0
Tuesday 16 Jul 2013 06:07

جاسوس اتحادی

جاسوس اتحادی
اسلام ٹائمز- امریکہ کی جانب سے اپنے ہی اتحادی ممالک کے خلاف جاسوسی پر مبنی دستاویزات کا یکے بعد دیگرے فاش ہونے پر امریکی حکام اپنا ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسی سلسلے میں امریکی صدر براک اوباما نے اپنے جاسوسی اداروں کی جانب سے یورپی ممالک کے خلاف جاسوسی سرگرمیاں انجام دینے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے: 
"یورپی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز سمیت دنیا کے تمام جاسوسی ادارے اسی قسم کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور یہ ہتھکنڈے صرف امریکہ سے ہی مخصوص نہیں"۔ 

امریکی صدر جو تنزانیا کے دارالحکومت دارالسلام میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے نے سی بی اس نیوز چینل کے ایک صحافی کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ یورپی ممالک کی جانب سے اپنے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیوں کے انکشاف پر شدید غصے کے اظہار پر آپ کا کیا خیال ہے، کہا:
"یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں بھی بعض ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو اگر یہ جاننا نہ بھی چاہیں کہ میں ناشتے میں کیا کھا رہا ہوں کم از کم یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں کہ میں کن چیزوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں"۔ 

اگرچہ براک اوباما کی جانب سے اس ردعمل کا مقصد امریکہ کی جانب سے اپنے ہی اتحادی ممالک کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں کی توجیہ پیش کرنا تھا لیکن انہوں نے درحقیقت ایک ایسے موضوع (اتحادی ممالک کا ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا) سے پردہ اٹھایا ہے جس کے بارے میں آج سے پہلے تمام مغربی سیاست دانوں کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ظاہرسازی کی مدد سے ہی سہی اس موضوع کو منظرعام پر نہ آنے دیں۔ اور اگرچہ امریکی صدر کی جانب سے پیش کی گئی یہ توجیہ رائے عامہ کیلئے قابل قبول نہیں لیکن ان کی بات حقیقت سے زیادہ دور بھی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی ممالک کے حکام کو امریکہ کی جانب سے ان کے مکالمات کی شنود اور یورپی یونین کے مختلف دفاتر کی جاسوسی کرنے پر شدید غصہ آیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی اپنے ہی شہریوں یا اپنے ہی اتحادی ممالک کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ 

اس کی ایک واضح مثال فرانس کے کاونٹر جاسوسی ادارے سے وابستہ خارجہ سیکورٹی کے جنرل ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی جاسوسی انجام دینا ہے جسے فرانسوی اخبار لومونڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں فاش کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس فرانسوی جاسوسی ادارے نے دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین کی ای میلز اور انٹرنیٹ پر انجام پانے والے مکالمات کو ریکارڈ کیا ہے۔ اخبار لومونڈ مزید لکھتا ہے کہ خارجہ سیکورٹی کے جنرل ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے استعمال ہونے والا سافٹ ویئر اس قابلیت کا حامل ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر جیسے تمام سوشل نیٹ ورکس پر موجود معلومات اور اسی طرح گوگل، ایپل، مائکروسافٹ اور یاہو جیسی انٹرنیٹ سروسز پر ردوبدل ہونے والی معلومات تک دسترسی حاصل کر سکتا ہے۔ 

ایسے وقت جب فرانسوی حکام دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین کی جاسوسی میں مشغول تھے، امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی بھی ہر روز بیس لاکھ فرانسوی باشندوں کے ٹیلیفونک مکالمات، اس ام اس اور ای میلز کو پڑھنے میں مصروف تھی۔ امریکہ کی جانب سے یورپی ممالک کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں پر مبنی دستاویزات کے فاش ہونے پر فرانسوی حکام کی شدید پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی نہ صرف فرانس کے سفارتخانے اور قونصلیٹ کی جاسوسی میں مشغول تھی اور ہر روز بیس لاکھ سے زیادہ فرانسوی شہریوں کے ٹیلیفون سن رہی تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فرانس کی وزارت دفاع، اٹامک انرجی کمیشن، الیکٹرونک مراکز، اسپیس ٹیکنولوجی سنٹر، فارماسیوٹیکل سنٹرز اور اس کے صنعتی مراکز کی جاسوسی میں بھی مشغول تھی اور بڑے پیمانے پر خفیہ معلومات اکٹھی کر چکی ہے۔ 

اپنے ہی اتحادی یورپی ممالک اور امریکہ کی جاسوسی کرنے والا ایک دوسرا ملک برطانیہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی اخبار گارجین کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانوی حکومت نے 2009ء میں لندن میں برگزار ہونے والی دو جی 20 کانفرنسز میں شامل ہونے والے تمام افراد کی نوٹ بکس اور موبائل فونز تک مکمل رسائی حاصل کی ہوئی تھی اور ان کی پوری جاسوسی میں مشغول تھی۔ اخبار گارجین مزید لکھتا ہے کہ ان کانفرنسز میں شرکت کرنے والے بعض ممالک کے نمائندوں کو اس طرح سے دھوکا دیا گیا کہ وہ لاعلمی میں برطانوی جاسوسی ادارے کی جانب سے ہی بنائے گئے انٹرنیٹ کیفے استعمال کرتے رہے جس کے نتیجے میں ان کی تمام ای میلز برطانوی انٹیلی جنس آفیسرز کے ہاتھ لگتی رہیں۔ 

ابھی اس رپورٹ کو شائع ہوئے کچھ دن ہی گزرے تھے کہ اخبار گارجین نے ایک اور رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا تھا کہ برطانوی حکومت دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین اور سوشل نیٹ ورکس کی جاسوسی میں مصروف ہے اور اس جاسوسی سے حاصل ہونے والی معلومات کو امریکی جاسوسی اداروں کے ساتھ بھی شیئر کر رہی ہے۔ یہ راز امریکی سی آئی اے کے مفرور کارکن ایڈورڈ اسنوڈن نے فاش کیا ہے جو اس وقت امریکی تاریخ کا سب سے بڑا whistleblower بن چکا ہے۔ اخبار گارجین کے مطابق برطانیہ کے جاسوسی ادارے GCHQ نے خفیہ طور پر ایک ایسے نیٹ ورک کو ہیک کیا ہے جس کا کام دنیا بھر میں ٹیلیفونک اور انٹرنیٹ رابطے برقرار کرنا ہے جس کے نتیجے میں اسے بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ صارفین کی شخصی معلومات تک رسائی حاصل ہو چکی ہے۔ یہ برطانوی ادارہ ان معلومات کو امریکی جاسوسی ادارے نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ساتھ بھی شیئر کر رہا ہے۔ 

برطانوی جاسوسی ادارے کی جانب سے اس پروجیکٹ میں انجام پانے والی جدت یہ تھی کہ آپٹک فائبر کے ذریعے وسیع پیمانے پر ڈیٹا ڈاونلوڈ کیا گیا اور یہ کام 30 دن تک مسلسل انجام پایا تاکہ اس پر اسکریننگ کا عمل انجام دیا جا سکے۔ "ٹیمپورا" کے کوڈ سے یہ خفیہ آپریشن تقریبا 18 ماہ قبل سے اب تک انجام پا رہا تھا۔ ٹیمپورا آپریشن پہلی بار 2008ء میں آزمائشی طور پر انجام پایا۔ اس کے دو سال بعد یعنی 2010ء میں برطانیہ کا حکومتی مواصلاتی مرکز دنیا کے ایسے سب سے بڑے مرکز میں تبدیل ہو گیا جو سب سے زیادہ انٹرنیٹ نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کرنے اور انہیں اپنے کنٹرول میں لینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ مرکز حتی یورپی یونین کے دوسرے اراکین جیسے "فائیو آئز" (Five Eyes) سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ "فائیو آئز" نامی ایک بڑے جاسوسی اتحاد کے اراکین ہیں۔ ان پانچ ممالک میں سے برطانیہ انٹیلی جنس ٹیکنولوجی کے اعتبار سے ایک سپرپاور تصور کیا جاتا ہے۔ 

مئی 2012ء سے لے کر اب تک برطانیہ کے حکومتی مواصلاتی مرکز کے 300 تجزیہ نگار اور امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے 250 کارکن مل کر "ٹیمپورا" پروجیکٹ میں سرگرم عمل ہیں اور حاصل ہونی والی معلومات کی اسکریننگ میں مصروف ہیں۔ اس پروجیکٹ کے تحت برطانیہ سے امریکہ، کینیڈا اور مغربی یورپ کی جانب بچھی 200 سے زیادہ مواصلاتی کیبلز جاسوسی کا نشانہ بنائی جاتی ہیں۔ اسی طرح 46 مختلف مواصلاتی چینلز میں ردوبدل ہونی والی معلومات ایک وقت میں کنٹرول کی جاتی ہیں اور ان کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر روز 600 میلین سے زیادہ انجام پانے والی ٹیلیفون کالز بھی سنی جا سکتی ہیں۔ 

اس سب کے باوجود امریکی سیکورٹی ذرائع نے دعوا کیا ہے کہ ان کے انٹیلی جنس اداروں کی جانب سے خفیہ معلومات کا حصول کچھ مخصوص اصولوں کے تحت انجام پایا ہے اور مکمل طور پر قانونی ہے۔ لیکن جرمن حکام نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے امریکی جاسوسی سرگرمیوں پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی کے وزیر انصاف سابین لوتوسر شنارنبرگر نے امریکہ اور برطانیہ کی ان مشترکہ جاسوسی سرگرمیوں کو ایک عظیم سانحہ قرار دیتے ہوئے اسے ایک خوفناک ہالیووڈ فیلم سے تشبیہ کیا۔ اسی طرح انہوں نے برطانوی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ جب حکومتیں اپنے اقدامات کو پراسرار پردوں کے پیچھے چھپا کر انجام دینے لگیں تو آزاد اور جمہوری معاشرے ترقی اور نشوونما کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے برطانوی وزیر داخلہ تریزما مے اور وزیر انصاف کریس گریلنگ کو دو الگ الگ خط بھی لکھے جس میں امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے یورپی ممالک کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں پر شدید پریشانی کا اظہار کیا گیا اور ان سے پوچھا گیا کہ جرمن شہری کس حد تک ان جاسوسی سرگرمیوں کا نشانہ بنے ہیں؟

دوسری طرف برطانوی وزیر خارجہ ویلیم ہیگ نے اپنے جرمن ہم منصب گیدو وسترولے سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور انہیں بتایا کہ ٹیمپورا نامی جاسوسی پروجیکٹ کے تحت انجام پانے والے تمام الیکٹرونک رابطے مکمل طور پر قانونی حیثیت کے حامل تھے۔ انہوں نے دوبارہ دعوا کیا کہ برطانیہ کی جانب سے انجام پانے والی تمام جاسوسی سرگرمیاں ملکی اور بین الاقوامی قانون کے عین مطابق ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ ہر مغربی ملک کی یہ کوشش ہے کہ وہ اپنی جاسوسی سرگرمیوں کو مکمل طور پر قانون کے مطابق ظاہر کرے لیکن ساتھ ہی اپنے اتحادیوں کی جانب سے انجام پانے والی جاسوسی سرگرمیوں کی شدید مذمت بھی کرتے چلے آ رہے ہیں اور اسے ایک غیراخلاقی اقدام قرار دے رہے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 283484
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش