0
Wednesday 17 Jul 2013 00:15

اسلام کے داعی، کفر کے حامی

اسلام کے داعی، کفر کے حامی
تحریر: عاشق حسین طوری 
 
امریکی خبر رساں ایجنسی نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان میں موجود پاکستانی و غیر ملکی جنگجووں کی ایک بڑی تعداد نے شام کا رخ کرلیا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے اس خبر کی تردید کی ہے، لیکن پاکستانی خفیہ ادارے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ شام میں لڑائی کے لئے جانے والے جنگجووں کے دو گروپس ہیں۔ ان میں سے ایک گروپ وہ ہے جو افغانستان میں امریکہ سے لڑنے کے لئے عرب ممالک سے پاکستان آئے تھے اور اب وہ شام جا رہے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک شام کا مسئلہ اب زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ اس گروپ میں القاعدہ کے وہ ارکان شامل ہیں جنہوں نے پاکستانی طالبان کو بم بنانے اور خودکش حملوں کی تربیت دی تھی۔

دوسرے گروپ میں پاکستانی طالبان، لشکر جھنگوی اور دیگر انتہا پسند گروہ شامل ہیں۔ سلیمان نام کے ایک پاکستانی نے امریکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا ہے کہ شام میں ان کا اصل مقصد شیعہ حکومت کے خلاف لڑنا ہے اور وہ اپنے ساتھ اپنی اہلیہ اور دو بچوں کو بھی جعلی پاسپورٹ کے ذریعے سوڈان اور پھر شام لایا ہے۔ پاکستان کی جماعت اسلامی نے بتایا ہے کہ انکی جماعت کے بھی چند کارکن شام میں لڑنے کے لئے گئے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی جنگجو جو کفر کے خلاف جہاد کے داعی ہیں، کس معیار کی بنیاد پر شام کی حکومت کو اسلام مخالف حکومت ٹہراتے ہیں اور ان کے خیال میں شامی حکومت کے خلاف لڑنا اب زیادہ اہم ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو تھوڑا سا غور طلب ہے۔
شام پر کیوں دو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا ہے کہ عربی اور مغربی ممالک بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے شام کے برائے نام مخالفین کے توسط سے جنگ ٹھونسی گئی ہے، اور شامی حکومت کے مخالفین کی ہر قسم کی عسکری اور مالی مدد کی جا رہی ہے۔ شام کو کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے۔؟ اس کا جواب بالکل واضح اور شفاف ہے۔

شام کے خلاف جو کچھ ہوچکا یا ہو رہا ہے، اس کے پس پردہ دو عوامل اور مقاصد کی طرف اشارہ ضروری سمجہتا ہوں۔ پہلا یہ کہ شام فلسطین کے حمایتی اور صہیونی حکومت (اسرائیل) کے مخالف الائنس کا اہم رکن ہے، اور جتنی مدد آج تک شام کی حکومت نے فلسطینیوں کی کی ہے، کسی بھی عرب ملک نے فلسطین اور فلسطینیوں کی اتنی مدد نہیں کی ہے۔ یہی الائنس کہ جس میں شام، اسلامی جمہوریہ ایران، لبنان کی حزب اللہ او فلسطین کا حماس شامل ہیں، 2006ء میں 33 روزہ جنگ میں اسرائیل کی شکست کا سبب بنا اور اسی الائنس نے غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اسرائیل جیسی طاقت کو اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیا، حالانکہ اس سے پہلے سب عرب ممالک کئی جنگوں میں اسرائیل سے شکست کھا چکے ہیں۔ اسرائیل نے ان کی زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور بیت المقدس پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہے۔ ایسی حالت میں یہی الائنس اسلامی بالخصوص عرب دنیا کے لئے باعث فخر رہا اور عربوں کی عزت کو اسی الائنس نے بحال کیا۔

تو غرض یہ کہ شام کی حکومت اس الائنس کا نہایت ہی اہم اور اسٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں اگر ایک جانب سے شام خود بلا واسطہ شریک رہا ہے تو دوسری طرف ایران، لبنان کے حزب اللہ اور فلسطین کے حماس کے درمیان پل کے طور پر نہایت ہی اہم ذمہ داری انجام دے رہا ہے۔ آج تک عرب اور مغربی ممالک نے کئی مرتبہ شام کو پیسوں کا لالچ دیا یا پھر دہمکیاں دیں کہ اس الائنس سے علیحدگی اختیار کرے، لیکن شام نے کبھی بھی اسلام، فلسطین اور مسلمانوں کو پشت نہیں کی۔ اس کوشش میں ناکامی کے بعد عرب ممالک اور بطور خاص امریکہ نے اسرائیل کی مکمل حفاظت کی خاطر بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانا شام کے خلاف جنگ کے دوسرے اہم مقصد کے طور پر جانا جاتا ہے۔

جب عرب ممالک، افریقا کے شمال اور بعض اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کا آغاز ہوا اور یکے بعد دیگرے ڈکٹیٹر او کٹھ پتلی حکومتیں گرنے لگیں اور تیونس، مصر، لیبیا اور یمن میں مسلمان عوام کی کوششوں کے نتیجے میں ڈکٹیٹر حکومتیں سرنگون ہوگئیں تو سعودی عرب، بحرین، اور دوسرے عرب ممالک میں بھی لوگ سڑکوں پر نکل آۓ اور ڈکٹیٹر اور شاہی حکومتوں کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ عرب ممالک کے بکے ہوئے حکمرانوں اور ان کے مغربی آقاؤں نے شدید خطرہ محسوس کیا۔ ادھر اسرائیل کو بھی پریشانی لاحق ہوگئی کہ اگر سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں بھی عوامی حکومتیں بر سر اقتدار آگئیں تو غاصب اسرائیل کا جینا حرام ہو جائے گا۔ تب عرب اور مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ نے ایک جانب اسرائیل کی حفاظت اور دوسری جانب سعودی عرب اور بحرین جیسے دیگر ممالک میں جہاں مغرب اور امریکہ کے مفادات کی محافظ حکومتیں بر سر اقتدار ہیں؛ رائے عامہ کو منحرف کرنے کے لئے شام پر جنگ ٹھونس دی، اور جب سے شام میں جنگ نے زور پکڑا ہے فی الحال سعودی عرب اور بحرین کی کٹھ پتلی حکومتوں کے خلاف خطرہ ٹل چکا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ شام کی موجودہ حکومت اگر بعض انسانی اور قومی حقوق جیسے مسائل نہ ہوں، دیگر عرب حکومتوں کے مقابلے میں بدرجہ ہا بہتر ہے، اور اسے عوامی حمایت بھی حاصل ہے، اور اگر عوام کی حمایت نہ ہوتی یہ حکومت کب کی رخصت ہوچکی ہوتی، جیسا کہ مصر میں حسنی مبارک کی حکومت، تیونس میں بن علی اور لیبیا میں قذافی کی حکومت عوامی مخالفت کے سیلاب میں بہ گئیں۔

اگر لبنان کی حزب اللہ آج شامی حکومت کی حمایت کرتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ جانتی ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے سقوط سے کیسے کیسے ناخوشگوار واقعات پیش آئینگے، اور فلسطین کے مستقبل کا کیا بنے گا۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں اسلام کی داعی تنظیموں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ گذشتہ چند دہائیوں میں مسلمانوں کا جو قتل عام فلسطین میں اسرائیل کی جانب سے ہو رہا ہے، اس پر آپ لوگوں کی غیرت کیوں نہیں جاگی، اور کیوں ان گروہوں کے افراد نے فلسطین کا رخ نہیں کیا، کہ آج اپنے مسلمان برادر اور اسرائیل دشمن ملک کے خلاف پاکستان سے لشکر پہ لشکر بھیج رہے ہو، تاکہ اسلام کے مجاہدین دشمنان اسلام کی خدمت کے لئے یہ کارنامہ انجام دیں اور ان کی مدد کریں۔ یاد رکھیں کہ تاریخ یہ حقائق کبھی فراموش نہیں کریگی۔
خبر کا کوڈ : 283820
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش