2
0
Friday 26 Jul 2013 06:07

نواسیءِ رسول (ص) کے مزار پر حملہ

نواسیءِ رسول (ص) کے مزار پر حملہ
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
چند دن قبل دہشت گردوں نے نبی اکرم (ص) کی نواسی حضرتِ زینب(س) کے مزارِ اقدس پر حملہ آور ہو کر اپنی اسلام دشمنی کا کھلا ثبوت دیا۔ حضرتِ زینب (س) نبی آخر الزمان (ص) کی صاحبزادی، جنابِ فاطمہ زہرا (س) کی لاڈلی بیٹی اور امیر المومنین حضرت علی (ع) کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں۔ حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ آپ کی سگی نانی ہیں۔ حضرتِ زینب (س) کے فضائل کو یہی کافی نہیں کہ آپ کا نام آپ کے نانا نے رکھا، یعنی وہ نبی (ص) جو وحی الٰہی کے بغیر بات نہیں کرتے۔ آپ حضرت حسن (ع) کی پیاری بہن اور سیدالشہدا حضرت امام حسین (ع) کی میدانِ کربلا میں ڈھارس بندھانے والی ایسی بہن تھیں کہ چشمِ فلک نے ایسی بہن نہ پہلے دیکھی نہ آئندہ دیکھ پائے گی۔ ابو سفیان کے پوتے یزید کے دربار میں اللہ کے آخری رسول (ص) کی نواسی کا خطبہ، باطل پر حق کی فتح کا نقطہء عروج تھا۔ کربلا سے شام تک کا سفر حضرتِ زینب (س) کے عزم و ہمت کی لازوال داستان ہے۔ اسلام کے نام لیوا اگر آج دنیا میں موجود ہیں تو یہ آلِ محمد (ص) کی قربانیوں کا ہی ثمر ہے۔ 

بلاشبہ شام میں عالمی سیاسی مفادات کی شدید جنگ جاری ہے اور اس جنگ کا تختہٗ مشق شامی عوام بنے ہوئے ہیں۔ سامراج اس جنگ کو ویسا ہی مقدس نام دینے پر تلا ہوا ہے جیسا اس نے سوویت یونین کے خلاف اپنی سامراجی جنگ کو ’’اسلامی جہاد‘‘ کا نام دے کر، کم فہم مگر پرجوش مسلم نوجوانوں کو امریکی جہاد پر لگا دیا تھا، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ بی بی پاک (س) کے مزار اقدس پر حملہ آور ہونے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ سامنے کی بات تو فرقہ وارانہ تشدد کو ایسی ہوا دینا ہے جو چنگاری کو شعلوں میں بدل دے۔ ایسا ہوگا بھی، کیونکہ دنیا بھر کے جو ’’جہادی‘‘ آج کل بشار الاسد کی’’ملحد‘‘ حکومت کے خلاف ’’جہاد‘‘ کرنے شام پہنچ رہے ہیں، ان کی فکری تربیت ہی تکفیری ہے۔ 

وہ شرک اور توحید کی اپنی سی تعریف کرتے ہیں اور جو اس تعریف پر پورا نہ اترے ان کی نظر میں وہ واجب القتل ہے۔ حضرت حجر بن عدیؓ کی تربت مبارک کی بے حرمتی اور پھر بی بی پاک (س) کے مزار پر حملہ ایک خاص فکری رویے کا عکاس ہے۔ سارا مسئلہ اس فکری رویے کا ہے، جسے سمجھنے میں ہم غلطی کر جاتے ہیں اور خارجیت کو اسلامی مجاہدین کا لبادہ اوڑھا دیتے ہیں۔ مکرر عرض ہے کہ شام میں جاری جنگ عالمی سیاسی مفادات کی رسہ کشی ہے، جس کا مقصد اسرائیل کے پڑوس میں کمزور اور امریکی تابع فرماں حکومت کا قیام ہے۔ شام میں جو رن پڑا ہے اس کی ذمہ داری سامراج سے پہلے ان عرب ممالک اور اسلامی ریاستوں پر بھی ہے جو سامراجی ’’جہاد‘‘ کے فروغ کے لیے سیاسی، معاشی اور افرادی قوت کی قلت کو پورا کر رہی ہیں۔ 

سیدہ زینب (س) کے مزار شریف پر حملہ آور ہونے والے کیسے خود کو ’’جہادی‘‘ کہہ سکتے ہیں؟ یا کس طرح کوئی عدل پسند انسان انھیں انسانی معاشرہ کا فرد کہہ سکتا ہے؟ لاریب کہ سیدہ (س) کے مزار شریف کی حفاظت کرنے کے لئے لاکھوں نہیں کروڑوں مومنین تیار و بے قرار ہیں۔ یہاں سیدہ (س) کے کربلا سے شام تک کے سفر پر ہی کالم تمام کیا جاسکتا ہے لیکن تازہ افتاد کے محرکات کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔
ایک طرف اگر مزاراتِ مقدسہ پر حملہ آور ہونا تکفیریوں کی نفسیاتی شکست اور ہیجان انگیزی ہے تو دوسری طرف ان کی فکری تربیت کا نقطہٗ عروج یہ ہے کہ ’’شرک‘‘ کے ہر نشان کو مٹا دو۔ شام سیدہ (س) کے لئے آج پھر ایک تازہ کربلا بن گئی۔ کل یزید کا دربار تھا تو آج اس کی اولاد اور اس کے فکری حواری آلِ رسول (ع) سے اپنے بغض کا ثبوت دے رہے ہیں۔ لعینوں سے بعید نہیں کہ وہ ایسی جسارت آئندہ بھی کر گزریں، کیونکہ امریکہ براہِ راست اس جنگ میں کودنے والا ہے۔ شام کو خانہ جنگی کا شکار کرنے کے لئے فرقہ وارانہ تشدد سے بڑھ کر سامراج کے پاس کوئی مؤثر ہتھیار نہیں۔
 
سوال مگر یہ ہے کہ عالمِ اسلام کے وہ عاشقانِ رسول (ص) کہاں ہیں جو حرمتِ رسول (ص) پر قربان ہونے کے ہمہ وقت دعوے دار نظر آتے ہیں، کیا سیدہ زینب (س) کے مزار پر حملہ حرمتِ رسول (ص) پر حملہ نہیں؟ لیکن ہم کربلا نہیں جائیں گے، ماضی قریب کی طرف پلٹتے ہیں، کیا جنت البقیع کا انہدام حرمتِ رسول (ص) پر حملہ نہیں تھا؟ یہ سب ہوا اور مسلمان کلمہ پڑھ کے خاموشی سے سہہ گیا۔ حضور اس فکری رویے کے سامنے بندھ باندھنے کی ضرورت ہے۔ ترکی، قطر، عرب امارات، اردن، سعودی عرب اور پاکستان کو شام کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اس بات کو سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ شام میں اسرائیل کی بقا کے لئے، القاعدہ، امریکہ، سعودی عرب، قطر اور ترکی مل کر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ 

مجھے حیرت اس بات پر بھی ہے کہ نبی اکرم (ص) کی پیاری نواسی ؑ کے مزار کو نشانہ بنایا گیا اور ’’اسلام کے قلعے‘‘ سے کوئی زوردار آواز نہیں گونجی، ایک روایتی سا مذمتی بیان اور بس! میڈیا بھی ایک آدھ خبر دے کر ملالہ کی طرف پلٹ گیا۔ عافیہ صدیقی کی رہائی جن مسلمانوں کے لئے آبرو کا مسئلہ بنی ہوئی ہے انھیں سیدہ زینب (س) کے مزار پر ہونے والے حملے کی مذمت بھی کرنا چاہیے۔ سارا زور مگر اس بات پر لگایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی سازش ہے اور یہ کہ ایسی حرکت کوئی مسلمان کر ہی نہیں سکتا۔ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا کربلا میں امام حسین (س) کو شہید کرنے والے مسلمان نہ تھے؟ وہ تو عصر سے پہلے امام (ع) کو شہید کرکے نمازِ عصر ادا کرنا چاہ رہے تھے۔ 

کیا حضرت ابراہیم بن محمد (ص) کی قبر کو مسمار کرنے والے مسلمان نہ تھے؟ دکھ مگر اس وجہ سے بھی ہوا ہے کہ یہ سب مسلمان ہیں۔ کلمہ پڑھتے ہیں اور پھر مساجد، عبادت گاہوں اور مقاماتِ مقدسہ کی بے حرمتی کرنے لگتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ اس واقعے سے نبی پاک (ص) کو صدمہ پہنچا ہوگا، اور بے شک آپ کے رنجیدہ ہونے پر آپ (ص) کی ازواج کو بھی تکلیف ہوئی ہوگی۔ امہات المومنین کے جانثار بیٹے آج اس المیے پر خاموش کیوں ہیں؟ 

ہمارا المیہ مگر یہ ہے کہ ہم نفاق اور تعصب کے بیچ زندہ ہیں۔ اسلام پر کربلا سے بڑی افتاد نہیں پڑی اور اسلام کے دامن میں کربلا سے بڑی فتح بھی نہیں۔ سامراج سازشیں کرتا ہے، لیکن ہر چیز میں سازش کی بو سونگھنے والے اس ازلی حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ ظلم کبھی بھی فاتح نہیں ہوتا۔ عالمی برادری کو ایک ایسا شام گوارہ ہی نہیں جو اسرائیل کو آنکھیں دکھائے۔ خطے میں اسرائیل کو خطرات سے دور کرنے کے لئے ایسی فرقہ وارانہ کشیدگی کشید کی جا رہی ہے جس کے عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ عالمِ انسانیت پر بھی بہت مضر اثرات مرتب ہوں گے۔ علمائے کرام اگر فرقہ وارانہ فتاوٰی سے نکل کر شام، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں سامراجی مفادات کی خاطر کئے جانے والے ’’جہاد‘‘ کے خلاف یک آواز ہو جائیں تو امت میں جاری کشت و خون کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ عزم و ہمت، نیکی و راستی اور اسلام کی سربلندی کے ہر ایک نشان سے خائف ستم گر ہر طرف سے حملہ آور ہیں۔ آج کا یزید بھی کربلا والوں سے اتنا ہی خائف ہے جتنا 61 ہجری والا تھا۔ آج کے یزید کو بھی ویسی ہی شکست ہے جیسی 61 ہجری والے کو ہوئی۔ شام کا ماحول ایک بار پھر سیدہ (س) کے لئے گھٹن زدہ ہوگیا ہے۔ محسن نقوی بہت یاد آرہا ہے، طرح دار سید زادے نے کہا تھا،
نسلِ ستم ہے در پئے آزار، اب تو آ
پھر سج رہے ہیں ظلم کے بازار، اب تو آ
پھر آگ پھر وہی در و دیوار، اب تو آ
کعبے پہ پھر ہے ظلم کی یلغار، اب تو آ
دِن ڈھل رہا ہے، وقت کو تازہ اڑان دے
آ،اے ’’امامِ ؑ عصر‘‘ حرم میں اذان دے
خبر کا کوڈ : 286881
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اجرکم علی اللہ طاہر بھائی
اسد عباس
We strongly condemn the brutal attack on the holy shrine of Zanib Bint e Ali A.S.Join hands to fight against terrorism...
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش