QR CodeQR Code

القصیر میں مغربی بلاک کی تاریخی شکست اور یورپی یونین کی انتقامی کاروائی

27 Jul 2013 00:15

اسلام ٹائمز: یورپی یونین نے آخرکار حزب اللہ لبنان کے عسکری ونگ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر کے امریکی اور اسرائیلی حکام کو خوش کر ہی دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی نظر میں دہشت گردی کا مفہوم ان کے سیاسی مفادات سے جڑا ہوا ہے۔


اسلام ٹائمز- امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے کئی سال سے جاری سرتوڑ کوششوں کے بعد آخرکار یورپی یونین نے حزب اللہ لبنان کے عسکری ونگ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔ یورپی یونین کے اس فیصلے میں لبنان کی بعض اندرونی حزب اللہ مخالف سیاسی تنظیموں نے بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان تنظیموں نے ملک میں ایسی کئی دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دیں جن کا الزام حزب اللہ لبنان کے سر تھونپ دیا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہے۔ 

گذشتہ سال کے شروع سے ہی امریکہ اور اسرائیل نے یورپی یونین کو اس بات پر قائل کرنے کیلئے کہ حزب اللہ لبنان ایک دہشت گرد تنظیم ہے وسیع سازشوں کا جال بچھانا شروع کر دیا تھا۔ اسی سلسلہ میں لبنان کے اندر اور بعض یورپی ممالک میں کچھ ایسی مشکوک دہشت گردانہ کاروائیاں انجام پائیں جن کا الزام حزب اللہ لبنان پر لگا دیا گیا۔ یورپی ممالک نے شروع میں تو امریکہ اور اسرائیل کے اس مطالبے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یورپی یونین کے نزدیک حزب اللہ لبنان ایک سیاسی تنظیم ہے اور اسے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں قرار دینے کیلئے کافی حد تک ثبوت موجود نہیں۔ دوسری طرف یورپی ممالک اس بات سے بھی خوفزدہ تھے کہ کہیں ان کا یہ اقدام لبنان کے ساتھ ان کے تعلقات پر منفی اثرات نہ ڈالے کیونکہ حزب اللہ لبنان ملک میں بڑے پیمانے پر سماجی کاموں میں مصروف ہے اور اس کے علاوہ حزب اللہ لبنان کا سیاسی ونگ حکومت کا بھی حصہ ہے۔ 

یورپی ممالک کی جانب سے اپنا مطالبہ مسترد کیا جانا امریکہ اور اسرائیل کو اچھا نہ لگا اور وہ اس سوچ میں پڑ گئے کہ کسی طرح حزب اللہ لبنان کو دہشت گردی میں ملوث قرار دینے کیلئے ثبوت مہیا کر سکیں۔ اس سلسلے میں امریکہ اور اسرائیل نے جولائی 2012ء میں بلغاریہ کے ساحلی شہر بورگاس میں اسرائیلی سیاحوں کی بس میں بم دھماکے جیسی کاروائی کا سہارا لیا جس میں 5 اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکہ اور اسرائیل نے اس دھماکے کا الزام حزب اللہ لبنان پر لگایا۔ امریکہ اور اسرائیل نے بلغاریہ حکومت کے ساتھ بھی سازباز کر لی اور بلغاریہ حکومت نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کی ذمہ داری حزب اللہ لبنان پر تھونپ دی۔ اس رپورٹ کے شائع ہونے کے فورا بعد امریکہ اور اسرائیل سرگرم عمل ہو گئے اور یورپی یونین سے مطالبہ کر دیا کہ وہ حزب اللہ لبنان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کریں۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے اس مطالبے پر اصرار کی وجہ یہ تھی کہ وہ چاہتے تھے اس طرح یورپی ممالک میں حزب اللہ لبنان کے املاک اور سرمایہ کو بلاک کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ حزب اللہ لبنان کے کارکنوں پر یورپی ممالک کا سفر کرنے کی پابندی بھی عائد کر دی جائے۔ اسی طرح اس اقدام کی روشنی میں حزب اللہ لبنان کے کارکنان کسی قسم کا اسلحہ بھی اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ اس منصوبے کا اصل مقصد بین الاقوامی سطح پر حزب اللہ لبنان کے اثرورسوخ کو محدود کرنا اور اسے کم کرنا ہے۔ 

لیکن بلغاریہ حکومت کی جانب سے انجام پانے والی تحقیقات کے نتائج اس قدر مشکوک تھے کہ حتی بعض بلغاری گروہوں نے بھی اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ان گروہوں کی نظر میں یہ رپورٹ غیرمصدقہ اسناد و مدارک کی بنیاد پر شائع کی گئی ہے۔ حتی اسرائیلی اخبار معاریو نے اس تحقیق کے قریبی ذرائع کے بقول یہ انکشاف کیا کہ امریکہ اور اسرائیل نے بلغاریہ حکومت پر دباو ڈال رکھا تھا تاکہ اس دہشت گردانہ اقدام کی ذمہ داری ایران اور حزب اللہ پر ڈالی جائے۔ اسرائیلی اخبار معاریو لکھتا ہے:

"اسرائیل نے بلغاری محققین کو ایسی معلومات فراہم کی ہیں جن کی بنیاد پر اس دہشت گردانہ اقدام میں حزب اللہ کو ملوث کیا جا سکے گا"۔

انہیں تنقیدات اور اندر سے سامنے آنے والے اعتراضات نے یورپی ممالک کو شک و تردید کا شکار کر رکھا تھا۔ اخبار السفیر نے بھی اسی نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"بلغاریہ حکومت کے مخالفین کی جانب سے ان تحقیقات کے طرز انجام اور ان کے نتائج کے بارے میں سامنے آنے والی تنقیدات اور اسی طرح بلغاریہ کے برے سیاسی حالات اور کرپشن کی زیادتی وہ بڑی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر یورپی یونین اس تحقیق کو شک کی نظر سے دیکھ رہی ہے"۔

لیکن امریکہ اور اسرائیل نے ان ناکامیوں کے باوجود ہمت نہ ہاری اور شام کے اندرونی معاملات میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے مغربی اور عربی اتحادیوں کی جانب سے کھلم کھلا اور ڈھکے چھپے مداخلت اور شام کے حکومت مخالف دہشت گرد مسلح گروہوں کی اعلانیہ طور پر مالی اور فوجی امداد کے باوجود حزب اللہ لبنان کی سرگرمیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور اس کے خلاف الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رکھے رہے۔ حزب اللہ کا مسئلہ اس قدر امریکہ اور اسرائیل کیلئے اہمیت کا حامل تھا کہ امریکی صدر براک اوباما نے ذاتی طور پر لبنانی صدر میچل سلیمان کے ساتھ اس بارے میں گفتگو کی شام میں حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کی موجودگی پر اپنی گہری پریشانی کا اظہار کیا۔ 

بعض امریکی حکام نے یہ دعوا بھی کیا ہے کہ شام کے شہر القصیر میں حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ شام کی خانہ جنگی میں حزب اللہ لبنان کا ہاتھ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ القصیر شام اور لبنان کی سرحد پر واقع ہونے کے ناطے انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس شہر میں کئی ہفتوں سے شامی باغیوں اور فوج کے درمیان شدید جنگ جاری تھی اور حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کا کام صرف یہ تھا کہ اس جنگ کو لبنان کی سرحدوں میں سرایت کرنے سے روکیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے بے تحاشہ شور مچانے کے بعد یورپی یونین کی خارجہ امور کی مسئول کیتھراین اشتن نے اعلان کیا کہ یورپی حکام حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں داخل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اور آخرکار یورپی یونین کے اراکین نے حزب اللہ لبنان کے عسکری ونگ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔ 

شائد پہلی نظر میں ایسا دکھائی دے کہ یہ امر امریکی حکام کیلئے ایک بڑی کامیابی ہے لیکن حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ اگر لبنان کی بعض سیاسی جماعتیں جیسے سعد حریری کی سربراہی میں 14 مارچ موومنٹ جو حزب اللہ لبنان کی سخت مخالف جماعت تصور کی جاتی ہے، امریکہ سے تعاون نہ کرتیں تو وہ کبھی بھی اپنی اس سازش میں کامیاب نہ ہوتا۔ لبنان کی سیاسی جماعت المستقبل جو بذات خود شام کے حکومت مخالف دہشت گرد مسلح گروہوں کی مالی اور فوجی امداد کرنے میں مصروف ہے، بھی امریکہ کے شانہ بشانہ حزب اللہ پر شام کے اندرونی مسائل میں مداخلت کرنے کا الزام لگانے میں پیش پیش رہی ہے۔ اس جماعت کے سربراہ سعد حریری نے حتی حزب اللہ لبنان کو اسرائیل سے تشبیہ کرتے ہوئے یہاں تک کہ دیا کہ حزب اللہ لبنان اسرائیل کی پیروی کرتے ہوئے القصیر میں اسی جیسے جنگی جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ 

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان بیانات کا مقصد سیاسی انتقام لینا ہے۔ یہ وہی حقیقت ہے جس کی جانب حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم بھی اشارہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک ایسی قومی حکومت بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مناسب نمائندگی حاصل ہو المستقبل کی جانب سے نئی حکومت کی تشکیل میں رکاوٹیں ڈالنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:

"المستقبل شام میں جاری بحران کا اپنے دلخواہ مقصد تک پہنچنے کی انتظار میں ہے اور اسی خاطر لبنان میں نئی حکومت کی تشکیل کو موخر کرتی جا رہی ہے۔ جبکہ لبنان کی نجات کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں آپس میں تعاون کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات و گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں"۔ 

لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ لبنان کی مخالف سیاسی جماعتیں اس کوشش میں مصروف ہیں کہ شام اور لبنان کے سرحدی علاقوں میں انجام پانے والی دہشت گردانہ کاروائیوں کی ذمہ داری حزب اللہ لبنان پر ڈالیں تاکہ ملک کے اندر اس کے اثرورسوخ کو محدود کر سکیں۔ 


خبر کا کوڈ: 287158

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/fori_news/287158/القصیر-میں-مغربی-بلاک-کی-تاریخی-شکست-اور-یورپی-یونین-انتقامی-کاروائی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org