0
Thursday 8 Aug 2013 23:21

قدس شریف کی آزادی کا جامع روڈمیپ

قدس شریف کی آزادی کا جامع روڈمیپ
تحریر: سعداللہ زارعی

اسلام ٹائمز- "قدس شریف کو کون اور کیسے آزادی دلائے گا؟" یہ وہ انتہائی بنیادی سوال ہے جو گذشتہ سات عشروں سے اسلامی دنیا کے ہر گوشے میں سنا جا سکتا ہے۔ اس سوال کی موجودگی بذات خود اس یقین محکم کو ظاہر کرتی ہے کہ قدس شریف کو آخرکار آزادی نصیب ہو کر ہی رہے گی اور آزادی فلسطین اسلامی دنیا کی ایک مشترکہ آرزو ہے۔ دنیا میں کسی بھی جگہ بسنے والا ایک مسلمان شخص چاہے وہ اقلیت ہی کا حصہ کیوں نہ ہو، بیت المقدس کی آزادی کو ضروری جاننے اور اس ضمن میں اپنے اوپر شرعی وظیفہ کا احساس کرنے میں ذرہ بھر شک و تردید کا شکار نہیں ہو سکتا۔ اگر آج بیت المقدس غاصب صہیونیستی رژیم کے دارالحکومت میں تبدیل نہیں ہوا اور اگر آج بھی فلسطینی مسلمان مسجد اقصی میں نماز ادا کرنے پر قادر ہیں تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہ احساس ہے جو مسلمانان عالم میں پایا جاتا ہے۔ بیت المقدس پر یہودیوں کا مکمل قبضہ اور مسلمانوں کو مکمل طور وہاں سے بے دخل کر دیا جانا عالم اسلام میں ایک عظیم دھماکے کا باعث بن سکتا ہے جس کے نتائج کو برداشت کرنا مغربی دنیا کے بس کی بات نہیں۔ لہذا امریکی حکام نے ہمیشہ سے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے اس مطالبے کی بھرپور مخالفت کی ہے۔ 
 
دوسری طرف اسرائیل کا دعوا ہے کہ بیت المقدس سمیت فسلطین کی تمام سرزمین پر اس کا مکمل قبضہ ہونا چاہئے۔ اسرائیل کی بانی شخصیات کی نظر میں جب تک بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں ہے اس وقت تک فلسطین کے باقی حصوں اور حتی ہمسایہ عرب ممالک پر اسرائیلی قبضے کے باوجود اسرائیل میں سیاسی استحکام وجود میں نہیں آ سکتا۔ کیونکہ قدس شریف اور اس سے ملحقہ مقدس مقامات جیسے قبہ الصخرہ اور مسجد اقصی ہمیشہ مسلمانوں کو اس تلخ حقیقت کی یاددہانی کرواتے رہیں گے کہ یہ سرزمین یہودیوں کی جانب سے غصب شدہ ہے اور یہی سوچ بالآخر اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے خلاف ایک عظیم تحریک کے جنم لینے کا باعث بن سکتی ہے۔ 
 
اسرائیلی حکام حقیقی طور پر مستقبل کے حالات سے بے خبر ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ گذشتہ دو تین صدیوں کے دوران خطے میں کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں اور اس دوران کتنی تحریکوں نے اس خطے میں جنم لیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس خطے میں کتنی تیزی سے سیاسی حالات تبدیل ہوتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایران جسے امریکی حکام "استحکام کا جزیرہ" قرار دیتے تھے کس تیزی کے ساتھ ایک عالم گیر اسلامی انقلاب کے مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ وہ اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتے کہ گذشتہ تیس سالوں سے مغربی اور عرب ممالک کی شدید مخالفت اور دشمنی کے باوجود "اسلامی جمہوریہ ایران" قائم و دائم ہے جس کا سب سے بڑا مطالبہ عالمی نقشے سے اسرائیل کو محو کرنا ہے۔ ابھی کچھ دن قبل ہی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی خارجہ سیاست کا اسرائیل کے حق میں تبدیل ہو جانے کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی اور ایسی سوچ ایک وہم کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسرائیلی حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوامی تحریکوں نے شمالی افریقہ کے ممالک تیونس، مصر اور لیبیا میں کتنی آسانی اور سادگی سے بن علی، حسنی مبارک اور معمر قذافی کی آمرانہ حکومتوں کا تختہ الٹ کر رکھ دیا جبکہ یہ حکومتیں خطے کی مضبوط ترین حکومتیں تصور کی جاتی تھیں۔ اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم کو اچھی طرح اس بات کا علم ہے کہ ایک چھوٹا سا اسلامی گروہ اس کے خلاف میدان میں آیا جو آج دنیا میں اسرائیل کا طاقتور ترین دشمن جانا جاتا ہے۔ اسرائیلی حکام اب تک 1996ء اور 2000ء کے درمیان لبنان میں اپنی عبرت ناک ناکامیوں کا مزہ نہیں بھول سکے۔ 
 
اسرائیلی حکام کو یمن میں الحوثی گروپ اور اس میں شامل افراد کے جوش و جذبے کا بھی اچھی طرح علم ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس گروہ کے جنگجو اسرائیل سے مقابلہ کرنے کی مشق کر رہے ہیں اور اسرائیل سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرنا ان کی دلی آرزو ہے۔ اسرائیلی حکام عراق میں موجود صدری مجاہدین اور بدری جنگجووں سے بھی اچھی طرح واقف ہیں اور ان کی اسرائیل سے شدید دشمنی کا بھی علم رکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ کشمیری اور بحرینی جوانوں کے انقلابی جوش و خروش سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ انقلابی جوان اسرائیل کے خلاف جہاد کے آغاز کیلئے لحظہ شماری کر رہے ہیں۔ اور آخرکار یہ کہ اسرائیلی حکام ایران میں موجود کروڑوں بسیجی جوانوں کے جذبہ جہاد سے اچھی طرح واقف ہیں اور اسرائیل کے ساتھ نبرد آزما ہونے کیلئے دن گن رہے ہیں اور صبح شام اسی انتظار میں ہیں کہ انہیں کب اس جہاد کی سعادت نصیب ہو گی۔ 
 
مندرجہ بالا نکات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسرائیل مغربی قوتوں کی بے دریغ حمایت اور بعض غدار عرب حکومتوں کے بھرپور تعاون سے برخوردار ہونے کے باوجود کس حد تک موجودہ حالات سے خطرے کا احساس کرتا ہے۔ اسرائیل نے مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے دو طرح کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ ایک یہ کہ سنیوں کے دفاع کے نام پر وہابی سوچ کے حامل انتہاپسند افراد اور گروہوں کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کی آگ بھڑکانا تاکہ اس طرح عالم اسلام میں موجود جہادی پوٹینشل کو کمزور کیا جا سکے۔ اسرائیل کی جانب سے اپنائی جانے والی دوسری حکمت عملی بیت المقدس پر مرحلہ وار اور تدریجی قبضہ کرنے پر مشتمل ہے۔ اس اسٹریٹجی کے تحت مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف بیت المقدس میں بسنے والے فلسطینی مسلمانوں کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ فلسطین اتھارٹی اور بعض عرب ممالک جیسے سعودی عرب اور قطر کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے تاکہ ایک طرف تو مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو قانونی ظاہر کیا جا سکے اور دوسری طرف فلسطین سے جلاوطن لاکھوں فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کے مسئلے کو فراموشی کی نظر کیا جا سکے۔ 

اگرچہ اسرائیل خود کو انتہائی مطمئن اور قاطع ظاہر کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے مستقبل کے بارے میں شدید پریشانی اور خطرہ لاحق ہے۔ حزب اللہ لبنان آج ایک ایسی قوت میں تبدیل ہو چکی ہے جس کا اثرورسوخ اور تسلط صرف فلسطین کی شمالی سرحدوں تک محدود نہیں رہا بلکہ فلسطین کی شمال مشرقی سرحدوں یعنی شام سے ملحقہ سرحد تک پھیل چکا ہے۔ خود اسرائیلی حکام بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان آج ہر وقت سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہو چکی ہے اور شام حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات مزید مستحکم ہو چکے ہیں اور وہ شام میں بھی آپریشنز انجام دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اسرائیل اس وقت مقبوضہ فلسطین کے اندر دو بڑے اور طاقتور دشمنوں سے روبرو ہے۔ اسرائیل کا پہلا دشمن حماس اور اسلامک جہاد کا اتحاد ہے جسے غزہ میں بسنے والے تقریبا 81 لاکھ فلسطینی مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے۔ فلسطینی سرزمین میں اسرائیل کا دوسرا بڑا دشمن چند فلسطینی بریگیڈز یا کتائب کا اتحاد ہے۔ یہ اتحاد اسرائیل کے ساتھ سازباز کرنے والے محمود عباس کے کنٹرول میں نہیں اور اسے مشرقی بیت المقدس اور کرانہ باختری میں بسنے والے تقریبا 25 لاکھ فلسطینی مسلمانوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ دو بڑے دشمن جس وقت بھی چاہیں اسرائیل کیلئے ایک بڑی جہنم تیار کر سکتے ہیں۔ 
 
اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم اسی طرح مصر اور اردن کے ساتھ ملحقہ اپنی طویل سرحدوں کی بابت بھی مطمئن نہیں۔ ایسا کوئی ہفتہ نہیں گذرتا جب اسرائیلی فوج کے چند سپاہی صحرای سینا میں سرگرم پراسرار مسلح گروہوں کے ہاتھوں قتل نہ ہوتے ہوں۔ صحرای سینا کا عظیم علاقہ جو کیمپ ڈیوڈ جیسے اسٹریٹجک معاہدے کا ایک اہم رکن تصور کیا جاتا ہے، عملی طور پر ایک آزاد علاقے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اگرچہ مصر آرمی اسرائیل کی خاطر اس علاقے میں امن و امان قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن اس آپریشن کی کامیابی کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ مصر آرمی گذشتہ کئی ہفتوں کے آپریشن کے بعد حتی فلسطینی علاقے ایلات کی سرحد پر واقع مصر کے ایک چھوٹے سے علاقے طابا میں امن و امان قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ طابا وہی علاقہ ہے جس کا کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں "بفر زون" کے عنوان سے خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ سیکورٹی ماہرین کی نظر میں صحرای سینا میں امن و امان کا قیام وہ اہم اور اسٹریٹجک مسئلہ ہے جو مصر آرمی کی سامنے ایک بڑے چیلنج کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے سے ہی مصر آرمی کی پروفیشنل صلاحیتوں کا صحیح اندازہ لگانا ممکن ہو گا۔ 

قدس شریف کو کون اور کیسے آزادی دلوائے گا؟ 1949ء میں اسرائیل کی جانب سے رسمی طور پر فلسطین پر اپنے قبضے کے اعلان سے قبل یہ تصور کیا جاتا تھا کہ علاقائی سطح پر ابھرنے والی تحریکوں، مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے مذہبی جوش و خروش اور حاج امین حسینی کی سربراہی میں مقدس مقامات کے انتظامات کی مسئول کمیٹی اسرائیل کو بیت المقدس اور اس سے ملحقہ مقدس مقامات پر قبضہ کرنے یا اس علاقے میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں لانے سے روکنے پر قادر ہے۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ واضح ہو گیا کہ اگرچہ مرحوم حاج امین کی مخلصانہ کوششوں اور فلسطینی مسلمانوں کی جانب سے مناسب ردعمل نے قدس شریف کے دفاع میں انتہائی اہم کردار ادا کیا لیکن اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم کو اس علاقے میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں لانے سے نہیں روک سکا۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اس دوران اسرائیلی گماشتوں نے بارہا بیت المقدس کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے اس پر حملہ کیا اور کئی دفعہ مسجد اقصی کو بھی نذر آتش کر دیا۔ 
 
اسرائیل کے منحوس وجود کا رسمی طور اعلان ہو جانے کے بعد دنیا کے مسلمانوں خاص طور پر عرب دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کا تصور یہ تھا کہ ایک "عربی اتحاد" کی تشکیل اور "عرب محرکات" کی مدد سے بیت المقدس کی مکمل آزادی اور اسرائیل کی شکست آخرکار ممکن ہو ہی جائے گی۔ اگر ہم فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے بعد ایک عشرے تک شائع ہونے والی عرب رہنماوں کی تقاریر یا عرب اخباروں میں شائع ہونے والے مقالات کا ایک مختصر جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ قدس شریف کو اسرائیلی تسلط سے آزادی دلانے کیلئے "عرب قومیت" کو سب سے اہم ہتھیار اور وسیلے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک انقلابی فلسطینی گروہ کی جانب سے 1952ء سے لے کر 1959ء تک لبنان میں شائع ہونے والا ایک اخبار "الثار" تھا۔ یہ اخبار جو ایک بڑا فلسطینی اخبار جانا جاتا تھا اپنے ایک مقالے میں لکھتا ہے:
"سرزمین فلسطین میں عربوں کی حکمرانی اور سیادت کو لوٹانے کا واحد راستہ مکمل قبضہ اور تسلط ہے، صرف اسی طریقے سے فلسطین کو یہودیانے کی منحوس سازش کو ناکام بنایا جا سکتا ہے"۔ 

اس دوران میں شائع ہونے والے عربی اخبار اور نشریات میں عرب محرکات پر انتہائی شدید انداز میں تاکید کی جاتی تھی۔ لیکن اس سب کے باوجود عرب دنیا کو عملی طور پر کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ آج بھی بعض فلسطینی رہنماوں کی جانب سے نیشنلزم پر مبنی نعرے لگائے جاتے ہیں اور عرب نیشنلزم کے آثار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حتی یہ قوم پرست جذبات حماس جیسی اسلامی تحریک میں بھی دیکھے گئے ہیں لیکن اب ان جذبات میں وہ انتہاپسندی اور شدت پسندی نہیں رہی جو 1950ء کی دہائی میں صدر جمال عبدالناصر، حافظ اسد اور شاہ فیصل جیسے عرب رہنماوں میں نظر آتی تھی۔ 
 
آج کم و بیش سب مسلمان اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ قدس شریف کی آزادی اور فلسطین کے دفاع کیلئے نہ تو محض عرب محرکات کافی ہیں اور نہ ہی محض مسلح جدوجہد، نہ محض سیاسی جدوجہد کافی ہے اور نہ ہی محض تنظیمی سرگرمیاں اور نہ ہی محض عوامی جدوجہد فلسطین کے دفاع اور قدس شریف کی آزادی کیلئے کافی ہے۔ فلسطین کی آزادی کیلئے امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے ایک ایسا جامع اور صحیح راستہ دکھایا ہے جو نہ صرف عرب قومیت یا تنظیمی طریقہ کار یا مسلح جدوجہد یا عوامی تحریک پر مبنی گذشتہ روڈ میپس کی نفی نہیں کرتا بلکہ ان سے زیادہ وسعت اور جامعیت کا حامل ہے۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی جانب سے پیش کیا جانا والا یہ روڈ میپ چند بنیادی ارکان پر مشتمل ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

1.    مقبوضہ فلسطین کی آزادی کی تمام راہیں قدس شریف کی آزادی پر تاکید سے شروع ہونی چاہئیں کیونکہ قدس شریف ایک طرف تو فلسطین کا دل ہے اور دوسری طرف قدس شریف کی آزادی کا مسئلہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کا خون کھول اٹھتا ہے۔ مزید یہ کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے بھی قدس شریف کا دفاع مکمل طور پر جائز اور قانونی دفاع تصور کیا جاتا ہے کیونکہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے بیت المقدس ایک بین الاقوامی آزاد علاقہ محسوب ہوتا ہے۔ 

2.    قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کی آزادی دنیا کے تمام آزادی پسند انسانوں بالخصوص مسلمانوں کا اہم وظیفہ بنتا ہے۔ فلسطین کی آزادی کی راہ میں ایک فلسطینی یا انڈونیشیائی یا مراکشی یا کسی اور ملک کے شہری مسلمان میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ 

3.    قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد مضبوط اسلامی محرکات کے تحت انجام پانی چاہئے جس کا مقصد اسلام کی طاقت کو دوبارہ زندہ کرنا ہونا چاہئے۔ 

4.    قدس شریف کی آزادی میں عالم اسلام کی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت میں حتی جنگ کے بغیر اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے محو کیا جا سکتا ہے۔ 

5.    چونکہ مقبوضہ فلسطین اور قدس شریف کے بارے میں مغربی اور صہیونیستی قوتوں کی منحوس سازشوں کو ناکام بنانے کی ضرورت انتہائی فوری ہے اور ایسا ممکن نہیں کہ جب تک عالم اسلام کی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بروئے کار نہیں لائی جاتیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا جائے، لہذا موجودہ حالات کے پیش نظر بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ آزاد اور خودمختار مسلمان اقوام اور ممالک ایمان اور اسلام کی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے عالمی شیطانی قوتوں کے مقابلے میں ڈٹے رہیں اور ساتھ ہی ساتھ عالم اسلام کو بیدار کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف رہیں۔ 

6.    ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مقبوضہ فلسطین اور قدس شریف کی آزادی عالم اسلام میں پائے جانے والے تمام مسائل کے حل کا پیش خیمہ ہے۔ لہذا دنیا کی تمام مسلمان اقوام کو "شیطان بزرگ امریکہ اور سپرپاورز کے تسلط اور غلامی سے مسلمانان عالم کو نجات اور آزادی دلانے" کو اپنا مشترکہ مقصد اور نصب العین قرار دینا چاہئے۔ 

7.    قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کی آزادی کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانان عالم اس حقیقت کو درک کرتے ہوئے کہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کا سب سے بڑا حامی ملک امریکہ ہے، اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی حکومتوں سے پرزور مطالبہ کریں کہ وہ امریکہ سے اپنے تعلقات ختم کر دیں اور امریکی منصوبوں کے خلاف ڈٹ جائیں۔ 

امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کا پیش کردہ روڈمیپ ایک انتہائی جامع اور وسیع روڈمیپ ہے جو تمام اسلامی فرقوں کے پیروکار افراد کیلئے قابل قبول ہے۔ لہذا اس روڈمیپ کو صحیح معنا میں "آزادی فلسطین کیلئے جامع روڈمیپ" قرار دیا جا سکتا ہے۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے اس روڈمیپ کو عالم اسلام میں ایک عمومی مطالبے میں تبدیل ہو جانا چاہئے اور صرف اسی صورت میں ہم قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کی آزادی اور مظلوم فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق واپس ملنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 290952
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش