0
Sunday 30 Jun 2013 19:53

اخوان المسلمین مصر تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر

اخوان المسلمین مصر تاریخ کے انتہائی اہم موڑ پر
تحریر: حسن رستمی

اسلام ٹائمز- مصر کے صدارتی انتخابات میں جناب محمد مرسی کی کامیابی کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں تشدد اور بدامنی کی لہر باقی ہے اور اب تک کئی بار حکومت کے حامی اور مخالف دھڑوں میں ٹکراو ہوا ہے جس کے باعث کئی افراد لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں۔ 

ابتدا میں اس حکومت مخالف احتجاج اور مظاہروں کی اصلی وجوہات اور ان عوامی مطالبات کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے جن پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ مصری عوام نے 25 جنوری 2011 کے انقلاب سے کچھ توقعات وابستہ کر رکھی تھیں اور نئے سیاسی نظام کے سامنے کچھ مطالبات مطرح کر رکھے تھے۔ عوام کا ایک بڑا حصہ سمجھتا ہے کہ ان کی وہ توقعات اور وہ مطالبات اب تک پورے نہیں کئے گئے لہذا ان عوامی مطالبات پر عدم توجہ بڑے پیمانے پر حکومت مخالف عوامی احتجاج اور مظاہروں کا باعث بن گئی ہے۔ مصر کے صدر جناب محمد مرسی کی کارکردگی کے بارے میں انجام پانے والی سروے رپورٹس بھی اسی بات کی تصدیق کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ 

البصیرہ سنٹر کی جانب سے صدر جناب محمد مرسی کی صدارت کا ایک سال پورا ہونے کی مناسبت سے انجام پانے والے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب محمد مرسی کے حامیوں کی تعداد کم ہو کر صرف 32 فیصد رہ گئی ہے۔ جناب محمد مرسی کے دورہ صدارت کے پہلے سو دن کے اندر اسی قسم کے سروے رپورٹ کے مطابق انکی پالیسیوں کی حمایت کرنے والے افراد کی تعداد 78 فیصد جبکہ انکے دوران صدارت کے گیارہ ماہ بعد یہ تعداد 42 فیصد تک گر گئی تھی۔ 

انقلابی اہداف کا تحقق نہ پانا اور سابق رژیم سے وابستہ عناصر کو مکمل طور پر ملک کے سیاسی نظام سے نکال باہر نہ کرنا:
مصر میں رونما ہونے والے انقلاب کے اصلی اہداف میں سے ایک ملک کو سابق ڈکٹیٹر رژیم سے وابستہ عناصر سے مکمل طور پاک کرنا اور دوسرا انقلابی اہداف کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانا تھا۔ صدر محمد مرسی نے اس زمرے میں کوئی موثر اقدام نہیں اٹھایا اور سابق آمرانہ رژیم سے وابستہ عناصر جوں کے توں حکومتی مناصب پر نظر آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک اور اس کے بیٹوں کے خلاف عدالتی کاروائی بھی انتہائی التوا کا شکار ہو چکی ہے اور عدالت ان کے خلاف واضح فیصلہ کرنے میں ناکامی کا شکار نظر آتی ہے۔ دوسری طرف ملک کے اندر اور باہر خطے کے بعض ممالک کی جانب سے انہیں آزاد کروانے کی کوششیں بھی اپنے عروج پر ہیں۔ 

درحقیقت اخوان المسلمین مصر کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے انقلابی گروہوں کے ساتھ تعاون اور ہمکاری پر مبنی اپنے نعروں جن کی صدر جناب محمد مرسی بارہا اپنی تقریروں میں تاکید بھی کر چکے تھے، کو عملی جامہ پہنانے میں انتہائی درجہ کی کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے ملک کی انقلابی قوتیں اپنا اعتراض اور احتجاج ظاہر کرنے کیلئے سڑکوں پر نکلنے آنے پر مجبور ہو گئیں اور ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 

اقتصادی مسائل اور غربت کے خاتمے کیلئے موثر حکمت عملی نہ اپنانا:
سابق حکومتی عناصر سے ملک کو پاک کرنے اور انقلابی قوتوں کے ساتھ تعاون اور ہماہنگی پیدا کرنے میں کوتاہی کے علاوہ صدر جناب محمد مرسی کی قیادت میں مصر کی انقلابی حکومت کی ایک اور غلطی اقتصادی مشکلات اور غربت پر قابو پانے کیلئے مناسب اور موثر حکمت عملی نہ اپنانا ہے۔ 

مصر کی آبادی کا 25 فیصد سے زیادہ حصہ غربت اور افلاس کا شکار ہے۔ اس زمرے میں صدر مرسی کی حکومت نے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا۔ مصری عوام سمجھتے ہیں کہ ملک میں جاری اعتراضات اور احتجاجی مظاہرے ان معاشی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بنے ہیں جس کے نتیجے میں کاروباری افراد کو شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے اقتصادی مسائل پر قابو پانے کیلئے بیرونی سرمایہ جذب کرنے یا ٹوریزم انڈسٹری کو فعال کرنے کیلئے بھی کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ مصر کی معیشت زیادہ تر ٹوریزم انڈسٹری پر ہی منحصر ہے۔ 

بین الاقوامی سطح پر ناقص کارکردگی اور خارجہ سیاست میں بنیادی تبدیلیاں پیدا نہ کرنا:
مصری عوام کو نئی انقلابی حکومت سے توقع تھی کہ وہ خطے کے ممالک سے اپنے تعلقات اور اہم ایشوز کے بارے میں اپنے موقف میں انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے مصر کو اپنی ماضی کی شان و شوکت لوٹا دے گی۔ ایک وقت وہ تھا جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر اسرائیل کے خلاف پوری عرب دنیا کو لیڈ کر رہے تھے لیکن ان کے بعد صدر انور سادات نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنایا جس کا نتیجہ کیمپ ڈیوڈ جیسے شرمناک معاہدے کی صورت میں ظاہر ہوا جس کے مضر اثرات آج تک عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ 

اسی طرح خارجہ سیاست کے میدان میں بھی صدر محمد مرسی کی حکومت نے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی پالیسیوں کو ہی جاری رکھا ہوا ہے اور اس میں کوئی دلخواہ انقلابی تبدیلی نہیں لائے۔ مصر کی سیاست خارجہ دراصل امریکی اور اسرائیلی مفادات کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی تھی جس کو موجودہ حکومت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ وہی سیاست خارجہ ہے جس کا مقصد اسرائیل کی قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ 

مصر کے عظیم عوام جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل نواز آمرانہ رژیم کے خلاف ایک عظیم انقلاب برپا کیا ہے صدر محمد مرسی کی حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان انقلابی اہداف کی خاطر بڑے اور موثر قدم اٹھائیں جن کی خاطر کروڑوں عوام نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر جدوجہد کی تھی۔ جناب محمد مرسی کی جانب سے ان اہداف کے تحقق میں سستی اور کوتاہی انقلابی دھڑوں کے آمنے سامنے آ جانے اور ان میں ٹکراو پیدا ہونے کا باعث بنی ہے۔ مصر کی انقلابی حکومت جس قدر اس سستی اور کوتاہی کو جاری رکھے گی اسی قدر یہ شکاف گہرے سے گہرا تر ہوتا جائے گا۔ 

مثال کے طور پر جب ہم شام کی نسبت مصر کے موقف کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مصر اس مسئلے پر آزادانہ اور خودمختار موقف اپنانے میں ناکامی کا شکار رہا ہے۔ مصر نے آغاز میں شام کے مسئلے کے پرامن حل کیلئے ایران، سعودی عرب، ترکی اور مصر پر مشتمل چار رکنی کمیٹی بنانے کا مشورہ دیا لیکن اس کے بعد 180 درجے کا پلٹا کھاتے ہوئے انتہائی غیرمتوقع انداز میں شام سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصری سیاست دان خطے میں رونما ہونے والے مسائل کے بارے میں آزادانہ موقف نہیں رکھتے۔ 

نتیجہ گیری:
ان تمام مذکورہ حقائق کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سالہا سال سیاسی جدوجہد اور محنت کے بعد مصر میں برسراقتدار آنے والی اخوان المسلمین اور اسلام پسند دھڑوں کو چاہئے کہ وہ اس انتہائی اہم موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ مصری حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی گذشتہ غلطیوں کا جبران کرے اور جلد از جلد عوامی مطالبات کو پورا کرنے کیلئے انقلابی اور جرات مندانہ قدم اٹھائے۔ صرف اسی صورت میں صدر محمد مرسی اپنی عوامی حمایت اور مقبولیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے انقلابی عوام کے جائز اور انقلابی مطالبات پر توجہ نہ دی تو ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں تمامی سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور ساتھ ہی ساتھ مصر جیسا اہم اسلامی ملک ایک نامعلوم انجام کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔ 
بشکریہ: فارس نیوز ایجنسی
خبر کا کوڈ : 278282
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش