2
0
Sunday 18 Aug 2013 12:24

ایران کا ایٹمی پروگرام اور ڈاکٹر روحانی

ایران کا ایٹمی پروگرام اور ڈاکٹر روحانی
تحریر: محمد علی نقوی
 
اسلامی جمہوریہ ایران میں نومنتخب صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے جب اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ اس سے اسلامی جمہوریہ ایران اور مغربی حکومتوں کے درمیان ایک بار پھر تعاون کے لیے موقع فراہم ہوا ہے۔ ان مبصرین کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی ایران کی اعلٰی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری کی حیثیت سے ایٹمی مسئلے سمیت یورپی یونین کے ساتھ جامع مذاکرات کی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں اور یورپی ممالک کے ساتھ سیاسی تعاون کے شعبے میں بھی سرگرم کردار ادا کرچکے ہیں اور اس میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نئے صدر نے ایٹمی مسئلے کے بارے میں ابھی تک شفاف موقف اور نظریات بیان کئے ہیں اور ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ ایٹمی مسئلے میں شفافیت کا مظاہرہ کیا جائے نہ کہ ملت ایران کے حقوق سے چشم پوشی اختیار کی جائے۔
 
اس بات کو سمجھنا دشوار اور پیچیدہ نہیں ہے، لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ میں موجود سیاسی طبقہ کہ جو صیہونی لابی کے زیراثر ہے اور اس کی ڈکٹیشن پر چلتا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ نام نہاد ایٹمی معاملے کے قالب میں اپنے غیر منطقی اور ناجائز مطالبات مسلط کرنا چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کئے گئے حالیہ بیان میں ایران کے ساتھ مذاکرات کو اس بات سے مشروط کیا گيا ہے کہ ایران اپنے تمام بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب ایران کے ساتھ مذاکرات کو صرف اپنی عینک سے دیکھتا ہے اور یہ یکطرفہ راستہ ہے اور اس غلط سوچ کو لوگوں تک پہنچایا جا رہا ہے کہ اعتماد سازی یکطرفہ راستہ ہے کہ جسے صرف ایران کو طے کرنا ہے، تاکہ مغرب کی خواہش پوری ہو سکے۔ دوسری جانب امریکی کانگریس ہر روز ایران کے خلاف پابندیوں کو سخت کرنے کے قانون پاس کر رہی ہے اور ان میں خاص طور پر ایران کی تیل کی صنعت اور دیگر صنعتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
 
یہ بات طے ہے کہ ایران نے نیک نیتی اور تعاون کے جذبے سے مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر حسن روحانی نے بھی کہا ہے کہ ایران ایک ایسا عمل شروع کرنے کا پختہ عزم رکھتا ہے جس سے دنیا مطمئن ہوجائے کہ ایران صرف پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی چاہتا ہے۔ انہوں نے حلف برداری کی تقریب میں اپنی تقریر کے دوران اعتماد کا باب کھولنے کی بات کی تھی لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ اعتماد سازی دو طرفہ راستہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے واضح طور پر کہا کہ ملت ایران کو پابندیوں کے ذریعے جھکنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے جنگ کی دھمکی دی جاسکتی ہے بلکہ ایران کے ساتھ تعاون کا واحد راستہ، برابری کی بنیاد پر گفتگو، باہمی اعتماد سازی، دو طرفہ احترام اور دشمنی کو کم کرنا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ایک رکن کے طور پر اس ایجنسی کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعاون کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف اس ایجنسی کے سربراہ یوکیا آمانو نے بھی امریکی ڈکٹیشن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بارہا کیا ہے۔ 

یوکیا آمانو نے حال ہی میں رشیا ٹو ڈے ٹی وی چینل کو ایران کے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں جو انٹرویو دیا ہے اس میں بھی اس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہ انٹرویو ایران میں ڈاکٹر حسن روحانی کی صدارت کے ابتدائی دنوں میں کیا گيا ہے۔ ڈاکٹر حسن روحانی نے چونکہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کو پرامن ثابت کرنے کے سلسلے میں زیادہ شفافیت پر تاکید کی ہے، اس لئے سیاسی حلقے اس کو اہم قرار دے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ ایٹمی تعاون کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان نئے مواقع سے کیا توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔؟
 
اس سلسلے میں یوکیا آمانو کا خيال ہے کہ ایران کے نئے صدر ڈاکٹر حسن روحانی ایٹمی امور کے بارے میں اچھی معلومات رکھتے ہیں۔ یوکیا آمانو نے کہا ہے کہ وہ اسی بنیاد پر ایران کے ساتھ مفید مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سلسلے میں مختلف عوامل موجود ہیں۔ اگرچہ یوکیا آمانو نے ان عوامل اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے مدنظر امور کی تفصیلات کے ذکر سے گریز کیا لیکن انھوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کہا کہ ہم نے کبھی بھی یہ نہیں کہا ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ہم نے یہ بھی کبھی نہیں کہا ہےکہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہم نے یہ کہا ہے کہ بعض سوالات ہیں جن کا ایران کو جواب دینا چاہیئے اور ان سوالوں کا جواب حاصل ہوئے بغیر ہم ان کو کلیئرنس نہیں دے سکتے ہیں اور آج بھی ہمارا یہی موقف ہے۔
 
یوکیا آمانو نے مزید کہا کہ سفارت کاری ایک ایسی روش ہے جو ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لئے اختیار کی ہے۔ یوکیا آمانو نے اس کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا کہ امریکہ جیسے ممالک بھی سفارتی حل کے خواہاں ہیں۔ اس لئے بہترین کام ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان مذاکرات کی ترغیب ہے۔ یہ بیانات در حقیقت یوکیا آمانو کے سابقہ بیانات کی تکرار ہی ہے، جن میں وہ ہر بار فوجی سائٹ پارچین کے معائنے جیسے مذاکرات کے ایجنڈے سے تعلق نہ رکھنے والے امور کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ 

ان مطالبات کو ایسی حالت میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ جب یورینیئم کی افزدوگی سمیت ایران کی تمام ایٹمی سرگرمیاں ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کی زیر نگرانی جاری ہیں۔ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی اس سے قبل سنہ دو ہزار پانچ میں دو بار پارچین سائٹ کا معائنہ کرچکی ہے۔ اگرچہ ایران اس سائٹ کا معائنہ کرانے کا پابند نہیں تھا لیکن اس نے نیک نیتی سے کام لیتے ہوئے اس معائنے کا راستہ ہموار کیا۔ یوکیا آمانو کی جانب سے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کو پیش کی جانے والی رپورٹوں سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ بنابریں اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ یوکیا آمانو نے کس طرح ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا ربط ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے مذاکرات کے ساتھ جوڑنے کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ممکن ہے کہ ایران سوالات کے جواب دینے کے سلسلے میں ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ساتھ تعاون نہ کرے۔ 

یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب ایران سنہ دو ہزار چھ میں طے شدہ اصولوں کے تحت ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے چھ سوالوں کے جواب دے چکا ہے اور اس ایجنسی نے بھی باضابطہ طور پر اعلان کیا تھا کہ اس نے ایران کی جانب سے جواب وصول کر لئے ہیں اور ایران کی ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق شبہات ختم ہوگئے ہیں۔ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ کو طے شدہ اتفاق رائے کے مطابق ایران کا ایٹمی معاملہ بورڈ آف گورنرز کے ایجنڈے سے خارج کرنا تھا لیکن امریکہ کے دباؤ کی وجہ سے انھوں نے آخری لمحات میں اس اتفاق رائے پر عمل کرنے سے گریز کیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یوکیا آمانو نے بارہا بغیر کسی ثبوت کے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ممکن ہے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہو۔ 

یوکیا آمانو نے ہر مرتبہ غلط رپورٹوں کی بناء پر دعویٰ کیا کہ ممکن ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لئے کوشاں ہو۔ ایک مرتبہ یوکیا آمانو نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کو اس دعوے کے صحیح ہونے کا یقین نہیں ہے۔ یہ رویہ اس ظن کی تقویت کا سبب بنا ہے کہ امریکہ اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے ایران پر الزام لگانے اور دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں آپس میں کام تقسیم کر لیا ہے اور یہ رویہ سیاسی اعتبار سے خاص معنی و مفہوم کا حامل ہے۔ اصل مسئلہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں یوکیا آمانو کا زاویۂ نگاہ ہے، جو انھوں نے رشیا ٹوڈے کو اپنے انٹرویو کے دوران بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یوکیا آمانو ہمیشہ یورپ کے اس یکطرفہ اور غیر مدلل مفروضے کی تکرار کرتے رہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش میں ہو۔ 

ایران اس سے قبل ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے حکام کو تکنیکی ذمے داریوں کے دائرہ کار سے خارج اس سیاسی رویئے کے بارے میں کی بار یاد دہانی کراچکا ہے لیکن ابھی تک اسے اس بارے میں کوئی قانع کنندہ جواب نہیں دیا گيا ہے۔ یوکیا آمانو کے حالیہ بیانات بھی اس قاعدے سے مستثنٰی نہیں ہیں اور ان سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایران کے ایٹمی معاملے کے بارے میں ان کا موقف ابھی تک حقائق سے دور ہے۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران اس طرح کے بیانات سے قطع نظر ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ساتھ اشتراک عمل کو مثبت نظر سے دیکھتا ہے اور وہ بدستور اپنی پرامن ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق شکوک و شبہات کے خاتمے اور عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنی نیک نیتی کے اظہار کے لۓ اس اشتراک عمل کا پابند ہے۔
 
اس وقت مغرب کی نظر میں ایران کے ساتھ تعاون کی بحث، ایٹمی مسئلے میں ایران کے سرتسلیم خم کرنے کی صورت میں بعض پابندیوں کو ختم کرنے کے بارے میں ہے، اگر ایران نے ایسا نہ کیا تو مغرب اس کے اقتصادی بائیکاٹ اور سیاسی دباؤ میں مزید اضافہ کر دے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ آپشن کس حد تک اعتماد ساز گفتگو اور تعاون میں مدد دے سکتا ہے؟ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ اور یورپی یونین نے ایران کی نئی حکومت کے ساتھ اس بنیاد پر تعاون کرنا چاہا کہ حسن روحانی موجودہ صورت حال کو برداشت کریں گے تو یقیناً تعاون کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس بنا پر مغرب اگر ایران کی نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنا اور تعاون کے نئے باب کھولنا چاہتا ہے تو اسے اپنے رویے اور طرز عمل میں واضح تبدیلی لانا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 293534
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شکر ہے آپ کو ایران کا خیال بھی آ ہی گیا
thanks for such an informative article
ہماری پیشکش