0
Monday 5 Aug 2013 03:53

جان کیری کا حالیہ دورہ پاکستان

جان کیری کا حالیہ دورہ پاکستان
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم 

جان کیری کا تعلق امریکہ کی ریاست Massachusetts سے ہے۔ ان کو امریکہ کا 68th وزیر خارجہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس سے پہلے 2004ء کے صدارتی انتخاب میں جان کیری سابق صدر جارج بش کے مقابلے میں امریکہ کے صدارتی امیدوار بھی تھے۔ جان کیری نے 1966ء میں بطور نیول آفیسر امریکی نیوی میں ملازمت اختیار کی تو سیدھے ویت نام پہنچ گئے، جہاں انہوں نے چار سال جنگ میں بطور ایک جونیئر آفیسر حصہ لیا تو ان کو اندازہ ہوا کہ ویت نام جنگ امریکہ کے لئے کتنی بے سود جنگ تھی۔ ان کے خیال میں ویت نام میں امریکہ کا کوئی فوجی مفاد تھا نہ معاشی، اور نہ ہی ویت نام کی طرف سے امریکہ کی قومی سلامتی یا ملکی مفادات کو کوئی خطرہ تھا۔ اس سوچ کے ساتھ 1970ء کے بعد انھوں نے ویت نام جنگ کے خلاف زبردست مہم کا آغاز کیا تو فوجی ماہرین نے جان کیری کا کورٹ مارشل کرنے کی سفارش اس لئے کر دی کیونکہ جان کیری اس وقت امریکہ کی ریزرو فوج کا حصہ ہونے کے ناطے قانوناً ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ 

سیاسی قیادت نے بہرحال جان کیری کے خلاف کسی بھی کارروائی سے گریز کیا۔ اس کے بعد جان کیری نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تو 1983ء میں لیفٹیننٹ گورنر بن گئے اور اس کے بعد 1985ء میں امریکی سینیٹ کے رکن منتخب ہوگئے اور پچھلے 28 سالوں سے ان کے پاس یہ اعزاز موجود ہے۔ جان کیری نے 1998ء میں بل کلنٹن کے افغانستان اور سوڈان پر کئے جانے والے کروز میزائلوں سے حملوں کی حمایت کی تھی، چونکہ یہ حملے دہشت گردوں کے خلاف تھے، لیکن جان کیری ویت نام جیسی بے سود جنگوں کے بالکل خلاف تھے اور آج بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2004ء کے صدارتی انتخاب میں جان کیری کی انتخابی مہم کا ایک اہم نقطہ بش کے عراق پر حملے کی مذمت تھا۔ جان کیری کے خیال میں امریکی سیاسی قیادت کو افغانستان پر یلغار کے بعد تورا بورا کے علاقے میں اسامہ بن لادن کے گروہ کو ختم کرکے واپس امریکہ آجانا چاہئے تھا۔ جارج بش نہ صرف اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں ناکام رہا بلکہ افغانستان کے کام کو ادھورا چھوڑ کر صدام حسین کے بڑی تباہی کرنے والے ان خطرناک ہتھیاروں کے پیچھے دوڑ پڑا جن کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ بات امریکہ کی ہزیمت کا سبب بنی۔
 
جان کیری کا حالیہ دورہ پاکستان میرے خیال میں سفارتی سطح پر پاک امریکہ تعلقات میں بہتری لانے کی ایک اچھی ابتدا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سوچ کو مندرجہ ذیل حالات و واقعات تقویت دیتے ہیں۔
1) جان کیری جو پچھلے چار سالوں سے امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، ایک بہت منجھے ہوئے سیاست دان اور سٹیٹ پرسن مانے جاتے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پر جب ان سے سوال کیا گیا کہ اب آپ کے پاکستان سے کیا مطالبات ہیں تو اس کا فوراً جواب یہ تھا کہ دوستوں سے مطالبے نہیں کئے جاتے۔ ہم مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالینگے، حالانکہ قارئین کو یاد ہوگا کہ ہیلری کلنٹن نہایت رعونت کے ساتھ Do More کا ورد کرتی تھیں۔ ہماری ایک خاتون صحافی نے ان کو ایک ایسی ساس کہا تھا جن کو مطمئن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔

 2) دوسری بڑی ماحول میں تبدیلی یہ ہے کہ اب امریکہ کو افغانستان میں اپنی ناکامی کا مکمل یقین ہوچکا ہے۔ 
3) امریکہ کو اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ کرزئی حکومت کرپٹ اور ملکی معاملات چلانے کے لئے نااہل ہے، اس کے علاوہ اس میں بھی شک نہیں کہ امریکی انخلاء کے بعد افغان نیشنل فورس بھی طالبان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کے ساتھ مل جائے گی۔
 4) امریکہ افغانستان میں ضرور پانچ چھ ہوائی اڈوں پر اپنی دس سے پندرہ ہزار فوج رکھنے کا متمنی ہے اور وہ تقریباً چھ CIA کے سنٹر چلانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہا ہے لیکن اگر افغانیوں نے ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج کو افغانستان میں ناکوں چنے چبوا د یئے تو وہ ان اڈوں کو کیسے چلنے دیں گے۔
 
قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک لاکھ سے بھی زیادہ امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود خوست میں CIA کے بہت ہی اہم حساس مرکز کے اندر گھس کر طالبان نے CIA کے چھ سات نہایت تجربہ کار اسٹاف ممبرز کو ہلاک کر دیا تھا۔ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں کسی بھی صورت میں بیرونی افواج کی موجودگی ایک بہت مشکل کام ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان، جاپان ہے نہ کوریا، جن کو امریکہ نے باقاعدہ فتح کیا اور آج بھی وہاں امریکی اڈے موجود ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا افغانستان میں ممکن نہیں اور خصوصاً ایسے حالات میں جب امریکہ کو افغانستان میں شکست ہوچکی ہے۔
 
5) پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری کی نوید کی ایک کرن پاکستان میں عوامی خواہشات کی ترجمان ایک نئی حکومت ہے، جس کے لیڈر میاں محمد نواز شریف نے امور خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور جو افغانستان سے ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے بھی ایک دیرپا امن کی خواہشات کا بار بار ذکر کرچکے ہیں جو قابل تعریف ہے۔ 
قارئین حالات بہتر کرنے کے لئے Political Will ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے، لیکن ایسی مضبوط سیاسی رضا کا اظہار دونوں اطراف سے ہونا ضروری ہے۔
 
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو یہاں امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد امن آسکتا ہے، بشرطیکہ امریکی انخلاء خطے کے سارے ممالک کے صلاح مشورے سے ہو۔ دوسرا یہ کہ عبوری دور میں بین الاقوامی امن فوج افغانستان میں آزادانہ انتخابات کروائے۔ تیسرا یہ کہ طالبان کو ان انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہو۔ چوتھا یہ کہ امریکہ افغانستان سے انخلاء کے لئے Zero Option یعنی مکمل انخلاء پر عمل درآمد کرے۔ اگر ایسا نہ ہو تو بدقسمتی سے امریکی انخلاء کے بعد بھی افغانستان میں خانہ جنگی جاری رہے گی۔ چونکہ
 1) امریکہ کی نگرانی میں منتخب ہونے والی نئی افغان حکومت بھی کرزئی کی حکومت کی طرح غیر موثر اور کرپٹ ہوگی۔ 
2) افغان نیشنل فورس جس میں آرمی، ایئر فورس اور نیوی شامل ہیں، افغانستان کے حالات کو قابو میں رکھنے کے اہل نہیں۔
 3) طالبان جنہوں نے افغانستان میں اتحادیوں کی فوج کو شکست دی، کی طاقت کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد طالبان کرزئی کے حامی وار لارڈز کے خلاف ضرور نبرآزما ہوجائینگے۔
 
ایسی صورت حال میں پڑوسی پاکستان کی فضاء کا ابر آلود ہونے سے بچنا بہرحال مشکل ہوگا۔ افغان مہاجرین کا پاکستان پر دباؤ بڑھیگا، جرائم پیشہ لوگ اور مذہبی جنونی پاکستان میں دھماکے کرکے طالبان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے رہیں گے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو 2014ء کا انتظار کئے بغیر اپنی تیاری ابھی سے شروع کر دینی چاہئے، تاکہ خطے کے لئے تمام Stake Holders کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قابل قبول حل تلاش کر لیا جائے۔ یہ ساری جنگ سیاسی اور سفارتی محاذوں پر لڑنے کے لئے پاکستان اور بالخصوص امریکہ کی سیاسی قیادت کے کندھوں پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ امید ہے وہ اپنی اس ذمہ داری سے عہدہ براہ ہونے کی پوری کوشش کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 289785
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش