0
Monday 5 Aug 2013 16:18

جان کیری کا دورہ پاکستان اور پاکستانی موقف

جان کیری کا دورہ پاکستان اور پاکستانی موقف
تحریر: تصور حسین شہزاد

اپنے دورہ پاکستان پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ اوباما دہشت گردوں کیخلاف براہ راست امریکی کارروائیوں کے حوالے سے ایک واضح اور جوابدہ پالیسی پیش کرچکے ہیں۔ امریکہ دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ چاہتا ہے کیونکہ دہشت گرد امریکہ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بھی دشمن ہیں۔ پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اس کی وجہ ڈرونز حملے نہیں بلکہ وہ دہشت گرد ہیں جو پاکستان میں خودکش حملوں کے ذریعے پاکستان کی خودمختاری و سلامتی پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی و خود مختاری ڈرونز حملوں سے نہیں بلکہ دہشت گردوں کی کارروائیوں سے مجروح ہوتی ہے جب تک پاکستان انتہا پسندی پر قابو نہیں پاتا اپنی معیشت بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

امریکی وزیر خارجہ نے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں پاک امریکہ اسٹریٹجک تعلقات کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی امریکی فوجیں موجود رہیں گی، جو دہشت گردی کے خاتمہ اور افغان افواج کی تربیت کیلئے کام کریں گی۔ ہم پاکستان کیساتھ مل کر افغانستان اور پاکستانی عوام کو تحفظ فراہم کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ اپنے تقرر اور پاکستان میں نئی جمہوری حکومت کے قیام کے بعد پہلی بار دورہ پاکستان پر آئے، اس دوران انہوں نے صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی و ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ بھی ایک خفیہ ملاقات کی اور ان تمام ملاقاتوں میں انہیں پاکستان کی عسکری و سول قیادت ایک ہی مطالبہ کرتی نظر آئی کہ پاکستان میں امریکہ ڈرونز حملے بند کرے، کیونکہ یہ حملے نہ صرف پاکستان کی قومی سلامتی و خودمختاری کیخلاف ہیں، بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔

یوں بھی نو سال میں سینکڑوں حملے کرنے کے باوجود امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا البتہ پاکستان میں ڈرونز حملوں کے متاثرین نے جو تباہی پھیلائی ہے اس سے پاکستان کی معیشت کی چولیں ہل کر رہ گئی ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت نے اس بری طرح اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ پاکستان برسوں تک دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ازالہ نہیں کر سکتا۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتا ہے تو اسے فوری طور پر ڈرونز حملوں کی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اب پاکستان نے امریکہ کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ نئی جمہوری حکومت دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کیلئے پرعزم ہے اور ایک نئی قومی پالیسی وضع کر رہی ہے۔ پاکستان نے قبائلی علاقوں کی مختلف ایجنسیوں میں فوج تعینات کر رکھی ہے، البتہ پاکستان قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا امریکہ اس حوالے سے پاکستان کی معذرت قبول کرے۔

امریکی وزیر خارجہ کی قومی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں ابھرنے والا فکری وحدت کا تاثر خوش آئند ہے اور قوم کیلئے نوید مسرت بھی کہ جمہوریت کے تسلسل کی برکت سے یہ موقع آگیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کا زیردست ہونے کے باوجود اس کے سامنے معذرت خواہانہ لہجے میں بات کرنے کی بجائے بڑے باوقار انداز میں اپنی مجبوریاں اور مسائل بیان کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ بے شک امریکی حکام پاکستان کی مجبوریوں کو نظرانداز کرنے اور اپنی من مانی کرنے پر بضد نظر آتے ہیں مگر پاکستان نے بھی کھلے لفظوں میں بتا دیا ہے کہ پاک ایران گیس سمجھوتے پر عملدرآمد قومی ضروریات کیلئے ناگزیر ہے۔ اگرچہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے احسان جتا دیا ہے کہ پاکستان اس وقت بھی امریکہ کی مہیا کی گئی توانائی سے استفادہ کر رہا ہے اور مستقبل میں امریکہ توانائی کے شعبہ میں پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا اور اسے معاشی بحران سے نکالنے کیلئے بھی اس کے منصوبے زیر عمل ہیں، تاہم اس کے باوجود پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے امریکہ کو باور کرا دیا گیا ہے کہ خطہ میں قیام امن کیلئے پاکستان کا بھارت سمیت دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارتی و اقتصادی روابط قائم رکھنا بھی ازحد ضروری ہے، خاص طور پر ایران اور چین کیساتھ پاکستان کے اقتصادی و توانائی کے شعبہ میں معاہدے ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ناگزیر ہیں۔

امریکہ نے بے شک دوٹوک لہجے میں پاکستان کی مجبوریوں کو درخور اعتناء جاننے کا عندیہ نہیں دیا، البتہ اسے احساس ضرور ہوگیا ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کے تحت کئے گئے فیصلوں پر جلدی سے نظرثانی کرنے پر تیار نہیں، اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے دورہ چین کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے کہ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان سے قبل چین کا دورہ کیوں کیا تھا۔ پاک چین باہمی روابط کا فروغ استحکام پاکستان کیلئے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ افغان جنگ نے پاکستان کو سخت امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ امریکہ دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کی زبانی کلامی تعریف تو کرتا ہے مگر 2014ء میں افغانستان سے انخلاء کے بعد کے منظرنامے میں پاکستان پر بھارت کو ترجیح دے رہا ہے، حالانکہ اسے بات کا مکمل ادراک ہے کہ پاکستان، افغانستان میں بھارت کی موجودگی کو فاٹا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے پھیلاؤ کا شاخسانہ قرار دیتا ہے۔

امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد بھارت کے اثر و رسوخ کا نفاذ اس کیلئے قابل قبول نہیں کیونکہ بھارت اور افغانستان کی کرزئی حکومت مل کر پاکستان کیلئے درد سری کا باعث بنے رہیں گے۔ گو کہ امریکہ پاک بھارت تعلقات میں بھی خیرسگالی کا خواہش مند ہے اور پاکستان کی نئی حکومت بھی اس کیلئے کوشاں ہے، تاہم اب تک کی صورتحال کچھ اتنی زیادہ حوصلہ افزا نہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں شگوفے کھلیں اور انگارے گرنا بند ہو جائیں، اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے حالات و واقعات کا زمینی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیکر امریکہ مستقبل کی پالیسی وضع کرے۔

صدر اوباما کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کے دورہ امریکہ کی دعوت ان کی جانب سے نئی جمہوری حکومت کیلئے نیک تمناؤں کے اظہار سے عبارت ہے، وہ جانتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف ستمبر میں نیویارک تو آ ہی رہے ہیں، وہ اس موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے، ان کے اس ممکنہ دورہ امریکہ کے موقع پر جہاں ان کی دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں کا امکان ہے وہیں اگر صدر اوباما کے ساتھ ملاقات کو باقاعدہ بنا دیا جائے تو اس سے پاک امریکہ اسٹریٹجک تعلقات بحالی کا تاثر بہتر طور پر نمایاں ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کیلئے یہ یقیناً ایک اچھا موقع ہے کہ وہ پاکستان کے کیس کو مضبوط طریقہ سے عالمی سطح پر موثر انداز میں پیش کرکے دنیا کو بتائیں کہ وہ پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ کی قربانیوں کا اعتراف کرکے اسے اندرونی و بیرونی طور پر محفوظ بنانے میں ہماری دامے، درمے، سخنے مدد کریں۔
خبر کا کوڈ : 289883
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش