4
0
Monday 5 Aug 2013 03:31

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
تحریر: ممتاز ملک

5 اگست 1988ء کا دن تھا، ساون کا موسم تھا، تقریباً دن 10 بجے میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ آموں کے باغ سے توڑے ہوئے چونسے اور فجری کے آموں کو گھر میں بیٹھ کر Karats میں پیک کرنے میں مصروف تھا کہ اچانک میرا کزن پریشانی کے عالم میں دوڑتا ہوا آیا اور اماں جان سے پوچھا کہ بھائی کہاں ہے، اماں نے کزن کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو وہ بولا کہ چچی جان آج ہمارے ملک و ملت کا بہت بڑا نقصان ہوگیا ہے، بھائی کے کانوں میں یہ آواز پہنچنی ہی تھی کہ وہ کمرے سے باہر لپکے اور پوچھا خیر تو ہے، کزن نے روتے ہوئے بتایا آج صبح نماز فجر کے وقت سید عارف حسین کو پشاور میں شہید کر دیا گیا ہے، بھائی کا یہ سننا تھا کہ وہ فوراً پشاور کے لئے روانہ ہوگیا، تاکہ اس عظیم انسان کا آخری دیدار کر لیا جائے۔
 
مجھے یاد ہے جب میں نے یہ شہادت کی خبر سنی تو فوراً قرآن مجید کو اُٹھا کر سینے سے لگایا اور رو رو کر دُعا کرنے لگا کہ خدایا تجھے اپنی اس عظیم و پاک کتاب کا واسطہ عارف حسین کے قاتلوں کو واصل جہنم فرما اور اس طرح کی دُعا کی صدائیں لاکھوں دلوں سے اُٹھ رہی تھیں۔ 17 اگست کو ضیاءالحق امریکہ کے بنے ہوئے M-1ابراھام ٹینکوں کا معائنہ کرنے کے لئے خیرپور ٹامیوالی فائرنگ رینج پہنچے۔ اُن کے ساتھ جوائنٹ آرمی چیف آف اسٹاف جنرل اختر عبدالرحمن، امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور پاکستان میں امریکی ملٹری مشن کے بریگیڈئر جنرل ہربرٹ واسم بھی تھے، واپسی پر پہاولپور سے اسلام آباد روانگی کے لئے ٹیک آف کے بعد چند منٹوں میں اُن کا چار انجن کا ہرکولیس C-130 طیارہ لڑکھڑاتا ہوا زمین دوز ہو کر شعلوں میں تبدیل ہوگیا اور جہاز میں سوار تمام مسافروں کی باقیات ناقابل شناخت ہوگئیں۔
 
ضیاءالحق کی موت ابھی تک بھی پردہ اسرار میں ہے، لیکن چند زمینی حقائق اُن کی موت کا سبب بتائے جاتے ہیں، ایک تو اُن کا روس کے خلاف افغان جہاد میں حد سے زیادہ ملوث ہو جانا، راولپنڈی کے اُوجڑی کیمپ میں دھماکے اور تیسرا سید عارف حسین کا قتل بھی اُن کے ذمے لگایا گیا۔ برحال سید عارف حسین کے قتل میں ملوث تمام تر افراد اپنے انجام کو پہنچے، جس میں اُس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر فضل حق بھی شامل تھے۔ شہید عارف الحسینی کی نماز جنازہ امام خمینی (رہ) کی طرف سے بھیجے گئے نمائندے آیت اللہ جنتی کی اقتداء میں ادا کرنے کے بعد جسد مبارک کو اُن کے آبائی گاؤں پیواڑ پارا چنار روانہ کر دیا گیا، جہاں اُن کی تدفین کر دی گئی۔
 
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ شہید عارف حسینی کی شجاع اور باصلاحیت قیادت سے جہاں استعماری قوتوں پر لرزہ طاری تھا، وہاں کچھ اپنے بھی اُن سے نالاں اور حسد میں مبتلا تھے اور قیادت کو اپنا حق سمجھتے تھے، لیکن اُن کی جولائی 1987ء کی مینار پاکستان پر کی گئی تقریر جو کہ آزاد خارجہ پالیسی، ملکی معاملات میں بیرونی مداخلت کا خاتمہ، مضبوط معیشت اور وطن عزیز کے تمام افراد کو اُن کے مذہبی عقائد کے مطابق حقوق دینے کی بات سامنے آئی تو اُن کی شہادت نوشتہ دیوار بن گئی، لیکن آج بھی شہید عارف حسین کے پروانے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اُنکی فکر کو قوم کے دلوں اور اذہان تک پہچانے میں مصروف ہیں۔
اُسے یہ فکر ہے ہر دم نیا طرز جفا کیا ہے
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
خبر کا کوڈ : 289782
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

meri milat k shareef ulma-e-karam sa mukhlesana aur dardmandana apeal ha k is mazloom Quaid k khoon ka wasta apas ma mil beth kr milat ko lawris kr k qatal honay sa bacha lo plzzzz
usay yh fikr ha hr dam naya tarz-e-jafa kiya hai ---hmain yh shoq hai dekhain sitam ki intaha kiya hai bahut hi khoob g....
shaheed airif hussian pakistan ma wilayat-e-faqih k real aur clear aashiq thay...
very nice column agha jan
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش