0
Saturday 3 Aug 2013 23:07

مقبوضہ بیت المقدس اور مسلم امہ

مقبوضہ بیت المقدس اور مسلم امہ
تحریر: ذاکرحسین میر 

مختصر تاریخچہ: 
اس سے قبل کہ مقبوضہ بیت المقدس اور مسلم امہ پر روشنی ڈالیں بیت المقدس کا مختصر سا تاریخچہ قارئین کی آگاہی کے لئے پیش خدمت ہے۔ بیت المقدس دو لفظوں کا مرکب ہے بیت کا معنی گھر اور مقدس کا معنی پاک و پاکیزہ ہے، اس طرح بیت المقدس سے مراد وہ پاک و پاکیزہ گھر ہے جہاں گناہ و ناپاکی کا گزر ہی نہیں ہوتا۔ اس مقدس گھر کی تعمیر کے سلسلے میں ابوذر غفاری (ع) کے ایک سوال پر حضور اکرم (ص) نے فرمایا ’’دنیا میں سب سے پہلے مسجد الحرام کی تعمیر ہوئی اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس کی تعمیر ہوئی جس کی بنیاد خانہ کعبہ کی تعمیر کے چالیس برس بعد رکھی گئی‘‘۔ حضرت داود (ع) اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان (ع) اس مقدس گھر کے بانی ہیں، جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اس گھر کی بنیاد رکھی اور اس کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا۔ حضرت سلیمان (ع) کی تعمیر کے بعد دشمنوں نے ایک دفعہ اس گھر کو ویران کر دیا اور حضرت شعیا (ع) نے اس جگہ کو دوبارہ آباد کیا اور ایک ایرانی بادشاہ نے بیت المقدس کی دوبارہ تعمیر کرائی۔ ۱۷ھ خلیفہ دوم کے دور حکومت میں بیت المقدس بغیر کسی جنگ و جدال قتل عام اور خونریزی کے اسلامی حکومت میں شامل کر لیا گیا۔ شہر کے زیادہ لوگوں نے اسلام قبول کیا اور باقی جتنے بھی نصاری اور یہودی تھے وہ اپنے رسومات اور احکام پر آذادی کے ساتھ پابند عمل رہے۔ ۴۹۱ھ میں انگریزوں نے اس شہر پر حملہ کر دیا اور زبردست قتل عام اور خونریزی کے بعد اپنا قبضہ جما لیا۔ اس دوران تقریبا ۷۰ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ اس طرح تقریبا ۹۱ سال تک انگریزوں کی حکومت قائم رہی۔ ۷۵۲ھ میں صلاح الدین ایوبی نے انگریزوں کے خلاف زوردار جنگ کی اور پھر سے اس شہر پر قبضہ کر لیا اور ایک لمبے عرصے تک یہاں ایوبی حکمرانوں نے حکومت کی۔

بیت المقدس کی فضیلت: بیت المقدس جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے وہ پاک و پاکیزہ جگہ ہے جہاں اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں نے اپنی زندگی عبادت خداوندی میں گزاری۔ ابن عباس کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے تمام پیغمبروں نے اس سرزمین میں نماز ادا کی اس طرح یہ سرزمین اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں کی عبادت گاہ رہی ہے۔ اس سرزمین کی فضیلت اس حوالے سے بھی غیر معمولی ہے کہ یہاں حضرت اسحاق (ع)، حضرت ابراہیم (ع) اور حضرت یعقوب (ع) سمیت سینکڑوں اللہ کے مقرب بندے اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔ خداوند کریم نے بھی قرآن مجید میں اس سرزمین کی فضلیت و اہمیت کے پیش نظر متعدد جگہوں میں اس کا ذکر کیا ہے اور اپنے پیغمبروں کے ساتھ اسی سرزمین کا وعدہ کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ’’ونجیناہ و لوطا الی الارض التی بارکنا فیھا للعالمین ‘‘دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے ’’وواعدناکم جانب الطور الایمن‘‘۔ خداوند تبارک و تعالی نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی (ص) کو معراج کی رات اسی مقدس جگہ کی سیر کرائی تھی جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ ’’سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی بارکنا حولہ‘‘ یعنی پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کی مسجد حرام سے مسجد اقصی سیر کرائی۔ ان تمام فضیلتوں کے علاوہ اس مقدس گھر ایک اور فضیلت بھی جس کی وجہ سے بیت المقدس کی فضیلت دوگنی ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ خانہ کعبہ سے پہلے یہ مسلمانوں کا قبلہ اول تھا اور تمام مسلمانوں پر واجب تھا کہ وہ اس مقدس گھر کی طرف رخ کر کے اپنی نمازیں بجا لائیں۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ان تمام فضیلتوں کے باوجود یہ مقدس جگہ ایک لمبے عرصے سے صہیونی انسان نما درندوں کے قبضے میں ہے اور مسلسل ان شیطان صفت لوگوں کی بےحرمتی کا شکار ہے۔ اس مقدس سرزمین میں صیہونیوں کی حکومت کا قیام اور بیت المقدس پر قابض رہنے کے لئے اسرائیلوں کو پہلے برطانیہ اور اس کے بعد امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سب سے پہلے برطانیہ نے ایک یہودی کو فلسطین کا اعلیٰ فوجی افسر مقرر کردیا اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم کو سرکاری طور پر یہودی ایجنسی تسلیم کرتے ہوئے صیہونی مہاجرین کے لئے فلسطین کا دروازہ پوری طرح کھول دیا اس طرح بے شمار یہودی مہاجرین فلسطین میں جمع ہونے شروع ہو گئے۔ برطانیہ نے ان کی مسلسل پشت پناہی کرتے ہوئے انہیں اپنے مدرسے کھولنے کی اجازت دی اور دل کھول کر ان مدارس کو کامیاب بنانے کے لئے اقتصادی مدد کی اس سے یہودیوں کی حوصلہ افزائی ہوگئی اور وہ ’’ہاگاتا ‘‘نامی تنظیم بنانے میں کامیاب ہوئے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ دنیا کا طاقت ور ملک بن کر ابھرا تو یہ مسلمانوں کے لئے نیک شگون نہ تھا کیونکہ اس کے تمامتر اقتصادی مفادات مشرق وسطی سے وابستہ تھے۔ امریکہ کے دنیا میں ایک طاقتور ترین ملک کے طور پر ابرتے ہی صیہونی استعمار کو تیس برس تک برطانیہ کی بھرپور حمایت حاصل کرنے کے بعد ایک اور طاقت امریکہ کی شکل میں ملی جس نے اپنی مسلسل حمایت کے ذریعے اور دنیا کے دیگر یہودیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کے ناجائز وجود کو مستحکم کر دیا۔ جس کی بناء پر اسرائیل آج تک اپنی وحشی فوج کے ذریعے فلسطین کے مسلمانوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہا ہے۔ وہاں پر ہونے والے مظالم کسی سے مخفی نہیں روزانہ ہزاروں لوگوں کو بےگھر کیا جاتا ہے وہاں کا بچہ بچہ اسرائیلیوں کے ظلم و بربریت کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود بقول رہبر انقلاب اسلامی ایران آیۃاللہ خامنہ ای کے کہ عالمی میڈیا ظالم اسرائیل کو مظلوم اور فلسطین کے نہتے مسلماں جو اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہیں کو ظالم بنا کر پیش کر رہا ہے۔ دوسری طرف نام نہاد مسلمانوں پر نظر کی جائے تو وہ ان تمام مظالم کو روز اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اسلامی ممالک کے سربراہوں کی یہ طویل خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لوگ بھی استعماری طاقتوں کے ساتھ خفیہ طور پر ساز باز رکھتے ہیں ورنہ پورے عالم اسلام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل آئے اور منحوس اسرائیلوں کو درندگی سے باز رہنے نیز قبلہ اول کی آذادی کے لئے عملی جدوجہد کرے۔ ہماری جانیں قربان ہوں رہبر کبیر مجاہد اعظم حضرت امام خمینی (رہ) کی بابصیرت قیادت و رہبری پر جنہوں نے ہر قسم کے مسلکی اختلافات سے بالاتر ہوکر پہلی بار منحوس اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے مظلوم عوام کی حق میں آواز بلند کی اور صرف یہی نہیں بلکہ جمعۃ الوداع کو خصوصا یوم قدس کے طور پر منانے کی اپیل کی اور اس دن کو یوم اسلام سے تعبیر کیا۔ یوم قدس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ’’قدس وہ دن ہے جس دن پسماندہ اقوام عالم کو ان کی قسمت کا علم ہو سکے گا اور وہ اپنی قسمت سازی کا فیصلہ خود کریں سکیں گی۔ یہی وہ دن ہے جب ہم سب لوگوں کو ہمت و حوصلے سے کام لیتے ہوئے بیت المقدس کی آذادی کی فکر کرنی چاہیے۔

امام خمینی نے یوم قدس کو حق اور باطل کے درمیان علیحدگی کا دن قرار دیا اور مسلمانوں سے تاکید کی کہ وہ دنیا کے جس کونے پر بھی ہوں قدس کے دن اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں اور قبلہ اول کی آزادی اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کریں۔ یقیناً امام خمینی کا مقصد صرف روایتی طور پر ایک دن کا منانا نہیں تھا بلکہ امام کا مقصد یہ تھا کہ اس دن مسلمانوں کو قبلہ اول کی یاد تازہ ہو اور ایک نئے جوش و ولولے کے ساتھ اس کی آزادی کے لئے عملی کام کرے۔ لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت یا تو اس دن کو مناتی ہی نہیں ہے اور اگر کچھ لوگ محدود پیمانے پر مناتے بھی ہیں تو صرف چند ایک نعروں پر اکتفا کرکے چلے جاتے ہیں اور مسئلہ فلسطین یوں کا توں رہ جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ تمام مسلمان بلا تفریق مسلک و مذہب کے یک زبان ہو کر اس دن کو منائے اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرے خود امام خمینی نے فرمایا ’’اگر دنیا کے تمام مسلمان متحد ہو کر اسرائیل کے اور ایک ایک بالٹی پانی کا گرا دے تو یہ اس منحوس کا وجود ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا‘‘ لیکن کیا ایک دوسرے کے خون کے پیاسے مسلمانوں سے یہ ممکن ہے کہ وہ متحد ہو جائے؟ ہرگز نہیں۔ 

آج بین الاقوامی سطح پر مسلمان قوم تو ہے جو ہر جگہ ظلم و ستم کا نشانہ بن رہی ہے آج مسلمانوں کے درمیان صرف مسئلہ فلسطین ہی نہیں رہا بلکہ ان کی نا اتفاقی کی وجہ سے کئی اور مسائل بھی پیدا ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس قدر سخت ترین حالات سے دوچار ہونے کے باوجود مسلمانوں کی غفلت کا یہ عالم ہے کہ یہ لوگ آئے دن خود ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر خود مسلمانوں کے مسجدوں اور امام بارگاہوں پر خود کش حملے کرنے میں مصروف ہیں۔ ابھی وقت ہے کہ مسلمان ہوش کے ناخن لے اور عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کے لئے درپیش مسائل کے حل کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کر لے ورنہ نہ معلوم آنے والے دنوں میں مسئلہ فلسطین، مسئلہ عراق، مسئلہ کشمیر اور مسئلہ افغانستان کی طرح کتنے اور مسائل پیدا ہوں گے اور خدا نخواستہ کوئی ایسا دن آئے تو ہم مسلمان ان مسائل میں ہر ایک کے لئے ایک مخصوص دن مناتے ہی رہ جائیں گے اور عالمی استعمار اور صیہونی طاقتیں پورے عالم اسلام پر اپنا تسلط جمائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 289495
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش