0
Friday 5 Jul 2013 19:07
محمد مرسی کے جانے سے

مصر میں عرب اسپرنگ اپنے اختتام کو پہنچی لیکن اسلامی بیداری کا تسلسل بدستور جاری ہے

مصر میں عرب اسپرنگ اپنے اختتام کو پہنچی لیکن اسلامی بیداری کا تسلسل بدستور جاری ہے
 اسلام ٹائمز- عرب دنیا میں رونما ہونے والی سیاسی تحریکوں کے آغاز سے ہی مغربی دنیا کی پوری کوشش رہی ہے کہ وہ انہیں "عرب اسپرنگ" کا عنوان دے۔ 2010ء کے اواخر میں آغاز ہونے والی ان عرب تحریکوں کے بارے میں "بہار عربی" یا "عرب اسپرنگ" کا عنوان سب سے پہلے امریکی جریدے "فارن پالیسی" نے استعمال کیا۔ اس کے بعد یہ نام جنگل میں آگ کی طرح تمام مغربی ذرائع ابلاغ میں پھیل گیا اور استعمال ہونے لگا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ اصطلاح حتی غیرمغربی ذرائع ابلاغ میں بھی عام ہو گئی۔ 

عرب اسپرنگ صرف ایک نام نہیں بلکہ اپنے اندر ایک وسیع مفہوم اور معنا لئے ہوئے ہے۔ مغربی سیاسی لٹریچر میں "اسپرنگ" یا "بہار" ایک خاص معنا و مفہوم کا حامل لفظ ہے جو تاریخ میں پہلی بار چیک سلاواکیہ کے دارالحکومت پراگ میں رونما ہوالی عوامی تحریک پر "پراگ اسپرنگ" کے عنوان سے لاگو ہوا۔ پراگ اسپرنگ وہ تحریک تھی جس کے تحت مشرقی بلاک میں ایک قسم کی سوشلزم کے خلاف بغاوت معرض وجود میں آئی۔ یہ تحریک جس کا جھکاو زیادہ تر مغربی اقدار کی جانب تھا 1968ء میں اپنے عروج پر پہنچی اور آخرکار بریجنوف ڈاکٹرائن کے تحت سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے ذریعے اپنے سرانجام کو پہنچی۔ بریجنوف ڈاکٹرائن اس عہد پر مبنی تھی کہ مشرقی بلاک کے جس ملک میں بھی سوشلزم خطرے میں پڑتی ہوئی نظر آئے گی دوسرے سوشلسٹ ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہو گی کہ وہ اس ملک کی حفاظت کریں۔ سوویت یونین کی نظر میں پراگ اسپرنگ نے چیک اسلاواکیہ میں سوشلزم کو خطرے سے دوچار کر دیا تھا۔ 

بین الاقوامی سیاست کی زبان میں "بہار" کا لفظ کلی طور پر ایک ایسی تحریک کو بیان کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے جو مغربی اقدار کی جانب گامزن ہو۔ مغربی اقدار جن کا ایک بنیادی حصہ ہیومن ازم، لبرل ازم اور سیکولرزم پر مبنی ہے۔ لہذا جب عرب دنیا میں رونما ہونے والی سیاسی تحریکوں کو "عرب اسپرنگ" کا نام دیا گیا تو اکثر تجزیہ کاروں نے انہیں عرب معاشروں کی مغربی سیاسی نظام کی جانب حرکت کے طور پر تعبیر کرنا شروع کر دیا۔ وہ مغربی سیاسی نظام جو اس خطے میں بسنے والے افراد کی کئی ہزار سالہ تاریخ میں کسی قسم کی جڑ یا اساس سے عاری تھا۔ 

عرب دنیا میں رونما ہونے والے انقلابات کے درمیان مصر کے انقلاب کو ایک انفرادی حیثیت حاصل تھی۔ یہ انفرادیت نہ فقط سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی سرنگونی کی وجہ سے اسے حاصل ہوئی تھی بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ مصر کا عرب دنیا کی جدید تاریخ کا آغازگر ہونا بھی تھا۔ ابھی تک جمال عبدالناصر کی شخصیت سب کو یاد ہے جنہوں نے عرب نیشنل ازم کو مصر کے منصب صدارت کے ذریعے عرب دنیا کے تمام ممالک تک پھیلا دیا اور اس کی مدیریت بھی کی۔ 

مغربی دنیا کے اس پروپیگنڈے کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عرب دنیا میں جنم لینے والی ان تحریکوں کو "اسلامی بیداری" کا نام دیا۔ مغربی زاویہ نگاہ کے بالکل برعکس جو فقط ظاہری حد تک محدود تھی اور جس کی توجہ صرف اور صرف جمہوری نظام کی حاکمیت تک مرکوز تھی، اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے عرب دنیا کو ان کے تشخص اور شناخت کے تناظر میں دیکھا اور خطے میں بسنے والے مسلمان اعراب کے عظیم ثقافتی اور تاریخی ماضی کو ان تحریکوں کا حقیقی عامل قرار دیا۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ مصر اور عرب دنیا کے دوسرے ممالک میں صرف اسلام کو ہی بنیادی ترین اور عمیق ترین ثقافتی عامل قرار دیا جا سکتا ہے لہذا ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی نظر میں عرب دنیا میں رونما ہونے والی حالیہ عوامی تحریکیں درحقیقت اصیل اسلامی ثقافت کی طرف بازگشت ہے۔ جبکہ مغربی دنیا کی نظر میں یہ تحریکیں روایتی تفکر سے عدول اور جدید مغربی تفکر کی جانب جھکاو کا شاخسانہ ہیں۔ 

مصر میں انقلاب کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والے صدر محمد مرسی اگرچہ اخوان المسلمین مصر کے سابق سرگرم کارکنوں میں سے تھے لیکن عملی میدان میں ان کی سیاست اور پالیسیاں سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک سے زیادہ مختلف نہ تھیں۔ انہوں نے نہ تو مصر اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو ختم کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی امریکہ اور خطے میں اس کے پٹھو حکمرانوں سے اپنی اقتصادی و سیاسی وابستگی کو ختم کرنے کیلئے موثر حکمت عملی اختیار کی۔ صدر محمد مرسی نے شام کے مسئلے پر بھی مکمل طور پر مغربی پالیسیوں کی حمایت کی اور پوری کوشش کی کہ خود کو "عرب اسپرنگ" کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والے صدر کے طور پر پیش کریں۔ 

لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ مصر میں جناب محمد مرسی کا عہدہ صدارت سنبھالنے کے ایک ہی سال بعد ان کے خلاف بھی ایک نئی عوامی تحریک نے جنم لیا اور ایک ہفتے کے اندر اندر انہیں اقتدار سے نکال باہر پھینکا اور محمد مرسی سابق مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے برابر بھی عوامی مزاحمت کا مقابلہ نہ کر پائے۔ 

جناب محمد مرسی جو عرب انقلابات اور مغربی دنیا کے درمیان سازباز اور مفاہمت کی علامت بن چکے تھے، ایک طرف انقلابی عوام کی توقعات کو پورا کرنے میں بری طرح ناکامی کا شکار رہے تو دوسری طرف مصری فوج کی تاریخی طاقت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے بھی برخوردار نہ تھے۔ مصر کی مسلح افواج اس ملک کی جدید تاریخ میں انتہائی اہم کردار کی حامل رہی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ مصر کا جدید سیاسی تشخص سپہ سالاری اور فوجی اقدامات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جناب محمد مرسی جو ایک عظیم انقلاب کا ثمرہ تھے فوج کے تاریخی اثرورسوخ کے مقابلے میں ٹھوس نظریہ پیش کرنے میں ناکام رہے اور یوں انہیں ہارے ہوئے انسان کا لقب دیا گیا۔ 

اس کو شائد ایک تاریخی طنز قرار دیا جا سکتا ہے کہ عرب اسپرنگ کا انجام بھی ایک طرح سے پراگ اسپرنگ جیسا ہوا۔ عرب اسپرنگ کی بساط بھی پراگ اسپرنگ کی مانند فوج کے ہاتھوں لپیٹ دی گئی۔ شائد بعض افراد یوں کہیں کہ یہ واقعہ صرف مصر میں رونما ہوا ہے لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ کم از کم جدید تاریخ میں مصر عرب دنیا میں جنم لینے والے سیاسی تفکر کا سب سے بڑا اثرگذار ملک شمار کیا جاتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران کس کو لیبیا، یمن یا تیونس میں مغرب نواز بنیادی تبدیلیوں کی خبر ملی ہے؟ لہذا کوئی چاہے یا نہ چاہے محمد مرسی کا خاتمہ عرب اسپرنگ کا خاتمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ "بہار" کا لفظ مشرقی اقوام کے نزدیک فطرت میں خوبصورتی اور شادابی پیدا ہونے کی نوید دلاتا ہے لیکن سیاست کے میدان میں یہ لفظ نحوست کے سوا اپنے ساتھ کچھ نہیں لایا۔ 

لیکن اس کے برعکس، خطے کی عوام کا اسلامی تشخص جوں کا توں ہے اور محمد مرسی کے آنے یا جانے سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ مصر میں اب تک رونما ہونے والی تمام سیاسی تبدیلیوں اور کشمکش کے نتیجے میں مصری عوام مغرب نواز نہیں ہوئے لیکن مسلمان باقی رہے ہیں۔ 

انقلاب مصر میں مغرب کی مطلوبہ اور دلخواہ جمہوریت مسلح افواج کی مداخلت سے عملی طور پر ختم ہو چکی ہے لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی بننے والی ایک امریکی فلم کے ردعمل میں مصر اور لیبیا کے عوام کے بے مثال جوش و خروش اور مذہبی غیرت کے مظاہرے کی دل انگیز یادیں ابھی تک باقی ہیں اور اس کے نتیجے میں لیبیا میں ہلاک ہونے والا امریکی سفیر بھی اب ہر گز زندہ نہیں ہو گا۔ 
تشخص اور شناخت پر مبنی موقف حکومتی موقف کی مانند نہیں جسے اقتدار کی ضرورت ہو لہذا اسلامی بیداری کا تسلسل بدستور جاری ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 279964
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش