0
Thursday 11 Jul 2013 19:44

کیا تحریک انصاف حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کو ہے؟

کیا تحریک انصاف حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کو ہے؟
تحریر: سعید باچا 

کیا خیبر پختونخوا میں ''سونامی'' خان کی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کو ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کئی ایک حلقوں میں تیزی سے زیرگردش ہے، اگرچہ گیارہ مئی کے عام انتخابات کا نقشہ کئی ایک مشتاق نظروں سے گزر کر بنا تھا، تاہم ''نہ چاہتے'' ہوئے بھی اِن قوتوں کی ''دسترس'' سے تحریک انصاف بُری طرح لٹنے سے بچ کر خیبر پختونخوا کی حد تک ایسے تیسے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی، حالانکہ پختونخوا کی سرزمین پر تحریک انصاف کی آمد ''غیر متوقع'' تھی اور اِسی تبدیلی نے ان فٹ ہونے والے کپتان کو بھی حیران کرکے چھوڑا، کیونکہ وہ پنجاب میں نون لیگ کو سبق سکھانے کے خواب دیکھتے آرہے تھے اور وہ اپنے اُس خواب کی تعبیر کی تکمیل کے انتظار میں تھے۔ جو بقول عمران خان و سونامی فورس کے بعض قوتوں نے اُن کا راستہ سیدھا مرکز کو جاتے ہوئے بھی ''موڑنے'' میں کامیابی حاصل کرلی؟ قطع نظر تحریکیوں کے تاویلات و الزامات کے اگر دیکھا جائے تو پختونوں کی سرزمین پر اُن کو ملنے والی حکومت بھی اُن کیلئے غنیمت اور تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل کیلئے ایک زریں موقع ہے۔ جو قدرت نے اُنھیں مہیا کیا ہے، تاہم بیساکھیوں کے سہارے کھڑی تحریک انصاف کی حکومت کو کئی بیرونی و اندرونی خطرات لاحق ہیں۔ جن سے اگر تدبیر پر مبنی طریقہ کار کے تحت نہ نکلا جاسکا تو یقیناً تحریک کی حکومت کے ارکان کو حزب اقتدار سے حزب اختلاف کے ڈیسک تبدیل کرانے میں دیر نہیں لگے گی؟ 

تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کیلئے ''قوتیں'' متحرک ہوچکی ہیں اور صوبے کی مضبوط سیاسی قوت اور حکمرانی کی شوقین جمیعت علماء اسلام (ف) ایک مضبوط فارورڈ بلاک بنانے کی کوششیں تیز کرچکی ہے۔ جن میں تحریکی حکومت کے ساتھ وزارتوں کیلئے شامل ہونے والے وہ آزاد ارکان بھی ''نشانے'' پر ہیں۔ جن کے ساتھ وزارتوں کے وعدے وعید ہوچکے تھے، تاہم وزارتوں پر تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی اصولی عملداری کے بعد آزاد ارکان شدید مایوسی سے دوچار ہوچکے ہیں، کیونکہ اُن کے حلقوں کے ووٹروں کی توقعات وہ اُس صورت میں پوری کرسکتے ہیں جب اُن کے ہاتھوں میں کسی وزارت کا قلمندان ہو؟ نیز فارورڈ بلاک بنانے والوں کیلئے وہ اراکین اسمبلی بھی ہاٹ کیک بن چکے ہیں جو دیگر سیاسی جماعتوں سے ٹکٹ دینے سے مایوسی کے بعد الیکشن سے پہلے تحریک انصاف میں ٹکٹ کی شرط پر شامل ہوکر انتخابات جیت چکے ہیں، ہزارہ ڈویژن کے وہ اراکین اسمبلی جن کی سیاسی اُڑان صرف مفادات کیلئے ہوتی ہے، بھی فارورڈ بلاک میں شامل ہونے کے واضح اشارے دے چکے ہیں اور جے یو آئی (ف) نے ''مرکز'' کی ایماء پر فارورڈنگ بلاک بنانے کیلئے اندرون خانہ رابطوں کا سلسلہ تیز کر لیا ہے اور یہ بھی سُنا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی کی وزارت اعلٰی کی دیرینہ خواہش پوری ہونے کی اُمید پیدا ہو چلی ہے؟
 
یقیناً فارورڈنگ بلاک کی ناکامی اگر تحریک انصاف کے کارپردازوں کا مقصود ہو تو اُنھیں صوبائی کابینہ کا حجم بڑھانے اور وزارتوں سے محروم ہونے والے ''حادثاتی'' و آزاد اراکین اسمبلی کے ہاتھوں سے ''لالی پاپ'' لیکر وزارتوں کے قلمدان دیکر ہی ''مخالفین'' کی کامیاب ہوتی کوششوں کا توڑ کرسکتی ہے؟ جے یو آئی (ف) کی جانب سے تحریک انصاف کے خلاف فاروڈ بلاک کا شکنجہ کسنے کے علاوہ اس نومولود حکومت کے خاتمے کیلئے کئی ایک دیگر عوامل بھی کارفرما ہے۔ جن میں ڈرون حملوں پر کئے جانے والے سیاسی داؤ پیچ میں متوقع ناکامی، طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پس و پیش کی پالیسیاں، تبدیلیوں کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود تاحال صوبے کے عوام کی بڑھتی مایوسیاں، وزارتوں و اختیارات کیلئے مشت و گریباں تحریکی اراکین اور سب سے بڑھ کر تحریک انصاف کے سربراہ کی حکم عدولیاں شامل ہیں۔ جس کی موجودگی میں شاید ہی تحریکی حکومت دسمبر کا مہینہ حزب اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہوکر پار کرسکے؟ نیز بڑھتی ہوئی دہشت گردی بھی تحریکی حکومت کی ناکامیوں کی فہرست لمبی کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ جس کے خاتمے کیلئے سنجیدہ کوششوں کا فقدان اس کی شدت سوا کر رہی ہے۔
 
تحریک کے اندرونی ذرائع تحریک انصاف کی حکومتی ناکامی کو جہاں ''غیر تحریکی'' اراکین کو خوش کرنے کی پالیسیاں قرار دے رہے ہیں، وہاں اتحادیوں کے کم وزن کے باوجود اُن کو تگڑی وزارتوں کے قلمندان سونپنا بھی تحریک کے دیرینہ لوگوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ جس سے نہ چاہتے ہوئے بھی تحریک انصاف کی حکومت کیلئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں؟ پچھلے دنوں تحریک کے سربراہ عمران خان کی مرکزی جنرل سیکرٹری اور وزیراعلٰی پرویز خٹک کو پارٹی عہدہ چھوڑنے کی تاکید اور وزیراعلٰی کے دوٹوک انکار نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ شائد وزیراعلٰی پرویز خٹک تحریک کے سربراہ عمران خان کے مزاج سے تاحال آشنا نہیں، اگر ہوتے تو اُنھیں معلوم ہوتا کہ اپنے دُھن کے پکے عمران خان کی ضد و انا پرستی پر وہ کسی کے ساتھ بھی سمجھوتہ نہیں کرتے؟ اور یقیناً اس کا عملی ثبوت اُنھیں عمران خان کے بیرون ممالک دورے سے واپسی کے فوری بعد مل جائے گا؟ جب اُنھیں کسی ایک عہدے سے معزولی کا یقینی سامنا ہوگا؟ اگر دیکھا جائے تو دو عہدوں پر ماضی میں بھی اتنی ''چھیڑ چھاڑ'' نہیں ہوئی اور سابق حکومت کے وزیراعلٰی امیر حیدرخان ہوتی نے وزارت اعلٰی کا قلمدان سنبھالتے ہی ڈپٹی صوبائی جنرل سکرٹری کے عہدے سے استعفٰی دیا تھا، مرحوم بشیر بلور جو عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر تھے، نے سنیئر وزیر بنتے ہی صدارت چھوڑ دی، میاں افتخار نے وزارت اطلاعات کی مسند پر بیٹھتے ہی صوبائی جنرل سیکرٹری کا عہدہ چھوڑا اور اُن کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات عاقل شاہ نے وزیر کھیل و ثقافت لے کر اپنا تنظیمی عہدہ چھوڑا۔
 
اس کے علاوہ بھی ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں، جہاں دو عہدوں میں ایک کی قربانی دینا معیوب نہ سمجھا گیا، نہ ہی اسے انا کا مسئلہ بنایا گیا۔ تاہم تحریکی حکومت کے سربراہ کی حکم عدولی کسی بڑے سانحہ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے اور شائد قدرت بھی فارورڈ بلاک والوں کو آسانیاں دینے کا فیصلہ کرچکی ہو؟ بہر کیف جو بھی ہو مگر آئندہ آنے والے دنوں میں ضروری ہے کہ تحریک انصاف والے ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھائیں، ویسے بھی جب تک ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے نہیں آتے اُن کو موقع ہے کہ وہ اپنی اندرونی و بیرونی پالیسیوں پر نظرثانی کرکے اپنے پانچ سال کی حکومت کیلئے راہیں ہموار کریں، کیونکہ اگست میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا اُن کی حکومت میں رہنے یا نہ رہنے میں اہم کردار ہے اور اس کردار کو مزید تقویت اُن کی مخالف سیاسی جماعتوں عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی (ف) کی سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ پر متفقہ فیصلے نے دی ہے؟ اب اگر ضمنی انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی سیٹیں اِن دونوں پارٹیوں کے حصے میں آگئیں تو یقیناً حزب اقتدار میں تحریک کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے بہت سے آزاد ارکان اسمبلی اور حادثاتی و مفاد پرست اراکین تحریک کا پنجرہ توڑنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
 
مولانا فضل الرحمان جیسے مدبر سیاستدان آگے ہوں، مرکز کی حمایت بھی ساتھ ہو، کچھ ''قوتیں'' بھی حمایت پر کمر بستہ ہوں اور حالات بھی ''موافق'' بنانے کے مواقع موجود ہوں تو پھر فاروڈ بلاک کی ناکامی کا دعویٰ بمشکل ہی کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں باوثوق ذرائع دعویٰ کر رہے ہیں کہ فاروڈ بلاک کی یقینی کامیابی کیلئے جہاں تحریک انصاف کے ساتھ شامل ہونے والے ''مستقبل'' کے وزیروں کی ناراضگیاں کیش کی جائیں گی، وہاں آزاد ارکان کو یقینی مراعات دیکر بھی الگ کرنے کی سعی ہوگی۔ نیز ضمنی انتخابات سے قبل ہی آزاد انتخابات لڑنے والوں کو بھی فاروڈ بلاک کے قافلے میں شمولیت کی شرط پر حمایت کا عندید دینا ضروری خیال کیا گیا ہے؟ سب سے بڑھ کر نون لیگ کی حکومت اس وقت ایسے موڈ میں نہیں کہ وہ طالبان یا ڈرون حملون کو معیشت کی بہتری کیلئے کی جانے والی تیز ترین کوششوں کی راہ میں مزاحم ہونے کی اجازت دے۔ جس کیلئے تحریک کے سربراہ صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام سے انتخابات کے دوران کئے جانے والے وعدوں کی پاسداری کیلئے مرکز سے یقینی مداخلت پر مجبور کرانے کیلئے زور لگا چکے ہیں؟ اس لئے فاروڈ بلاک بنانے اور تحریک سے حکومت چھننے کی کوششوں کے آغاز میں جہاں جے یو آئی (ف) کے سربراہ کی اقتدار پر قبضے کی خواہشوں کو عمل دخل ہے وہاں امریکہ نواز بیوروکریسی کے ''ہاتھ'' اور مرکز بھی اِس بلاک کی کامیابی میں برابر کا شریک ہے، کیونکہ عمران خان جیسے ''ضدی'' سے اُن کیلئے مولانا جیسا ''مصلحت پسند'' سیاستدان لاکھ درجہ بہتر ہے، جن کا سیاسی معیار اس شعر عین مطابق ہے۔
نہ کڑوا بن کے لوگ چکھیں تو تھوکیں
نہ حلوہ بن کے لوگ چکھیں تو چھٹ کے
 

یقیناً صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریکی حکومت اس وقت کچھ بیرونی و اندرونی قوتوں کی منشاء کے ''عین'' مطابق نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کو سنبھالا دینے کی بجائے گرانے کی زیادہ کوشش ہوگی، اس لئے اگر وزیراعلٰی پرویز خٹک تحریک انصاف کے بہتر سیاسی مستقبل کے خواہشمند اور وزارت اعلٰی کے مزے اڑانے کے متمنی ہوں تو پہلی فرصت میں فارورڈ بلاک کی تقویت کا باعث بننے والی کمزوریوں کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائیں۔ دو عہدوں میں سے ایک چھوڑیں، وزارتوں کی بندر بانٹ پر نظرثانی کریں، حصہ بقدر جثہ پر عمل کریں اور آزاد اراکین کے تحفظات کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ دوران انتخابات قوم سے کئے گئے وعدوں کو زبانی جمع خرچ کی زنبیل سے نکال کر عملی طور پر پورا کرنے کی شروعات کریں۔ بصورت دیگر ان کی میزبان سے مہمان بننے اور نہ ہی فارورڈ بلاک والوں کے ''پیٹو'' اسمبلی کے میزبان بننے میں دیر لگے گی۔؟
(روزنامہ آئین)
خبر کا کوڈ : 281552
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش