1
0
Sunday 18 Aug 2013 19:23

کیا خادم الحرمین ایسے ہوتے ہیں؟

کیا خادم الحرمین ایسے ہوتے ہیں؟
تحریر: اسد عباس تقوی

گذشتہ دنوں شاہ عبد اللہ نے سعودیہ کے سرکاری ٹی وی پر جاری ہونے والے ایک بیان میں مصر میں فوجی حکومت کے حالیہ اقدامات بالخصوص رابعہ العدویہ میں مصری مظاہرین کے بہیمانہ قتل کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف لڑنا مصر میں قائم فوجی حکومت کا قانونی حق ہے۔ سعودی ریاست، اس کے عوام اور حکومت پہلے کی مانند آج بھی دہشتگردی، گمراہی اور فتنہ کے مقابلے میں اپنے مصری بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں مصر، عرب دنیا اور مسلم ممالک کے ایماندار لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ مصر (جو اسلامی اور عرب تاریخ کا سرخیل ہے) میں بدامنی کی کوششوں کے مقابلے میں متحد ہو کر کھڑے ہو جائیں۔ یاد رہے کہ شاہ عبداللہ جو اپنے لیے خادم الحرمین کا لقب استعمال کرتے ہیں، اس سے قبل مصر میں فوجی بغاوت پر بھی بہت خوش ہوئے تھے اور پہلے سربراہ مملکت تھے جنھوں نے بذات خود فون کرکے عبوری صدر عدلی المنصور کو مبارک باد پیش کی تھی۔
 
شاہ عبد اللہ کے اعلان کے فوراً بعد اردن اور عرب امارات نے بھی اس بیان کو سراہا۔ اردن کے وزیر خارجہ نصیر جودی نے اپنے بیان میں کہا کہ اردن حالیہ مہم میں مصر کے ساتھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ مصر کی حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ قانون کی عمل داری، امن و امان کی بحالی اور استحکام کے حصول کے لیے اقدامات کرے۔ نصیر جودی نے کہا کہ ہم دہشتگردی کے مقابلے میں اپنے مصری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور مصر کے اندرونی معاملات میں کسی بھی بیرونی مداخلت کی مذمت کرتے ہیں۔
عرب امارات نے شاہ عبداللہ کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ بیان مصر میں جاری صورتحال کے حوالے سے ان کے تحفظات کی غمازی کرتا ہے۔ عرب امارات نے اپنے سرکاری موقف میں کہا کہ شاہ عبداللہ کا مصر میں دہشتگری اور فتنہ کی آگ بھڑکانے والوں کے خلاف دانشمندانہ بیان مصر، اسلام اور عرب ازم کی فتح کا باعث بنے گا۔
 
جمعہ کے روز بحرین نے بھی شاہ عبداللہ کے اس بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم شاہ عبداللہ کے اس بیان کی مکمل حمایت کرتے ہیں، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مصری حکومت کو اپنے اقتدار اعلٰی اور عوام کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ سرکاری بیان میں کہا گیا کہ مصری حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ ملک میں قانون کی عمل داری قائم کرے، دہشتگردی اور لاقانونیت کے خلاف لڑے اور لوگوں کی املاک کا تحفظ کرے۔
یاد رہے کہ شاہ عبداللہ، عرب امارات اور کویت پہلے ہی جنرل سیسی کو 12 ارب ڈالر کی مشترکہ امداد کی یقین دہانی کروا چکے ہیں۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ سعودیہ نے اپنے حصے کے پانچ ارب ڈالر میں سے 2 ارب ڈالر پہلے ہی مصر پہنچا دیئے ہیں۔ یہ وہ اعلانیہ امداد ہے جس کا اظہار کھلے الفاظ میں کیا گیا۔ غیر اعلانیہ مدد جس کی تفصیلات شاید بیان نہیں ہوسکتیں، کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
 
جنرل سیسی کی حکومت اور کارندے مصر میں اپنے تسلط کو قائم رکھنے اور اخوان المسلمین نیز اس کی حامی جماعتوں کی احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے شاہ عبداللہ کے ادا کئے ہوئے الفاظ ’’دہشت گردی، فتنہ انگیزی اور گمراہی‘‘ سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔ وہ ایک دن میں تین ہزار سے زائد مصریوں کو قتل کرنے اور ہزاروں کو مجروح کرنے کے بعد اس کوشش میں ہیں کہ ان احتجاج کرنے والوں کو دہشتگرد ثابت کیا جائے۔ کبھی جلوسوں میں ہتھیار تقسیم ہوتے دکھائے جاتے ہیں تو کبھی چرچوں کو جلاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ کبھی پرائیویٹ لباس میں اسلحہ بردار افراد کو دکھایا جاتا ہے تو کبھی القاعدہ کے پرچم جلوسوں میں نکالے جاتے ہیں۔ سبھی پریس کانفرنسوں میں میں اخوان کو ان کے نام یا پارٹی کے عنوان سے بلانے کے بجائے دہشتگرد، فتنہ انگیز اور گمراہ کے عنوان سے پکارا جا رہا ہے۔
 
حکومت کی جانب سے یہ بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ علماء کے فتاویٰ کے ذریعے اخوان اور احتجاج کرنے والے مصریوں کو دائرہ اسلام اور دائرہ مسلک سے خارج کر دیا جائے۔ حکومت وقت کے خلاف قیام کے جرم میں اس تنظیم کو کالعدم قرار دے کر اس کے اثاثے ضبط کر لئے جائیں اور یہ تحریک دم توڑ جائے۔ 
صدر مرسی کے حامی جنہیں صرف اخوان قرار دیا جا رہا تھا، کے بارے میں اب یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ وہ مصر کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے افراد ہیں۔ اخوان اگرچہ ان مظاہرین میں سے سب سے زیادہ ہیں، تاہم یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ صرف اخوان ہی جنرل سیسی کے خلاف ہونے والے احتجاج کا حصہ ہیں۔ صدر مرسی کی گرفتاری کے فوراً بعد ہونے والے ایک سروے کے مطابق مصر کی آبادی کا 69 فیصد حصہ مرسی حکومت کے خاتمے کے خلاف ہے۔
 
’’رابعہ العدویہ‘‘ اور ’’جمعۃ الغضب‘‘ کے واقعات نے یقیناً کئی ایک چہروں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ مصر میں موجود، وہ قوتیں جو سیسی کی فوجی بغاوت اور مرسی کی پالیسیوں کے خلاف تھیں، اب فیصلہ کرچکی ہیں۔ ایسی ہی ایک قوت حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرنے والے نوجوان شباب 6 اپریل ہیں۔ نیل کی سرزمین پر بدھ کے روز رابعہ العدویہ کے میدان میں بہائی جانے والی خون کی ندیاں اور جلائے جانے والے زخمیوں کے لاشے بالیقین اخوان اور ان کے حامیوں کے پلڑے میں گئے ہیں۔ فوجی حکمران کی بربریت نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ غیر مسلم حکومتیں بھی اس اقدام کی مذمت کیے بنا نہ رہ سکیں۔ اقوام متحدہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، سپین اور تو اور امریکہ بھی اس ظلم پر آنکھیں نہ موند سکا۔
 
مسلم ممالک میں بھی اپنے مصری بھائیوں کی اس مظلومیت کا نوحہ پڑھا گیا۔ حیرت تو ان عرب حکمرانوں پر ہے جو آج بھی اپنے آئینی حق کے تقاضے کے لیے احتجاج کرنے والوں کو دہشتگرد، فتنہ پرور اور گمراہ قرار دے رہے ہیں اور مصری افواج کی جانب سے ان نہتے اور بے گناہ افراد کے بہیمانہ قتل کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ میں نے بعض مبصرین کو یہ کہتے سنا کہ یہ عرب حکمران بے وقوف ہیں اور اس وقت دنیا میں مذاق بنے ہوئے ہیں، تاہم میری نظر میں ان حکمرانوں کے اس اقدام کو مذاق نہیں سمجھنا چاہیے۔ جب انہی حکمرانوں کے یمن، قطیف، بحرین اور شام میں کردار پر بات ہوتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ مسلکی اختلاف کے سبب ایسا کہا جا رہا ہے۔ آج مصر کے معاملے میں ان کا کردار، ان کی حقیقی فطرت کی غمازی کر رہا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیا جاسکتا۔ 

جب یہ کہا جاتا تھا کہ شام کو کمزور کرنے والی قوتیں تحریک آزادی فلسطین کو کمزور کر رہی ہیں تو معاملہ فرقہ وارانہ بنا دیا جاتا تھا، لیکن مصر میں امریکی امداد سے چلنے والی فوج کو مضبوط کرنے اور اسرائیل مخالف اخوان المسلمین کی حکومت کو کمزور کرنے کے اس اقدام کو کیسے مسلکی بنیاد پر دیکھا جائے گا۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کے شاہ عبداللہ، امارات کے حکمرانوں، اردن کے شہزادوں اور قطر کے امیروں سے مسلکی اختلافات ہوں گے، لیکن بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان بہرحال ہمارا ان سے ایک رشتہ اور تعلق ضرور تھا، جسے ان ظالمانہ بیانات کے ذریعے انھوں نے خود ہی توڑ لیا۔
خبر کا کوڈ : 293645
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

acha tajzia hay khudaa ajar dai
ہماری پیشکش