0
Wednesday 3 Jul 2013 20:36

ملت ایران کیلئے تاریخی واقعے کی یاد

ملت ایران کیلئے تاریخی واقعے کی یاد
تحریر: محمد علی نقوی

تین جولائی انیس سو اٹھاسی عیسوی کا دن ملت ایران کے لئے تاریخی واقعے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اس دن ایران کا مسافر بردار طیارہ ایئر بس بندر عباس سے دبئی جا رہا تھا کہ ہنگام پرواز جزیرے کے قریب خلیج فارس کی فضا میں اس کو خلیج فارس میں موجود امریکی جارحین کے بحری بیڑے وینسنس [Vincennes] نے اپنے حملے کا نشانہ بنا کر گرا دیا۔ امریکی فوجیوں نے جانتے بوجھتے ہوئے اسے اپنے حملے کا نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں جہاز میں سوار دو سو نوے مسافر اور عملے کے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اس واقعے کو پچیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ امریکی حکام کے نزدیک اس حملے میں جاں بحق ہونے والوں کو تاوان ادا کرنے کی وجہ سے سارا معاملہ ختم ہو چکا ہے۔ امریکی حکام کی ایک عادت سی بن چکی ہے کہ وہ اس طرح کے جرائم و مظالم کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ 

ایران کے آئل پلیٹ فارمز (Oil platforms) پر امریکی فوجیوں کے حملے عراق کے مفاد اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف خطے میں امریکہ کی کھلی مداخلت تھی۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے امریکہ نے ایران کے مسافر بردار ہوائي جہاز کو اپنے میزائل حملے کا نشانہ بنایا اور یہ جھوٹ بولا کہ گویا یہ ہوائي جہاز امریکی بحری بیڑے پر حملے کا ارادہ رکھتا تھا اس لئے اس پر حملہ کیا گيا۔ ایران کے اس ہوائي جہاز کے گر کر تباہ ہونے اور اس میں سوار تمام افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد امریکی حکام نے اپنے اس ناقابل معافی جرم کو جائز ظاہر کرنے کے لۓ متضاد باتیں کیں اور اس مخاصمانہ اقدام کو ایک غلط فہمی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وینسنس بحری بیڑہ چونکہ راڈار اور کمپیوٹر سسٹم سے لیس تھا اور یہ بھی واضح تھا کہ ہوائي جہاز کس نوعیت کا ہے اس لئے یہ ثابت ہوگيا کہ کسی طرح کی غلط فہمی نہیں ہوئي ہے اور یہ مجرمانہ حملہ جان بوجھ کر کیا گيا تھا۔ اس کے باوجود امریکی حکام نے ملت ایران کی توہین کرتے ہوئے اس کے کچھ عرصے کے بعد اس بحری بیڑے کے کیپٹن کو تمغۂ شجاعت سے بھی نوازا اور یوں اس ظلم اور جرم کی کھل کر حمایت کی۔ 

اس جارحیت کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے 14 تیر، 1366 ہجری شمسی مطابق 5 جولائي 1988ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سربراہ کو خط لکھ کر اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ 25 تیر 1366 ہجری شمسی مطابق 16 جولائی 1988ء کو سلامتی کونسل نے اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اس وقت کے ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر ولایتی اور امریکہ کی جانب سے اس وقت کے نائب صدر جارج بش سنیئر نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے نتیجےمیں سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر چھ سو سولہ منظورکی گي۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ڈاکٹر ولایتی اور جارج بش کی تقاریر سننے کے بعد 30 جولائی 1988ء کو اپنے اجلاس نمبر تین ہزار آٹھ سو اکتیس میں مجوزہ قرارداد کا مسودہ منظور کر لیا۔ اس قرارداد میں آبنائے ہرمز کی فضا میں امریکہ کے ایک بحری بیڑے وینسنس کے ذریعے پہلے سے طے شدہ ایران کی بین الاقوامی پرواز کے دوران ایران کے مسافر بردار ہوائی جہاز کو نشانہ بنائے جانے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے غیرجانبدار معائنہ کاروں کے ذریعے خلیج فارس کے علاقے میں اس واقعے کی تحقیقات کرائے جانے پر تاکید کی گئي اور ایران کے مطالبے پر اس واقعے کے تمام حقائق کے جائزے کے لئے ایک تحقیقاتی گروپ قائم کئے جانے پر مبنی انٹر نیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (International Civil Aviation Organization) کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گيا۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران نے اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے علاوہ ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں بھی اپنا مقدمہ دائر کیا۔ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن نے بھی امریکہ کے دباؤ کے باعث ایرانی طیارے کے گرائے جانے کے تکنیکی پہلوؤں پر توجہ دے کر اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کرنے کے بجائے ایئر بس کے گرائے جانے کے واقعے پر افسوس اور اس میں مارے جانے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے پر ہی اکتفاء کیا۔ یوں ایئربس مسافر بردار طیارے پر امریکہ کے بحری بیڑے وینسنس کے حملہ کا کیس اگرچہ امریکہ کی اس وقت کی حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کئے جانے اور عالمی اداروں کی سستی اور ان کے امریکہ سے متاثر ہونے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا لیکن آخر کار اس وقت کی امریکی حکومت کی جانب سے تاوان ادا کئے جانے کے بعد یہ کیس ختم ہوا۔ امریکہ نے اس زمانے میں خلیج فارس میں عراقی حکومت کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کی حمایت کی تھی۔ کیونکہ وہ خلیج فارس میں اپنی فوجی موجودگی کے لئے بہانے کی تلاش میں تھا اور اس زمانے میں امریکہ نے یہ مقصد ایران پر مسلط کی جانے والی جنگ میں صدام حکومت کی حمایت کے ذریعے حاصل کیا لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔ اب امریکہ دہشتگردی سے مقابلے کے بہانے دہشتگردانہ اقدامات انجام دے رہا ہے۔ وہ ڈرون حملوں کے ذریعے افغانستان، پاکستان اور یمن کے بےگناہ شہریوں کو خاک و خون میں غلطاں اور القاعدہ کی حمایت کرنے والے طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے لیکن وہ شام میں دہشتگرد گروہوں کی حمایت کے ذریعے خطے میں مہم جوئی کے مزید بہانے تلاش کر رہا ہے۔ بہرحال امریکہ نے جنگ کے محاذوں پر جارح عراقی فوجیوں کی تقویت اور ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے حکام کو شکست سے دوچار کرنے کے مقصد سے ایران کے مسافر بردار ہوائي جہاز کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا تھا اور یہ جرم بھی امریکی حکومت کے دوسرے بہت سے جرائم کے ساتھ تسلط کے نظام کے اس سرغنے کے نامہ اعمال میں درج ہو چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 279333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش