0
Saturday 17 Aug 2013 07:45

ریاستی خوشحالی میں قیادت کا کردار

ریاستی خوشحالی میں قیادت کا کردار
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم

اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ قوموں کے عروج و زوال میں قانون کی حکمرانی، معیشت اور گورنیس کے معیار ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ مذکورہ بالا شعبوں میں اعلٰی معیار حاصل کرنے کا سارا دارومدار بہترین، اہل بصیرت، دانشمند اور انصاف پسند قائدین پر ہوتا ہے۔ اعلٰی قیادت اپنی ریاستوں کو بدترین معاشی بدحالی اور جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے بھی نکال سکتی ہے۔ اس لئے قوموں کے ارتقاء یا زوال کا موجب دراصل بہترین یا بدترین قائدین ہی بنتے ہیں۔ تیسری دنیا میں بدقستمی سے ہر سیاست دان اپنے آپ کو سیاسی قائد یا قومی لیڈر سمجھتا ہے، حالانکہ لیڈر شپ کے اوصاف خداداد عطیات ہیں، جو اللہ کی ذات کئی انسانوں پر نچھاور کرتی ہے۔ اس کے بعد انسان اپنی محنت سے اَن اوصاف کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی لیڈر شپ میں چمک پیدا کرتا ہے۔
 
اس کائنات میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے لیڈر تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے، جو اعلٰی ترین منصف، پائے کے ناظم اور بہترین سپاہ سالار ہونے کے علاوہ شفیق والد بھی تھے۔ انکساری اور عجز اتنا تھا کہ مکہ فتح کیا تو سرجھکا کر شہر میں داخل ہوئے اور ہتھیار رکھنے والے دشمن کا بھی کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہونے دیا۔ انصاف کی بات آئی تو کہا کہ اگر میر ی پیاری بیٹی پر بھی چوری کا الزام ثابت ہوگیا تو ہاتھ کٹے گا۔ قاضی سے ایسے انصاف کی توقع تھی کہ اگر وہ مدعی کی طرف دیکھ کر مسکرائے تو پھر وہ مدعا علیہ کی طرف دیکھ کر بھی مسکرائے۔ 
قارئین یہ بات سچ تو ہے کہ ہم لوگ نبی کریمؐ کی خاکِ پا بھی نہیں، لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ قرآن کریم اور حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعمال، ارشادات اور تبلیغ ہی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ اگر ہم یہ راز سمجھ جائیں کہ
’’حیات ہے شب تاریک میں شرر کے نمود‘‘
تو شائد پھر ہم اس عارضی بود و باش کو دائمی سمجھتے ہوئے وہ اہمیت نہ دیں جو ہم دیتے ہیں۔ 

پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم نے اللہ کے نام پر حاصل کی گئی اس ریاست کی معماری کرنے کے بجائے اس کو مسمار کیا ہے۔ لوگوں کی فلاح کی طرف دھیان نہیں دیا۔ انسانی حقوق کو بالائے طاق رکھا، کرپشن، کینہ پروری اور بدانتظامی سے معیشت کو تباہ کر دیا، چند سو روپے بھتہ لینے والوں سے لے کر کروڑوں اور اربوں روپے ہڑپ کرنے والوں سمیت سارے قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ پانچ سالہ جمہوری دور میں تقریباً ہر اہم عہدے پر مشکوک کردار کے دو نمبر لوگ بٹھائے گئے۔ ملک قرضوں میں ڈوب گیا، معیشت تباہ و برباد ہوگئی، انرجی کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا، سکیورٹی کے نظام میں ایسی دراڑیں پڑیں کہ کسی کا جان و مال محفوظ نہیں رہا۔ سپریم کورٹ نے بڑے بڑے کرپشن سکینڈل ضرور روکے، لیکن بحیثیت مجموعی عدل کا نظام مفلوج رہا۔ قاتل اور دہشتگرد سرعام وارداتیں کرکے بچ نکلتے ہیں۔ کئی سالوں سے محتسب کا عہدہ خالی ہے۔ 

حیرانگی اس بات کی ہے کہ سلیمان فاروقی جیسا ایک سینئر اور عمر رسیدہ سرکاری ملازم جس کے صدر کے سیکرٹری بننے پر لوگ معترض ہیں۔ وہ بھی وفاقی محتسب بننا چاہتا ہے۔ ایک باوقار سینئر سرکاری ملازم کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اگر کوئیNRO زدہ ہونے کا طعنہ دے تو اس کو رضا کارانہ طور پر کوئی بھی عہدہ اور خصوصاً محتسب کا منصب قبول کرنے سے معذرت کر لینی چاہیے، چہ جائیکہ آپ پچھلی تاریخوں کے جعلی کاغذات تیار کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ میرے جیسا موزوں شخص آپ کو اس عہدے کیلئے نہیں مل سکے گا۔ اللہ گواہ ہے آج سے تقریباً تیس سال قبل ایک سندھی وڈیرے نے حکومت کی طرف سے مجھے NAB کے چیئرمین کا عہدہ چند شرائط کے ساتھ قبول کرنے کو کہا تو میں نے معذرت کرلی، صرف اس سوچ کے ساتھ کہ عمر کے اس حصے میں اعلٰی اور اہم ترین عہدوں ہر بیٹھ کر آپ انصاف کی گارنٹی تو ہر کسی کو دے سکتے ہیں لیکن قیادت کی یہ بات نہیں مان سکتے کہ ہم آپ کو صدر مملکت، گورنر، چیف جسٹس، چیئرمین احتساب بیورو یا محتسب اعلٰی بنا رہے ہیں، صرف اس شرط پر کہ آپ وہی کچھ کریں گے، جو ہم کہیں گے اور لعنت ہے ایسے عہدے داروں پر جو اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کے لئے ناحق مسائل پیدا کرتے ہیں۔
 
بین الاقوامی تنہائی اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی اور سفارتکاری ناکام رہی۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں مکمل جمود رہا اور وزیراعظم نواز شریف کی نیک خواہشات کے باوجود ہندوستانی پارلیمنٹ میں پاکستان کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ افغانستان کی حکومت کو مکمل تعاون کی متعدد پیش کشوں کے باوجود صدر کرزئی پاکستان سے نالاں ہیں۔ امریکہ کا ہرجائز و ناجائز مطالبہ پورا کرنے اور 49000 لوگوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود امریکہ پاکستان پر اعتبار نہیں کرتا۔ اس خوفناک بیرونی صورتحال کا سارا الزام صرف بیرونی طاقتوں پر ڈالنا انصاف پسندی نہیں ہوگا۔ دراصل دیانت دارانہ رائے یہ کہتی ہے کہ ہم نے اپنے اندرونی اور بیرونی معاملات کو خدا خوفی اور پیشہ وارانہ مہارت اور سیاسی و سفارتی بصیرت سے نہیں چلایا۔ ان ساری خرابیوں کا الزام عوام یا اداروں کے اوپر نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس کی ساری ذمہ داری ملک کی اس قیادت کے کندھوں پر تھی جس کے ہاتھ میں ملکی اقتدار کی باگ دوڑ تھی۔ ایسی قیادت جس نے ہمیشہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے راستے بنائے اور ملکی مفادات کو داؤ پر لگا دیا اور اہم عہدوں پر وہ نالائق وفادار بٹھائے جو حق کی بات کرنے کی جرات سے عاری تھے۔
 
حالیہ عام انتخابات میں عوام نے اپنا ووٹ پاکستان مسلم لیگ کو دیا ہے، اس امید کے ساتھ کہ اب ہم ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ امید یہ کی جاتی ہے کہ میاں محمد نواز شریف پوری قوم کی دعاؤں کے ساتھ ان سب خطرات کا جرات اور دیانت داری سے مقابلہ کریں گے۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ تیزی سے بدلتی صورتِ حال کے ساتھ تیز رفتاری سے چلا جائے اور نہ صرف جلد اہم فیصلے بہت جلد کئے جائیں بلکہ خصوصاً بین الاقوامی منفی پراپیگنڈے کے توڑ کیلئے Precephion Management پر دھیان دیا جائے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ
"You have to run as fast as you can even to stay where you are"
یعنی دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ اگر آپ اپنی موجودہ جگہ بھی برقرار رکھنا چاہیں تو پھر بھی آپ کو تیز دوڑنا ہوگا۔
 قائداعظم کی وفات اور خان لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کر آج تک ہمارا مسئلہ صرف اہل قیادت کا فقدان ہے۔ کیا اب حالات بدل جائیں گے۔ میرے خیال میں انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 293200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش