1
0
Tuesday 23 Jul 2013 04:38

کرب کا موسم لوٹ آیا ہے!

کرب کا موسم لوٹ آیا ہے!
 تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
ایسا لگ رہا ہے کہ محرم اس بار کچھ پہلے ہی آگیا ہے، موسم غم نے اس بار رمضان المبارک میں ہی اپنا اثر و رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے، نوحہ و ماتم کی صدائیں، غم و حزن کی پرچھائیں، اور بے گور و کفن شہداء کی وفائیں اس بار ماہ صیام میں ہی دکھائی اور سنائی دینے لگی ہیں۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے مزار اقدس واقع زینبیہ دمشق میں سلفی بلکہ یزیدی کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا، کے مارٹر و راکٹ حملے نے عالم اسلام کو شدید غم و غصہ میں مبتلا کر دیا ہے، ہر طرف سے احتجاج کی صدائیں گونج رہی ہیں، ہر باغیرت انسان کم از کم مذمت تو کر رہا ہے، جن کو زیادہ دکھ ہے وہ سراپا احتجاج ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح سے سیدہ ؑ کے مزار اقدس کی حفاظت کیلئے وہاں پہنچ جائیں اور اپنی جان اس راہ میں قربان کرکے بارگاہِ نبوت میں سرخرو ہو جائیں، اور کربلا میں بلند ہونے والی امام حسین ؑ کی صدائے ہل من ناصر پر لبیک کہنے کا حق ادا کر دیں۔
 
شام میں سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے مزار اقدس کی حفاظت کی ذمہ داری ابوالفضل بریگیڈ کے پاس ہے، جن کی فکر یہ ہے کہ اے دختر علیؑ، اے علیؑ کی شیر دل بیٹی! ہم سب عباس بن کر تیری ردا کی حفاظت کریں گے اور اے سیدہ ؑ تجھے ایک بار پھر اسیر نہ ہونے دیں گے۔۔۔ یہ خوبصورت سوچ اور شعار ہی اس قدر متاثر کن ہے کہ ہر حسینی اس کو اپنانے کیلئے بے تاب ہے، ہر غیرت مند مسلمان اس پر عمل درآمد کرنے کیلئے بے قرار ہے۔ ان جذبات و احساسات کا اظہار ہم نے ان مظاہروں میں ہزاروں مرد و خواتین کو کرتے سنا اور دیکھا ہے جو مختلف تنظیموں کی کالز پر منعقد کئے گئے ہیں، میرا خیال ہے کہ یہ جذبات و احساسات سچائی و صدق پر مبنی ہیں۔
 
اگرچہ میں جانتا ہوں کہ اس کی ضرورت فی الحال نہیں ہے، پھر بھی سیدہ ؑ کے روضہ اقدس کے دفاع کیلئے یہاں سے لوگوں کو بھرتی کئے جانے کی مہم سامنے آئے تو بلاشبہ ہزاروں کی تعداد میں جاں نثار رضاکار مرد و خواتین اپنا نام لکھوائیں گے اور جانے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو شہزادی زینبؑ کا مقام و مرتبہ اور منزلت ہے، دوسری وجہ بنت نبی کا کربلا اور اس کے بعد تاریخ ساز کردار ہے، ایسا کردار جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی اور جس کے باعث کربلا میں یزید کی بہ ظاہر جیتی جنگ کو شکست میں بدلنا تھا، یہ سیدہ ؑ ہی تھیں جو خاندان نبوت کی پروردہ ہونے کے باوجود کوفہ و شام کے بازاروں اور ابن زیاد و یزید کے درباروں میں اسراء کے قافلے کی سالاری کرتے ہوئے اپنے خطبوں کے ذریعے حق کا پیغام نشر کر رہی تھیں اور سچ کی نمائندہ بن کر کھڑی تھیں۔
 
در حالیکہ آپ کے ساتھ آپ کے پیاروں کے جسموں سے جدا کئے گئے سر ہائے مقدس بھی تھے، جن کو دیکھ کر ان کا کرب اور درد و دکھ بڑھ جانا فطری عمل تھا۔ ایسی کیفیات میں انسان اپنے ہوش و ہواس کھو بیٹھتا ہے، مگر سیدہ ؑ نے استقامت و مزاحمت کا استعارہ بن کر تاریخ کے ماتھے کا جھومر بننا تھا اور اسلام کی بقاء کیلئے دی گئی ان قربانیوں کا حاصل پانا تھا۔ لہذاہم دیکھتے ہیں کہ آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی ان کے اس تاریخی کردار کو رہنمائی کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے، اور اس دور کے یزید کے حامی آج ایک بار پھر اپنی تمام قوت و طاقت کو جمع کرکے ان کے مزار اقدس پر حملہ آور ہیں۔ 

میرا خیال ہے سیدہ زینب بنت علی ؑ کے مزار مقدس پر حملوں کے پسِ پردہ جہاں دیگر عوامل کارفرما ہیں، وہاں دو پہلو بہت اہم ہیں۔ ایک تو سیدہ زینب بنت علیؑ کا آج کے سفیانی لشکر کے سپاہیوں کے مقابل آنے والے مجاہدین کیلئے مرکز رشد و ہدایت کا کام کرنا اور اس مزار مقدس سے معنوی قوت و روحانی فیض پا کر شجاعانہ مقابلہ کیلئے آمادہ ہونا ہے، دوسرا بڑا مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ اس وقت امت کو متحد و منظم کرنے کے حوالے سے جو عالمی کوششیں سامنے آئی تھیں، ان کے اثرات کو زائل کیا جائے اور ان پر کاری ضرب لگائی جائے، اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے سب جانتے ہیں کہ فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر نکالا گیا ہے۔
 
سیدہ ؑ کے مزار اقدس سے چونکہ لوگوں کو گہری وابستگی اور عشق ہے، لہذا اس مرکز عشق پر خدانخواستہ جب چوٹ پڑے گی تو ہر طرف واویلا ہوگا، ہر طرف سے انتقام کے جذبات ابھریں گے اور وہ جنگ تیز ہوجائے گی، جسے استعمار نے مسلمانوں کو باہم دست و گریبان رکھنے کیلئے مختلف ممالک میں بھڑکایا ہوا ہے، اس میں پاکستان بھی ہے اور مشرق وسطیٰ بھی، افغانستان بھی ہے اور مصر بھی، یمن بھی ہے اور بحرین بھی، سعودی عریبیہ بھی ہے اور شام بھی۔۔ بہرحال اس طرح کے اقدامات کا مقصد عالمی سطح پر فرقہ واریت کی آگ کو بڑھاوا دینا ہے، ہمیں اس سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان حالات میں ان معتدل قوتوں کو ساتھ ملانے کی اشد ضرورت ہے جو کسی کی تکفیر و طعن و تشنیع کے خلاف ہیں اور امت اسلامی کا اتحاد دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ 

ایک بات طے ہے کہ ملت تشیع ہی جہان اسلام میں حق کی صحیح نمائندہ اور آواز ہے، جس کے پاس ہر میدان میں آئیڈیل کردار ہیں، مگر اپنی فکر و فلسفہ کی کامل سچائی کے ساتھ بھی اسلام کے خلاف ہونے والی عالمی سازشوں کا تن تنہا مقابلہ کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ اس مقصد کیلئے ایسے ممالک و معتدل اسلامی قوتوں کو ساتھ ملانا بہت ضروری ہے، جو ہمارے مکتب و وجود کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنے کو تیار ہوں، اگر یہ اتحاد قائم ہو جائے تو پھر بہت سارے امور میں دشمنوں کو شکست دی جاسکتی ہے، وگرنہ اس سے پہلے ہم اسی صدی میں حجاز مقدس پر نجدی سلفیوں کی یلغار کو دیکھ چکے ہیں، کیسے انہوں نے اقلیت میں ہوتے ہوئے اپنے ناپاک و نجس نظریات کو مذہب کا لبادہ پہنایا اور جنت البقیع میں آئمہ اطہار و اکرام، اصحاب و خاندان نبی ؐکے مزارات و قبور کو مسمار کر دیا اور امت نے خاموشی سے برداشت کر لیا۔

61 ہجری میں تو مسلمانوں کی آبادی محدود اور خبر و نظر کے ذرائع بہت ہی محدود تھے۔ 1926ء میں جب جنت البقیع مسمار کیا گیا تو اسلام ہر طرف پھیل چکا تھا اور اطلاعات و خبروں کے ذرائع بھی سامنے آچکے تھے پھر امت نے یہ ظلم کیسے برداشت کر لیا۔۔۔ شائد ایسے ہی جیسے آج کیا جا رہا ہے، ابھی کل کی بات ہے عراق میں نجف، کربلا، سامرہ میں آئمہ کے مزارات کو اسی گروہ نے نشانہ بنایا تھا اور امت نے بڑی آسانی سے یہ سب دیکھا سنا اور ہضم کر لیا، صرف مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ہی اس کی مذمت کی ریلیاں نکالیں اور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے اگر ہمارے ساتھ معتدل قوتوں کا اتحاد ہوتا تو احتجاج کا رنگ یقیناً کچھ اور ہوتا، اب بھی یہ مشکل سامنے ہے کہ سیدہ زینب سلام اللہ کے مزار اقدس پر حملہ کرنے والے اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں تو ہمیں ان کے چہروں سے نقاب الٹنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اس کا سب سے مؤثر طریقہ اور راستہ یہی ہے کہ خاندان نبوت سے عشق و محبت کا دم بھرنے والے معتدل مسلمانوں کو اپنے احتجاج میں ساتھ رکھیں اور تکفیری و خارجی فکر کے حامل نجدی،سلفیوں جو درحقیقت امت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں، کو بے نقاب کر دیں اور امت سے جدا کر دیں۔ ایسے کہ ہر فرد امت ان سے نفرت کا اظہار کرے اور ان سے تعلق رکھتے ہوئے شرمندگی محسوس کرے۔
خبر کا کوڈ : 285887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
ماشااللہ ،،،،،ناصر بھائی
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش