قمع ہو سکے اور اس طرح اسرائیل اپنے وجود کے حوالے سے سکون کا سانس لے سکے۔ مزید یہ کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور مغربی استعماری قوتوں کے مفاد میں غنڈہ گردی کا سلسلہ ہمیشہ کی طرح شد و مد کے ساتھ جاری رکھ سکے۔ اب جبکہ سلفی دہشت گردوں کو بھرپور طریقے سے شامی عوام کے خلاف استعمال کرنے کے بعد بھی استعماری قوتوں کو اپنا ہدف حاصل نہیں ہوسکا تو استعماری قوتوں کی شام کے حوالے سے پیشگی منصوبہ بندی کا راز رفتہ رفتہ فاش ہونے لگا ہے چنانچہ فرانس کے سابق وزیر خارجہ Roland Dumas نے حال ہی میں ایل سی پی ٹی وی نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ 2011ء میں جب کہ شام میں فساد اور شورس کا سلسلہ شروع ہوا اس سے دو سال قبل ہی برطانیہ شام میں فساد و شورش کے لئے منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ ڈوماس کا کہنا ہے کہ جب شام کے خلاف برطانیہ میں منصوبہ بندی کی جارہی تھی تو اس زمانے میں وہ برطانیہ گئے ہوئے تھے اور برطانوی حکام نے
اس کا ذکر کرتے ہوئے اس شورش میں شرکت کی دعوت فرانس کو بھی دی تھی۔ لیکن بقول ڈوماس : ’’چونکہ میں اس وقت وزیر خارجہ کہ منصب سے فارغ ہو چکا تھا لہٰذا میں نے اس حوالے سے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘

اس طرح کے رازوں کے انکشاف کا سلسلہ شام میں مغربی استعماری قوتوں، ان کی حلیف عرب شاہی حکومتوں، ترکی اور سلفی تکفیریوں پر مبنی متحدہ محاذ کی القصیر میں پسپائی کے بعد ہی شروع ہوا ہے۔ لہٰذا القصیر میں شامی حکومت کو ملنے والی تازہ کامیابیوں کے نتیجے میں علاقے میں کار فرما حکمتِ عملیوں کے وسیع دائرہ میں عظیم تبدیلیوں کے رونما ہونے کا امکان پوری طرح روشن ہے۔ القصیر کی عظیم فتح کے ساتھ شام ایک ایسے نئے دور میں داخل ہو چکا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے حق میں نہیں ہے۔ امریکیوں اور صہیونیوں کی پشت پناہی میں باغی قوتوں کی جاری دہشت گردی کے خلاف شامی فوج نے بلاشبہ بہت ہی عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ شامی فوج نے حزب ﷲ کی مدد سے القصیر شہر کو بازیاب کرالیا ہے جو ایک عرصے سے شامی باغیوں کے قبضے میں تھا۔ القصیر مغربی شام میں واقع ہے اور یہ ان اولین شہروں میں سے ایک ہے جسے شامی باغیوں نے مارچ 2011ء میں ہی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ واضح رہے کہ شہر القصیر میں رہنے والوں کی اکثریت سنی العقیدہ ہے۔ اس شہر کی کلیدی اہمیت یہ ہے کہ لبنان کی سرحد سے صرف دس کلومیٹر دور ہے اور یہ شہر درحقیقت شام میں دہشت گردوں کو فراہم کئے جانے والی تمام رسد کا اسٹراٹیجک راستہ تھا۔ لہٰذا اسی راستے سے بیرونی قوتیں شامی باغیوں کو اسلحہ سمیت ہر قسم کی لاجسٹک امداد فراہم کرتی تھیں جن کی وجہ سے شامی باغیوں کے حوصلے بہت بلند تھے لیکن القصیر کی بازیابی نے اسد حکومت کو ایک نیا جوش و ولولہ بخشا ہے۔ اب شامی فوج مکمل طور سے پر اعتماد ہے کہ مغرب اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کی اتحادی رجعت پسند عرب شاہی حکومتوں کے تعاون سے شام میں جاری بیرونی مداخلت اور دراندازی کے پوری طرح قلع قمع میں وہ عنقریب کامیاب ہو جائے گی۔

مغربی میڈیا کی یہ کوشش رہی ہے کہ شام میں جاری دہشت گردی کو خانہ جنگی ثابت کرے لیکن حزب ﷲ نے اپنی تازہ حکمت عملی سے مغرب کے سارے کھیل کو ناکام بنا دیا اور دنیا کے سامنے یہ حقیقت واشگاف ہوگئی کہ شام میں خانہ جنگی کی صورت حال نہیں ہے بلکہ وہاں شامی حکومت اور عوام کے خلاف بیرونی قوتوں کی ریشہ دوانیاں ہیں۔ ماہ مئی 2013ء میں جب جبھۃ النصرہ نے صحابی رسول ؐ حجر بن عدی الکندی کے مقبرے کی تباہی کی ذمہ داری قبول کی تو حزب ﷲ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصرﷲ نے دہشت گردوں کو اس کے سنگین نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ اگر جنابِ زینب سلام ﷲ علیہا یادیگر مقدس شخصیات کے مقبرے کو کوئی نقصان پہنچا ہے تو حزب ﷲ ایسی بے حرمتی پر ہرگز خاموش نہیں بیٹھے گی۔ القصیر سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں حزب ﷲ کا
کلیدی کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیجی تعاون کونسل کے اراکین جن میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مغرب نواز مطلق العنان شہنشاہیتیں شامل ہیں حزب ﷲ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کئے جانے کی خاطر تک و دو کر رہے ہیں۔ بحرین کی مغرب نواز شاہی حکومت نے پہلے ہی سے حزب ﷲ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اپوزیشن گروہ سے اس کے رابطے کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے۔ حمد ابن عیسیٰ الخلیفہ جسے مغرب اور سعودی عرب کی پشت پناہی حاصل ہے نے پہلے ہی حزب ﷲ کو ’’ دہشت گرد تنظیم ‘‘ کے عنوان سے بلیک لسٹ کردیا ہے۔

مغربی ردِ عمل پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل راشد بن عبدﷲ الخلیفہ نے فرمان صادر کیا ہے کہ بحرین کے اندر حزب ﷲ کے عمل دخل اور اس کی فعالیت کی تحقیق کی جائے۔ دیگر عرب دنیا میں بھی حزب ﷲ کی شام کے اندر بیرونی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف دفاعی مداخلت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ قطر میں رہائش پذیر سلفی ملّا یوسف القرضاوی نے سنیوں کو ورغلایا ہے کہ وہ حزب ﷲ کے خلاف جہاد کے لئے آمادہ ہو جائیں۔ 31 مئی کو دوحہ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے قرضاوی نے واشگاف لفظوں میں کہا کہ ہر مسلمان کو تربیت حاصل کرنی چاہئے اور جس قدر امکانات دستیاب ہیں انہیں حزب ﷲ کے خلاف جہاد میں استعمال کرنا چاہئے۔ سلیم ادریس جو کہ شامی باغی سپریم فوجی کونسل کا نام نہاد چیف آف اسٹاف ہے نے دھمکی دیتے ہوئے اپنے اس خیالات کا اظہار کیا ہے کہ میرے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ میں جہادیوں کو روک سکوں لہٰذا ہم حزب ﷲ کا اس کے انجام بد (نعوذ باﷲ) تک تعاقب کریں گے۔

حتیٰ کہ مسلمان دانشوروں کی ایک انجمن جو معتدل علمائے اہلسنت پر مشتمل ہے اس وقت اپنے پیروں کاروں سے شامی باغیوں کی مدد کے لئے منتیں کر رہی ہے۔ مغرب میں اس کا ردعمل پہلے سے قابلِ درک تھا۔ اسرائیلی فوجی امور کے وزیر موشے یالون نے کہا تھا کہ اسرائیل شام میں حزب ﷲ کی فعالیت پر ردعمل نہیں دکھائے گا اس وقت تک جب تک کہ حزب ﷲ اسرائیلی مفادات پر براہ راست ضرب نہیں لگاتی ہے مثلاً یہ پیش رفتہ اور جدید اسلحوں یعنی مزائیلوں اور کیمیائی ہتھیاروں کے باغیوں کو منتقل کیے جانے کے عمل میں روکاوٹ نہیں بنتی ہے۔ اس طرح کا کمزور بیان ایک اسرائیلی وزیر کی جانب سے اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہے کہ اسرائیلی فوج 2006ء میں حزب ﷲ کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کھانے کے بعد کس قدر حزب ﷲ سے خوفزدہ ہے۔ شامی بحران سے متعلق اقوامِ متحدہ کے نمائندے لخدر ابراہیمی نے حال ہی میں یہ اعلان کیا ہے کہ شام کے حوالے سے ہونے والے امن مذاکرات اب جون کے بجائے جولائی میں منعقد کئے جائیں گے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ شامی باغیوں کو براہ راست مسلح کرنے کے لئے اپنی پارلیمنٹ سے اجازت حاصل
کریں، اس خوف کے باوجود کہ ممکن ہے ان کا یہ اقدام عراق میں مداخلت کی مانند مورد تنقید قرار پائے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری جے کارنے نے کہا ہے کہ ہم شام کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلاء ہیں اور شامی حکومت کی القصیر پر یلغار کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ شامی فوج القصیر جیسے اسٹراٹیجک مقام کو اپنے طور سے بازیاب کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔ لہٰذا اس حوالے سے حزب ﷲ کی مدد اس کے لئے لازم ہو چکی تھی۔ جے کارنے اور اسی طرح کے دوسرے مغربی سیاسی تجزیہ نگار اس بات کے ادراک سے قاصر رہے ہیں بلکہ انکاری رہے ہیں کہ شام میں حزب ﷲ کا دفاعی مشن بہت ہی تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔ خود نیٹو کے اپنے اعتراف کے مطابق شامی حکومت کو عوام کی 80 فیصد اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ ایک امریکی دانشور جو امریکی خارجہ تعلقات کی شعبہ سے مربوط ہے لکھتا ہے کہ حزب ﷲ شام میں اس وقت داخل ہوئی جب اس نے اپنے انتہائی قریبی اتحادی کے سقوط کا خطرہ محسوس کیا۔ اس کے برعکس مائیکل ینگ جو کہ لبنانی ڈیلی اسٹار کے مدیر ہیں نے شام میں زمینی حقیقت کا بالکل صحیح ادراک کیا جب کہ مغرب کے دانشور حضرات شام کے زمینی حقائق کے اداراک سے عاجز رہے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ شام کے باغی جنگ ہار رہے ہیں مائیکل ینگ نے واضح کردیا تھا کہ شام کے حوالے سے امریکی موقف مشکل میں آگیا ہے جبکہ روس اور ایران کا موقف حقیقت کے عین مطابق ثابت ہوا ہے۔

ینگ کے مشاہدے کے مطابق یہ وقت مناسب ہے شامی اپوزیشن کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا جبکہ اوبامہ انتظامیہ گزشتہ دو سال سے پس و پیش میں مبتلا ہے اور بغیر کسی واضح حکمت عملی کے محض دھمکیوں سے کام لے رہی ہے۔ شام میں حزب ﷲ کے شاملِ جنگ ہونے کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے ینگ لکھتا ہے کہ اس مزاحمتی تحریک کے لئے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ وہ تکفیری انتہا پسندوں، سلفیوں، سنی جہادی انتہا پسندوں، امریکہ اور اسرائیل کے خطرناک حملوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لئے شام کی جنگ میں براہ راست شامل ہو۔ حزب ﷲ کی پشت پناہی میں القصیر میں شامی حکومت کی کامیابی سے پہلے صدر اوبامہ نے شام میں حزب ﷲ کے بڑھتے ہوئے فعال کردار کے حوالے سے ایک مبہم سی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

صدر اوبامہ نے اپنی اس تشویش کا اظہار کہ حزب ﷲ اسد حکومت کی جانب سے شامی باغیوں کے خلاف صف آراء ہے، لبنان کے صدر مائیکل سلیمان کے ساتھ اپنی ایک ٹیلفونک گفتگو کے دوران کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے شام کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے بہت ہی پر زور انداز میں اپنا یہ بیان جاری کیا تھا کہ عالمی برادری کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ شام میں کس کا ساتھ دے گی آیا وہ ان قوتوں کا ساتھ دینا چاہتی ہے جو شام میں زبردستی حکومت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں یا پھر ان لوگوں کا ساتھ دینا چاہتی جو شام کے بحران
کو گفتگو اور مذاکرات کے ذریعہ حل کئے جانے پر یقین رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے اپنے تازہ ترین غیر قانونی خفیہ دورے میں جان مکین نے شامی اپوزیشن سے ملاقات کی تھی اور ان کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ شام کے حوالے سے امریکی پالیسی مبہم اور تذبذب کا شکار ہے۔ مکین نے واضح لفظوں میں کہا کہ واحد قوت جو اس علاقے میں کوئی کمٹمنٹ نہیں رکھتی وہ امریکہ ہے۔ امریکہ کی بے یقینی اور تزلزل پر مبنی اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بیروت میں پریس ٹی وی کے بیورو چیف علی رزق کہتے ہیں کہ شام کے حوالے سے امریکہ کا موقف روس کے موقف سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گفتگو کے ذریعے راہِ حل دریافت کیا جائے۔

شام میں تازہ ترین پیشرفت کے حوالے سے اوبامہ انتظامیہ کوئی متعین اور حتمی بیان دینے سے گریزاں ہیں۔ اب جب کہ حزب ﷲ علی الاعلان میدان میں موجود ہے تو وائٹ ہاؤس کے لئے صورتحال کی وضاحت مشکل ہوگئی ہے۔ لہٰذا جب وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری کارنے سے رپورٹروں نے شام میں فیصلہ کن عامل کے حوالے سے سوال کے جواب پر اصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ شام میں طاقت کے توازن کی تبدیلی کی وجہ اسد حکومت کی جانب سے کیمیائی اسلحوں کا استعمال ہے نہ کہ حزب ﷲ کی اعلانیہ شمولیت۔ امریکہ کے لئے مشکل یہ ہے کہ اگر وہ حزب ﷲ کے فیصلہ کن عامل ہونے کا اعلانیہ اعتراف کرے تو پھر حزب ﷲ کے مقابلے میں امریکہ کی کمزور فوجی حکمت عملی کا راز فاش ہوجائے گا اور امریکہ کا بھرم جو علاقے کے ممالک پر قائم ہے اسی طرح شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گا جس طرح کہ 2006ء میں اسرائیل و حزب ﷲ کی جنگ میں اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا واہمہ چکنا چور ہوگیا تھا۔ لہٰذا حزب ﷲ کی القصیر میں کامیابی علاقے میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عرب دنیا میں حزب ﷲ کی محیر العقول قوت آشکار سے آشکار تر ہوتی جا رہی ہے جو کہ امریکہ کے لئے بہت ہی پریشانی کا سبب ہے۔

بہرحال حزب اﷲ نے شام کی جنگ میں اپنی شمولیت کے دو اہم وجوہات بیان کئے ہیں: ایک یہ کہ اگر تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں بشار الاسد کی حکومت شکست کھاتی ہے تو پھر ان بیرونی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خطرناک اسلحوں کا رخ حزب ﷲ اور لبنان کے عوام کی جانب ہوگا۔ دوسرے یہ کہ حزب ﷲ اپنا فرض سمجھتی ہے کہ وہ اسلام کی مقدس اور بے مثال شخصیتوں کے مزاراتِ مقدسہ کی حفاظت کرے بالخصوص حضرت زینب سلام ﷲ علیہا کے روضہ اقدس کی حفاظت حزب ﷲ کے لئے ایک دینی وظیفہ اور چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ حزب ﷲ نے بارہا اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے اس دینی فریضے کو بہرصورت انجام دے گی۔ چنانچہ حزب ﷲ کے متعدد جوان شریکۃ الحسین ؑ عقیلۂ بنی ہاشم اور مفسر کربلا حضرت بی بی زینب سلام ﷲ علیہا کے روضہ اقدس کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانون کا نذرانہ بارگاہِ الٰہی میں پیش کر چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 278042
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش