0
Tuesday 16 Jul 2013 19:56

میری پگڑی کا اعزاز اور امام خمینی (رہ)

میری پگڑی کا اعزاز اور امام خمینی (رہ)
تحریر: ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

ناروے مجھے پسند ہے، میں وہاں کئی بار گیا ہوں۔ پہلی بار وہاں گیا تو وزیراعظم ایک خاتون تھی۔ کابینہ اور دوسرے اداروں میں عورتیں ہی عورتیں تھیں۔ مجھ سے ایک ٹی وی انٹرویو میں خاتون اینکر پرسن نے پوچھا کہ ناروے تمہیں کیسا لگا۔ میں نے کہا یہ ملک عورتوں کی جنت ہے۔ حیران کر دینے والے بھید بھرے حسن و جمال کی مالک لڑکی بہت خوش ہوئی۔ اس کی دھیمی کیفیتوں سے بھری ہوئی ہنسی مجھے آج بھی نہیں بھولی۔ مگر ایک بہت بوڑھی عورت کے سوال کی حیرت بھی مجھے نہیں بھولے گی۔ ایک اولڈ ہوم میں سب سے بوڑھے آدمی سے ملنے کی میری خواہش پر دو لڑکیاں ایک سوہنی بزرگ بڑھیا کو وہیل چیئر پر میرے سامنے لائیں تو میں نے دیکھا کہ وہ گریس فل بڑھیا دونوں جوان لڑکیوں سے زیادہ جوان لگ رہی تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر حیران ہوئی اور پریشان زیادہ ہوئی میری پگڑی داڑھی سے اس کی نظریں ہٹتی نہ تھیں۔ میرا شائستہ انداز دیکھ کر بے حال عورت تھوڑی سی بحال ہوئی۔ ویسے وہ بے حال تھی تو زیادہ اچھی لگ رہی تھی۔ اس نے کسی تمہید کے بغیر مجھ سے پوچھا تھا۔ اور اپنی نگاہیں میری آنکھوں میں پیوست کر دی تھیں۔ ”تم امام خمینی کے کیا لگتے ہو“؟ ساتھ کھڑی ایک مترجم لڑکی نے سوال میری طرف بڑھا دیا۔ 

میں یہ اندازہ کر ہی رہا تھا کہ وہ اردو اچھی بولتی ہے یا نارویجن۔ مجھے نارویجن نہیں آتی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ وہ اردو اچھی بولتی ہے۔ ایک نارویجن لڑکی کے منہ سے اتنی روانی اور آسانی سے اردو سُن کر میں پوری طرح لطف بھی نہ لے سکا۔ میں تو اس سوال کے اعزاز میں کھو گیا۔ میں امام صاحب کا رشتے دار نہیں ہوں۔ مگر اس سوال کے بعد میں اپنے آپ کو بہت کچھ لگ رہا تھا۔ میرے پاس یہ سوچنے کے لئے کچھ نہ تھا کہ میں کیا جواب دوں۔ سوال اتنا بڑا ہے کہ میں کچھ بھی کہوں۔ میرا جواب بہت چھوٹا ہوگا۔ میں ان کا کیا لگتا ہوں۔ یہ بات آپ کے سوال کے اندر موجود ہے۔ وہ میرے لیڈر ہیں۔ امام ہیں اور امام لیڈر سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ نے امام خمینی کے انقلاب کو شیعہ انقلاب بنانے کی بڑی کوشش کی، وہ اب تک شیعہ سُنی فسادات کرانے کے دھوکے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ کامیاب نہیں ہوئے مگر ناکام بھی نہیں ہوئے۔ امام خمینی کا خوف اُن کے دلوں سے جاتا نہیں۔ اب تک ایران امریکہ اور یورپ والوں کے لئے ایک مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ کئی قسم کے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ 

عالم اسلام میں اتحاد امت کے لئے کئی ادارے کام کر رہے ہیں۔ سب اتحاد اور اتفاق کی باتیں کرتے ہیں، مگر ابھی کوئی بات نہیں بن رہی۔ میں امام خمینی کی پہلی برسی پر ایران گیا تھا۔ ہم امام صاحب کے مزار پر گئے تھے اور اس محلے میں بھی گئے جہاں اُن کا گھر ہے۔ اندرون شہر کے محلے کی طرح غریب لوگوں کی بستی۔ ایران میں اپنی فقیدالمثال واپسی کے بعد اپنی بیش بہا زندگی امام خمینی نے اسی چھوٹے سے عام سے گھر میں گزاری۔ اس گھر تک جانے والی تنگ گلیوں میں گاڑی نہیں جاسکتی۔ بہت دیر تک پیدل چلنے کے بعد ہم وہاں پہنچے۔ یہاں جو بھی جاتا، وہ اپنے قدموں پر چل کر جاتا ہے۔ معمولی انداز کے دو تین کمرے جن میں سے ایک میں اتنا بڑا انسان رہتا تھا۔ اپنے سارے معمولات اور معاملات بڑی آسانی اور آسودگی سے نبٹاتا تھا۔ ایک ہجوم گھر کے صحن میں حیران ہو کر کبھی اپنے آپ کو اور کبھی اس گھر کو دیکھتا تھا۔ اس کے بعد ہم نے شاہ ایران کا وسیع و عریض محل بھی دیکھا۔ خدا کی قسم ہمیں وہ گھر اچھا لگا۔ وہ گھر ہے اور یہ محل ہے۔ محلے میں کبھی محل نہیں ہوتا۔ محل کبھی گھر نہیں ہوتا۔
 
پاکستان میں محلے بھی ہیں اور محل بھی ہیں۔ اب تو لاہور میں بہت محل ہیں۔ محل ہی محل ہیں۔ محلے اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ آج بھی اندرون لاہور ہمیں بلاتا ہے۔ جبکہ ”بیرون لاہور“ ہمیں کھینچتا ہے۔ اس کھینچا تانی میں سوائے خواری کی کچھ نہیں ملتا۔ ایوان صدر کبھی آپ نے دیکھا ہے؟ وزیراعظم ہاﺅس۔ کوئی بھی وزیراعلٰی ہاﺅس۔ کسی وزیر شذیر، کسی امیر کبیر کی کوٹھی۔ اب رہائش کی جگہوں کو گھر نہیں کہتے۔ کوٹھی کہتے ہیں۔ کوٹھی والوں نے کبھی کوئی کوٹھڑی نہیں دیکھی ہوگی۔ وہاں بھی انسان رہتے ہیں اور خوش و خرم رہتے ہیں۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ کوٹھی والے کیسے رہتے ہیں۔ کوٹھی والوں نے بھی کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ کوٹھڑی میں لوگ کیسے رہ لیتے ہیں۔ یہ فرق بیان کرنا میرا موضوع نہیں۔ میرے لئے تو یہ بات بھی شرمناک ہے کہ میرا گھر بظاہر امام خمینی کے گھر کے مقابلے میں بڑا ہے۔ مگر بڑا گھر تو وہ ہے جہاں امام خمینی رہتے تھے۔ ایک دولت مند دوست فلاحی کام کرنے والے لندن سے لاہور آئے تو کچھ کالم نگاروں سے ملے مجھ سے بھی ملے۔ 

ڈیفنس، بحریہ ٹاﺅن اور ای ایم ای سوسائٹی کے بعد وحدت کالونی کے کوارٹر میں میرے پاس آئے تو بیٹھتے ہی پوچھا آپ یہاں رہتے ہو۔ میں نے کہا نہیں۔ میں تو اپنے دل میں رہتا ہوں۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ہاں دل سے زیادہ شاندار اور خوبصورت جگہ اور کوئی نہیں ہے۔ میں امام خمینی کے دل جیسے گھر سے واپس آگیا ہوں، مگر میرا دل ابھی تک وہیں ہے۔ خانہ فرہنگ لاہور میں علی رضا کی دعوت پر میں امام خمینی کی برسی میں شرکت کے لئے آیا تھا۔ آغا زاہد نے بہت اچھی باتیں کیں۔ ایرانی قونصل جنرل عزت مآب محمد حسین بن اسدی بھی تھے۔ میری نظریں برادرم وسیم سندھو اور سعدیہ سندھو کو ڈھونڈتی رہیں کہ میں ایک بار پہلے ان کے بلاوے پر خانہ فرہنگ میں آیا تھا۔ بچوں کو فارسی سکھانے اور ان کی طرف سے تصویروں کی نمائش تھی۔ وسیم اور سعدیہ کے بچوں نے امام خمینی کی تصویر بنائی تھی۔ جو مجھے اچھی لگی اور میں حیران تھا کہ اُن کے قدموں میں میری بھی تصویر تھی۔ میری پگڑی اور امام خمینی کی پگڑی کی مماثلت دیکھنے والوں کو حیران کر رہی تھی۔ میری پگڑی میرے قبیلے کی روایت کی نمائندگی کرتی ہے۔ کوئی بھی روایت دوسری بڑی روایتوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہے۔
"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 283623
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش