0
Monday 26 Aug 2013 16:19

شام پر فوجی حملے کا امریکی ڈھنڈورا اور پس پردہ عوامل

شام پر فوجی حملے کا امریکی ڈھنڈورا اور پس پردہ عوامل
اسلام ٹائمز- امریکی حکام نے ایک بار پھر شام حکومت کے خلاف فوجی حملے کی دھمکیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ دھمکیوں کا یہ نیا سلسلہ ایک ایسے وقت شروع کیا گیا ہے جب شام میں موجودہ بحران کے سیاسی اور سفارتی حل کیلئے منعقد ہونے والی جنیوا 2 کانفرنس کے انعقاد میں صرف ایک ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے اعلان کیا ہے کہ امریکی نیوی اور کروز میزائلوں سے لیس جنگی کشتیاں شام کے ساحل کی جانب رواں دواں ہیں اور شام پر فوجی حملہ کرنے کیلئے صرف صدر براک اوباما کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے انتظار میں ہیں۔ امریکی وزیر دفاع کے بقول صدر براک اوباما نے پنٹاگون کو حکم دیا ہے کہ وہ شام پر فوجی حملے کیلئے مکمل طور پر تیار ہو جائے البتہ اس تیاری کیلئے ضروری ہے کہ امریکی فورسز شام کی سرحدوں کے ساتھ تعینات کی جائیں۔ چک ہیگل نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا:
"وزارت دفاع کا وظیفہ بنتا ہے کہ وہ صدر مملکت کو ممکنہ اقدامات کا آپشن فراہم کرے اور اس کام کیلئے ضروری ہے کہ امریکی فورسز اور جنگی سازوسامان شام کی سرحد کے نزدیک تعینات ہو جائے تاکہ وقت پڑنے پر ضروری اقدامات انجام دے سکے، یہ فورسز ہر اس آپشن کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گی جس کا انتخاب صدر مملکت انجام دیں گے"۔ 
 
اگرچہ یہ طے پایا ہے کہ امریکی جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف جنرل مارٹن ڈیمیسی شام پر فوجی حملہ کا ممکنہ آپشن صدر براک اوباما کو پیش کریں گے لیکن وہ ایک 11 نکاتی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مناسب ہماہنگی ایجاد کرنے کیلئے ایک ہفتہ قبل ہی مشرق وسطی کا دورہ انجام دے چکے ہیں۔ اس بارے میں اسرائیلی فوجی اور انٹیلی جنس ذرائع سے وابستہ نیوز ویب سائٹ "دبکا" نے اہم انکشافات کرتے ہوئے لکھا ہے:
"جنرل ڈیمیسی کے تازہ ترین مشرق وسطی دورے کا مقصد شام میں امریکی فوجی مداخلت کیلئے آخری مقدمات فراہم کرنا تھا"۔ 
 
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس موقع پر اچانک امریکہ کی جانب سے شام کے خلاف فوجی حملے کے آپشن پر سرگرمیاں کیوں تیز ہو گئی ہیں؟ اس سوال کا جواب اس خبر میں پوشیدہ ہے جو گذشتہ ہفتے بدھ کو سامنے آئی جس میں شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں نے دمشق کے نواحی علاقے الغوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی خبر دی اور ساتھ ہی یہ دعوا بھی کیا کہ یہ حملہ شامی فوج نے انجام دیا ہے۔ اس خبر کے فورا بعد مغربی ممالک نے ایک ایک کر کے اس حملے کی مذمت شروع کر دی اور ضمنی طور پر ہی صحیح شام کی حکومت کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض مغربی ممالک جو اس وقت اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے رکن بھی ہیں نے فورا ہی سیکورٹی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا تاکہ اس مسئلے کو زیربحث لایا جائے اور اس کے بارے میں ایک مجموعی فیصلہ اخذ کیا جائے۔ لیکن اس اجلاس کے اختتام پر معلوم ہوا کہ مغربی ممالک حتی اقوام متحدہ کی جانب سے ایک تحقیقاتی ٹیم شام بھیجنے پر رضامند نظر نہیں آتے تاکہ اس پیچیدہ مسئلے کی حقیقت کھل کر سامنے آ سکے۔ 
 
مغربی ممالک کے اس عجیب و غریب رویے کی وجہ شائد اس مسئلے کے بارے میں روسی وزارت خارجہ کی جانب سے اپنائے جانے والے موقف کو سامنے رکھ کر سمجھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ روس نے واضح طور پر اعلان کیا ہے اس کیمیائی حملے کا دعوا شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گروہوں کی جانب سے کیا گیا ہے اور اس حملے میں شام حکومت کے ملوث ہونے کے بارے میں جو شواہد پیش کئے گئے ہیں وہ مکمل طور پر نامعتبر اور جعلی ہیں۔ روس کی وزارت خارجہ نے اس بارے میں کہا:
"شام کے حکومت مخالف مسلح باغیوں نے اپنے بقول دمشق کے نواح میں انجام پانے والے کیمیائی حملے کے انجام پانے سے قبل ہی اس کی تصاویر اور ویڈیوز اپنی ویب سائٹ پر شائع کر دی تھیں"۔
روسی وزارت خارجہ کے بقول شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں اقوام متحدہ کی جانب سے تحقیقات انجام دیئے جانے میں شام کے مسلح باغی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ 
 
لہذا اگر موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو شام میں کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق خبر کا اس قدر مشکوک ہونے کے باوجود واشنگٹن کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت پر اصرار انتہائی تعجب آور نظر آتا ہے خاص طور پر یہ کہ امریکہ کی جانب سے فوجی حملے کے آپشن کا ڈھنڈورا ایک ایسے وقت پیٹا جا رہا ہے جب جنیوا 2 کانفرنس کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں اور اس کے مقدمات فراہم کئے جا رہے ہیں۔ انہیں حقائق کے پیش نظر بین الاقوامی مبصرین اور سیاسی ماہرین اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اس واویلے اور دھمکیوں کا مقصد جنیوا 2 کانفرنس کیلئے شام اور روس سے زیادہ سے زیادہ مراعات کا حصول ہے۔ امریکہ نے اس مقصد کیلئے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ شام حکومت کو شدت پسند اور ظالم ظاہر کرنے اور شام کے حکومت مخالف گروہوں کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش ہے۔ 
 
یہ حقیقت اس وقت مزید کھل کر سامنے آئی جب روس کی وزارت خارجہ کے ترجمان جناب الیگزینڈر لوکاشوویچ نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ امریکی حکام کے بقول جنیوا 2 کانفرنس میں سب سے بڑی رکاوٹ شام حکومت ہے جو اس کانفرنس میں بلاشرط حاضر ہونے پر تیار نہیں، کہا کہ اصل حقیقت اس کے بالکل خلاف ہے اور شام کے حکومت مخالف مسلح گروہ اس کانفرنس میں بلاشرط شریک ہونا نہیں چاہتے۔ جناب الیگزینڈر لوکاشوویچ نے کہا:
"اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہ شام حکومت نہیں جس نے جنیوا 2 کانفرنس میں شریک ہونے کیلئے اپنی شرائط کا اعلان کیا ہے بلکہ شام کے حکومت مخالف گروہوں نے یہ اقدام انجام دیا ہے"۔ 
ایران کے معروف سیاسی تجزیہ نگار اور مشرق وسطی امور کے ماہر جناب صادق الحسینی نے کیا خوب کہا ہے کہ امریکہ میں شام پر حملہ کرنے کی جرات نہیں ہے اور اس کی جانب سے شام پر فوجی حملے کی گیدڑ بھبکیاں صرف اس لئے ہیں کہ قریب الوقوع جنیوا 2 کانفرنس میں روس سے زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کر سکے۔ دوسرے الفاظ میں یہ دھمکیاں اور واویلا دراصل واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان رساکشی کے علاوہ کچھ نہیں۔ 
 
لیکن امریکی حکام کی جانب سے شام کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی ایک اور وجہ بھی ممکن ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم نے وائٹ ہاوس پر شدید دباو ڈال رکھا ہے کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی انجام دے۔ اسرائیلی حکام اس اقدام کیلئے یہ دلیل پیش کرتے آئے ہیں کہ شام حکومت نے اپنے شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کر کے امریکی ریڈلائن کو کراس کر دیا ہے لہذا اس کے خلاف فوری طور پر فوجی کاروائی ہونے چاہئے۔ ایک اعلی سطی اسرائیلی حکومتی اہلکار نے حال ہی میں یہ دعوا کیا ہے کہ: 
"شام کے بارے میں امریکہ کی جانب سے کھینچی گئی ریڈلائن دراصل اس کیلئے ایک کڑی آزمائش ہے جو ایران کے مقابلے میں امریکی رویے کی نشاندہی کرتی ہوئی نظر آتی ہے، امریکہ کو چاہئے کہ وہ شام سے متعلق اپنی ریڈلائن کے بارے میں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عملی اقدام انجام دے تاکہ ایران بھی اس سے سبق سیکھے"۔ 
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی حکومت اپنی ہی کھینچی گئی ریڈلائن کی نسبت بے توجہی کا شکار نہیں ہو سکتی اور اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتی۔ صدر براک اوباما اپنے رعب اور دبدبے کی خاطر ہی سہی یہ ظاہر کرنے پر مجبور ہیں کہ وہ اپنی کھینچی ہوئی ریڈلائن کے پابند ہیں۔ دوسری طرف اگر امریکی حکام اس معاملے میں عقب نشینی کا مظاہرہ کریں تو یہ عالمی سطح پر اس شان و شوکت کے بالکل خلاف ہو گا جو وہ اپنے لئے قائل ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر براک اوباما نے چند ماہ قبل اسرائیل کی جانب سے شدید دباو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
"اس میں کوئی شک نہیں کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ان ہتھیاروں کا استعمال کس نے کیا ہے؟"۔
صدر براک اوباما نے شام سے متعلق اپنی ریڈلائن کی یاددہانی کرواتے ہوئے یہ دعوا کیا کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں شام حکومت ملوث ہے تو اس وقت ہمارا فیصلہ کچھ اور ہو گا اور ہم اپنے ایجنڈے میں بعض جدید آپشنز شامل کر لیں گے۔ 
 
اسی وقت کی بات ہے جب اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنی کابینہ پر زور دیا کہ وہ شام کے مسئلے میں خاموشی اختیار کریں اور شدید قسم کے بیانات دینے سے گریز کریں تاکہ دنیا والوں پر یہ تاثر نہ پڑے کہ اسرائیل امریکہ کو شام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے پر اکسا رہا ہے۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ خود امریکی حکام ہی شام کے خلاف فوجی کاروائی کا ڈھنڈورا پیٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شائد وہ اس شور شرابے اور واویلے سے اسرائیل پر یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ امریکی خارجہ پالیسیوں سے متعلق ریڈلائن کا تعین صرف وہ خود کر سکتے ہیں اور شام کے خلاف فوجی کاروائی کا فیصلہ بھی وہ خود ہی کریں گے نہ کہ اسرائیلی حکام۔ 
خبر کا کوڈ : 295768
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش