1
0
Sunday 29 Oct 2023 11:27

قائد اعظم اور مسئلہ فلسطین

قائد اعظم اور مسئلہ فلسطین
تحریر: علی عباس

پاکستان ایک نظریاتی و اسلامی ریاست کے طور پر ابھی معرض وجود میں آیا نہیں تھا، ابھی متحدہ ہندوستان بوڑھے سامراج برطانیہ کے زیرتسلط تھا اور جس ملک کی سرزمین پر سورج غروب نہ ہونے کی حکایت بوسیدہ ہونے والی تھی اور برطانیہ کو دوسری جنگ عظیم میں بھی کودنا تھا اور اس سلسلے میں برطانیہ جنگی حکمت عملی کے طور پر عرب دنیا کی دولت کو اس شرط پر ہتھیانے میں کامیاب ہوگیا کہ جنگ کے بعد عرب مقبوضہ علاقوں کو آزادی دے گا، لیکن برطانیہ نے جنگ کے بعد عرب کے تمام علاقے کو جو اس کے قبضہ میں تھا، آزاد کیا یا نہیں؟ وہ مقبوضہ بیت المقدس کی شکل میں برطانوی سامراج کی تاریخی خیانت کی نشاندہی کر رہا ہے۔ برطانیہ نے اعلان بالفور کو ڈیلینگ ٹیکٹیکس اور اسرائیل کے قیام کا بہترین طریقہ بنایا۔ دوسری طرف برصغیر پاک و ہند میں مسلمان ہند ایک الگ ریاست کی قیام کے لیے جدوجہد میں مصروف عمل تھے اور آزادی کے لیے مزید دس سال کی مسافت باقی تھی، جبکہ مسلمانان پاکستان کے دلوں کی دھڑکن محمد علی جناح کی قیادت پر برصغیر کے مسلمانان اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار تھے۔

ایسے میں محمد علی جناح کی بابصیرت قیادت، ژرف نگاہی اور تیز بینی کا اندازہ ان کے کلمات اور بیانات سے لگایا جا سکتا ہے، جو انہوں نے مسئلہ فلسطین پر برطانوی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہے۔ بانی پاکستان نے جس شدت کے ساتھ آزادی سے دس سال قبل مسئلہ فلسطین کو اٹھایا، اس شدت اور شد و مد کے ساتھ آزادی تریسٹھ برس بعد بھی کسی پاکستانی نام نہاد رہنماء کو توفیق نہیں ہوئی، بلکہ یوں کہیں تو زیادہ مناسب ہے کہ پوری ملت پاکستان کے نام نہاد رہنماء، بانی پاکستان کے اس موقف کے ساتھ خیانت میں مبتلا ہیں، جبکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 1937ء میں لکھنؤ میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے کا تفصیلی ذکر کیا تھا اور برطانوی حکمرانوں کو تنبہیہ کی تھی کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے حقوق پامال نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ’’اب میں مسئلہ فلسطین کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں، اس کا ہندوستان کے تمام مسلمانوں پر بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ حکومت برطانیہ کی پالیسی رہی کہ اس نے شروع سے لے کر اب تک عربوں کو دھوکہ دیا ہے۔ ان کی اعتبار کر لینے والی فطرت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے، برطانیہ نے اس وعدے کو پورا نہیں کیا، جو جنگِ عظیم (اوّل) کے دباو کے تحت کیا گیا تھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ عربوں کو مکمل آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے اور ایک عرب وفاق کی تشکیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔ عربوں سے جھوٹے وعدے کرکے ان سے فائدہ اٹھانے کے بعد برطانیہ نے اب بدنام زمانہ اعلان بالفور کے ذریعے اپنے آپ کو ان پر مسلط کر دیا ہے اور یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن بنانے کی پالیسی کے بعد اب برطانیہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے اور رائل کمیشن کی سفارشات نے اس المناک داستان کا آخری باب لکھ دیا ہے۔ اگر اس کو نافذ کر دیا گیا تو عربوں کے اپنے وطن میں ان کی تمام تمناوں اور آرزوں کا خون ہو جائے گا۔ اب ہمیں یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم اصل واقعات پر غور کریں، لیکن سوال یہ ہے کہ حالات پیدا کس نے کیے ہیں؟ یہ برطانوی مدبرین کی پیداوار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ لیگ آف نیشنز رائل کمیشن کی سفارشات کی تائید نہیں کرے گی اور خدا کرے کہ اس کی تائید نہ کی جائے اور اصل حالات کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عربوں کو ان کا صلہ دینے کے لیے یہ کوئی دیانت دارانہ کوشش ہے؟ میں حکومت برطانیہ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کا جرأت، دلیری اور انصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو حکومت برطانیہ کی تاریخ میں ایک تازہ انقلاب کا دروازہ کھول دے گی۔ میں صرف مسلمانان ہند کی نہیں بلکہ اس معاملے میں مسلمانان عالم کی ترجمانی کر رہا ہوں اور تمام انصاف پسند اور فکرمند اصحاب اس بات میں میری تائید کریں گے۔ جب میں یہ کہوں گا کہ اگر برطانیہ نے اپنے وعدوں، عزائم اور اعلانات کو جو زمانہ قبل و بعد از جنگ تمام دنیا کے روبرو غیر مشروط طور پر عربوں کے ساتھ کیے گئے تھے، پورا نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہا ہے۔ میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ عربوں کے اندر نہایت شدید احساس پیدا ہوچکا ہے اور حکومت برطانیہ جھلاّ کر اور جوش میں آکر اعراب فلسطین کے خلاف نہایت سخت تشدد پر اتر آئی ہے۔ مسلمانان ہند عربوں کے اس منصفانہ اور جرأت مندانہ جہاد میں ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے میں ان کو یہ پیغام بھیجنا چاہتا ہوں کہ اس منصفانہ جنگ میں وہ جس عزم، ہمت اور حوصلے کے ساتھ لڑ رہے ہیں وہ انجام کار کامیاب ہو کر رہیں گے۔‘‘

قائد نے یہ پیشکش کی کہ اگر برطانیہ فلسطین کے بارے میں معقول پالیسی اختیار کرے تو اس کی بھرپور مدد کی جائے گی، بصورت دیگر ہندوستان کے مسلمان عربوں کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے، جو قومی آزادی کے لیے جنگ کر رہے ہیں اور اپنے فرض اور حقوق کی حفاظت کے اجراء پر انہیں بہ نوک سنگین مارشل لاء نافذ کرکے دبایا جا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کی طرف سے یہودیوں کی امداد اور انہیں دنیا بھر سے اکٹھا کرکے فلسطین میں آباد کرنے کی امریکی سازش کے خلاف قائد نے امریکا پر کڑی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے اینگلو امریکی کمیٹی کی طرف سے ایک لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں داخلے کی اجازت دینے کی سفارش کرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے اور اس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے۔ قائد نے عربوں سے کہا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جائیں اور ایک یہودی کو بھی فلسطین میں داخل نہ ہونے دیں۔‘‘

قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے قائد نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ ’’اس برصغیر کے مسلمان تقسیم فلسطین کے متعلق اقوام متحدہ کے ظالمانہ، ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب و لہجہ میں احتجاج کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ برصغیر کے مسلمان امریکا یا کسی اور ملک کی مخالفت مول نہیں لینا چاہتے۔ لیکن ہماری حس انصاف ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہر ممکن طریقے سے مدد کریں۔‘‘ رائٹر کے نمائندے کو انہوں نے بتایا کہ ’’فلسطین کے بارے میں ہمارے مؤقف کی صراحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ محمد ظفر اللہ خان نے دی ہے۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا۔ ورنہ ایک خوفناک ترین اور بے مثال چپقلش کا شروع ہو جانا ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ یہ چپقلش صرف عربوں اور منصوبہ تقسیم کو نافذ کرنے والوں کے مابین نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف عملی طور پر بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے کی حمایت نہ تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔

ایسی صورت حال میں پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے اور خواہ مخواہ کے اشتعال اور ناجائز دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہے، پورے جوش و خروش اور طاقت سے بروئے کار لائے۔‘‘ اس وقت ہمیں پوری ملت پاکستان کو، ملت اسلامیہ، قائداعظم کی آزاد کردہ ریاست پر آزادی کے سانس لینے والوں کو، قبلہ اول کے ماننے والوں کو شرمندہ ہونا چاہیئے، قائد سے اور فلسطینیوں سے بھی کہ اُن کے خلاف خواہ مخواہ کے اشتعال اور ناجائز دست درازیوں کو روکنے کے لیے پورے جوش و خروش اور طاقت سے کچھ نہیں کرسکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم نے قائد کی خارجہ پالیسی کے فلسفے کو نظر انداز کرکے فلاح کی راہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ فلسفہ آج بھی ہمارے لیے، اسلامی ملکوں کے لیے، ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ملکوں کے لیے قابل عمل ہے کہ اس کی بنیاد اخلاقی اصولوں اور عالمی امن و خوشحالی کے آدرش پر ہے اور طرز عمل کے اعتبار سے وہ روشن خیال، روح عصر کے تقاضوں کے مطابق اور حقیقت پسندانہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 288929
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
walking shoes اسلام ٹائمز - قائد اعظم اور مسئلہ فلسطین
mbt shoes mary jane http://www.networkinnovationsllc.com/mbt-shoes-website.asp
ہماری پیشکش