0
Thursday 1 Aug 2013 18:05

یوم القدس اور اسلامی دنیا میں اتحاد کا پیغام

یوم القدس اور اسلامی دنیا میں اتحاد کا پیغام
اسلام ٹائمز- یوم القدس ایک بار پھر آ پہنچا ہے تاکہ اسلامی ممالک کی سڑکیں اور گلیاں اسرائیل کے خلاف امت مسلمہ کے غیض و غضب کا مشاہدہ کر سکیں۔ یوم القدس جو انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی رہ کے فرمان پر ہر سال ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے یا جمعہ الوداع کے دن اکثر اسلامی ممالک میں مذہبی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، اس سال اس بات کی یاددہانی کروانے کے علاوہ کہ مسئلہ فلسطین اور قدس شریف پر یہودیوں کا قبضہ عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ ہے، مسلمانان عالم اور خاص طور پر عرب ممالک کو ایک اور اہم پیغام بھی دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ 
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ بیت المقدس اور فلسطین کو عالم اسلام کی آغوش میں واپس لانے کا ایک انتہائی اہم زمینہ اور پیش خیمہ مسلمانان عالم کے درمیان اتحاد اور وحدت کا قیام ہے۔ آج ہم مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتحاد کو عالم اسلام کا گمشدہ گوہر قرار دے سکتے ہیں۔ خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی موج اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے خلاف مسلمانان عالم کیلئے ایک انتہائی قیمتی فرصت ثابت ہو سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے بعض فرقہ وارانہ رجحانات، جاری حالات اور تبدیلیوں کی نامناسب مدیریت اور مغربی قوتوں، اسرائیل اور متحجر عرب ممالک کی جانب سے مسلسل شیطنت کی وجہ سے اپنے صحیح راستے سے منحرف ہو گئی اور اسرائیلی مفادات کے راستا میں عالم اسلام کی وحدت کو شدید خطرات سے دوچار کرنے لگی۔ 
 
ولی امر مسلمین جہان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں اپنے ایک خطاب کے دوران مصر کی موجودہ صورتحال اور وہاں پر انجام پانے والے المناک واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مصر میں اسلامی بیداری کو صحیح طور پر ہینڈل نہیں کیا گیا اور اس نامناسب مدیریت نے نہ صرف مصر کے اندرونی حالات پر گہرا اثر ڈالا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ اثرات اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے حق میں اور مسئلہ فلسطین کے نقصان میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حکام نے خطے میں پیدا ہونے والی سیاسی کشمکش اور بدامنی سے بہت فائدے اٹھائے ہیں۔ اگر اس سال یوم القدس پر مسلمانان عالم اسی پیغام کو دریافت کر لیں تو یہ ایک عظیم کارنامہ ہو گا۔ 

خطے میں دو سطح پر پائے جانے والے شدید قسم کے اختلافات:
آج مشرق وسطی کے مسلمان دو سطح کے شدید اختلافات کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ ایک قومی سطح پر اور دوسرا مذہبی سطح پر۔ یہ دونوں قسم کے اختلافات صرف اور صرف اسرائیل کے فائدے میں ہیں۔ 
 
قومی سطح پر پائے جانے والے اختلافات کی وجہ سے خطے کے دو ایسے بڑے عرب ملک جنہوں نے اپنی تاریخ میں اسرائیل کے ساتھ سب سے بڑی جنگیں لڑی ہیں آج انتہائی افسوسناک صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ دو بڑے عرب ملک مصر اور شام ہیں۔ شام ایک ایسے بحران اور فتنے کا شکار ہے جو مغربی قوتوں، متحجر عرب حکومتوں اور تکفیری گروہوں کی مشترکہ پیداوار ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شام کی کمزوری کا سب سے زیادہ فائدہ صرف اسرائیل کو ہی پہنچ سکتا ہے۔ شام میں جاری بحران اور بدامنی کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ شامی شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں مکان تباہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ شام کی انڈسٹری اور زراعت نابود ہو چکی ہے اور یہ ملک انتہائی سنگین معاشی مسائل کا شکار ہو چکا ہے۔ 
 
شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران شامی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے مسلح جنگجو باغیوں میں دنیا کے تقریبا 18 مختلف ممالک کے شہری شامل ہیں۔ یہ باغی وہی سلفی ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک سے جہاد کے نام پر شام آئے ہیں تاکہ شام میں بھی افغانی طالبان طرز کی حکومت قائم کی جا سکے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بعض عرب مفتیوں نے اسلام کے نام پر "جہاد النکاح" جیسے بے شرمانہ فتوے بھی صادر کر دیئے ہیں۔ اگرچہ کچھ عرصے سے حزب اللہ لبنان کی مدد سے شامی فوج کو اس خانہ جنگی میں بڑی کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں اور یہ فتنہ اپنے آخری مراحل میں ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فتنہ اور بحران اسرائیل کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا؟ آیا بہتر نہیں تھا کہ شامی فوج اور حزب اللہ لبنان کی طاقت خانہ جنگی میں استعمال ہونے کی بجائے آزادی فلسطین کی راہ میں صرف ہوتی؟
 
قومی اختلافات کا شکار دوسرا ملک مصر ہے۔ مصر وہ ملک ہے جس نے عرب دنیا میں جدید سیاسی سوچ کی بنیاد رکھی۔ مصر میں انقلاب کی کامیابی کے چند ماہ بعد ہی فوجی آمریت نہ فقط اقتدار میں واپس آ گئی بلکہ اس ملک کی سڑکوں پر برادرکشی اور مسلمانوں کا ایک دوسرے سے ٹکراو کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ رابعہ العدویہ اسکوائر اور تحریر اسکوائر میں جنگ شروع ہو چکی ہے۔ دوسری طرف مصر آرمی نے اخوان المسلمین کو خبردار کیا ہے کہ مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ بند کر دیں ورنہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا لیکن اخوان المسلمین اور معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے خون کے آخری قطرے تک فوجی حکومت کے خلاف ڈٹے رہیں گے۔ مصر میں حتی نمازیوں پر بھی رحم نہیں کیا گیا اور دسیوں افراد کو نماز کی حالت میں شہید کیا گیا ہے۔ 
 
اخوان المسلمین جو آج ملک کے اندر فوج کی بغاوت کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر مغربی قوتوں کی بے وفائی اور متحجر عرب ممالک کی مخالفت سے بھی روبرو ہو چکی ہے، جب برسراقتدار تھی تو اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ جیسے شرمناک معاہدے کو کالعدم قرار دینے کی بجائے شام میں جنگ کی آگ کو مزید بھڑکانے میں مصروف تھی۔ کاش اگر اخوان المسلمین کے رہنما اس وقت جب برسراقتدار تھے اسرائیل کے خلاف میدان میں اتر آتے اور خون کے آخری قطرے تک اس کے خلاف ڈٹے رہنے کا عہد کر لیتے تو آج مشروعیت کے اس بحران سے روبرو نہ ہوتے اور یہ اعلان کرنے پر مجبور نہ ہوتے کہ اپنے مصری بھائیوں کے خلاف خون کے آخری قطرے تک ڈٹے رہیں گے۔ 
 
تیونس میں بھی سیاسی کشمکش اپنے عروج پر ہے۔ لیبیا بھی بجھی ہوئی آگ میں چنگاری کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بحرین میں انقلابی عوام کے خلاف طاقت کا بے رحمانہ استعمال جاری ہے اور یمن میں سابق ڈکٹیٹر عبداللہ صالح کا نائب بدستور برسراقتدار ہے۔ حتی لبنان میں فرقہ وارانہ جنگ کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ متحجر عرب حکومتوں کے نزدیک بھی اگر کسی مسئلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو وہ مسئلہ فلسطین ہے۔ 
 
مذہبی سطح پر اختلافات کی طرف آتے ہیں۔ تکفیری قوتوں کی مشرق وسطی جیسے اسٹریٹجک خطے خاص طور پر شام میں موجودگی نے مسلمانوں کے درمیان برادرکشی اور شیعہ سنی جنگ کے خطرے کو انتہائی شدت بخش دی ہے۔ بلکہ بعض علاقوں میں فرقہ وارانہ سرگرمیاں بھی دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ جب تکفیری گروہ کھلم کھلا اہل تشیع کے مقدس مقامات کی توہین کرتے نظر آتے ہیں، اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کی قبرگشائی کرتے نظر آتے ہیں اور تکفیری جنگجو ھندہ جگرخوار کی سیرت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مقتولین کا دل نکال کر چباتے ہوئے نظر آتے ہیں تو فطری طور پر شیعہ قوتوں سے بھی مناسب ردعمل ظاہر کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ 
 
اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی اتحاد بین المسلمین اور شیعہ سنی وحدت کے بارے میں واضح موقف اور پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اس قسم کے اختلافات کا فائدہ صرف اور صرف اسرائیل جیسی اسلام دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے اور اس میں نہ شیعہ کا کوئی فائدہ ہے اور نہ سنی کا۔ 

اس سال کا یوم القدس پیغام وحدت کا حامل ہونا چاہئے:
اس سال کا روز قدس مندرجہ بالا حالات میں برگزار ہونے جا رہا ہے۔ شائد آزادی فلسطین کی دیرینہ آرزو مسلمانوں کے کانوں میں یہ پیغام ڈال سکے کہ وحدت اور اتحاد آج کی اشد ضرورت ہے۔ آزادی فلسطین جان کری کے مطلوبہ منحوس مذاکرات سے ممکن نہیں بلکہ بیت المقدس کی آزادی کا واحد راستہ مسلمانان عالم کے مشترکہ راست اقدام میں ہی مضمر ہے۔ اگر جان کری کے مطلوبہ مذاکرات میں کوئی راہ حل پیش کرنے کی سکت ہوتی تو اب تک مسئلہ فلسطین حل ہو چکا ہوتا۔ 
 
اتحاد بین المسلمین کا تحقق صرف اس وقت ممکن ہے جب اولا شدت پسند اور انتہاپسند عناصر کا خاتمہ کر دیا جائے، دوما متحجر عرب حکومتیں اسلامی مفادات کو مغربی مفادات پر ترجیح دینے کا فیصلہ کر لیں اور سوما بحران کا شکار عرب ممالک خاص طور پر شام میں قومی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو جائے۔ صرف اسی صورت میں ہی اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم پر دباو ڈال کر اسے قدم بہ قدم عقب نشینی پر مجبور کرتے ہوئے نابودی اور فنا کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ جب تک مسلمانان عالم ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ تانے کھڑے ہیں اور مغربی اسلحہ کی مدد سے ایک دوسرے کو قتل کرنے میں مصروف ہیں، اسرائیل کو ایک خراش لگانا بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ اس سال کا یوم القدس گذشتہ تمام سالوں کی مانند وحدت کا پیغام دیتا ہوا نظر آئے گا، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اس پیغام کو سننے والے کان بھی نظر آئیں گے یا نہیں؟

 
خبر کا کوڈ : 288847
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش