3
0
Tuesday 3 Sep 2013 14:44

امریکہ کا خبط اسے لے ڈوبے گا

امریکہ کا خبط اسے لے ڈوبے گا
تحریر: ممتاز ملک
 
شام جو کہ دُنیا کا قدیم ترین ملک کہلاتا ہے، انبیاء اور صالحین کا وطن ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اولادِ رسول اور اصحابِ رسول کے مزارات مقدسہ بھی موجود ہیں۔ دنیا کا بہترین سیب پیدا کرنے والا اڑھائی کروڑ نفوس پر مشتمل یہ ملک اپنے دو لاکھ اسی ہزار مربع کلومیٹر رقبے کی وجہ سے دفاعی طور پر دنیا میں بالعموم اور عرب ورلڈ میں بالخصوص انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لیے سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا "مصر کے بغیر عرب دنیا کی کوئی جنگ شروع نہیں ہوسکتی اور شام کے بغیر جنگ بندی اور امن نہیں ہوسکتا۔" شام جس کی سرحدیں اُردن، عراق، لبنان اور ترکی سے جڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کا بھی شمالی بارڈر شام سے ملتا ہے۔ یہ بات بلاشبہ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل جس کی سرحدیں اُردن اور سعودی عرب والی سمت سے پرامن اور محفوظ بن چکی ہیں، لیکن جنوبی سرحد حسنی مبارک کی حکومت کے جانے کے ساتھ ہی غیر محفوظ ہوچکی ہیں۔ لبنان و شام سے ملنے والی سرحدیں پہلے سے ہی غیر محفوظ تھیں۔ اب یہ وقت ہے شام کو اسرائیل دشمنی کا سبق سکھایا جائے اور اسرائیل کی سرحدوں کو بھی خاطرخواہ حد تک تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
 
امریکہ اور مغربی دنیا کی سوچ کا دہرا معیار اب کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار کہنے والا امریکہ جہاں تیونس، مصر، لیبیا اور اب شام میں حکمرانوں کو ڈکٹیٹر گردانتے ہوئے تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ہے، وہاں پر اُسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور اُردن کے بادشاہ نظر کیوں نہیں آتے؟ کیا اس لیے کہ یہ سب ملک اس کے لیے تیل کا ذریعہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی اسلحہ فیکٹریوں کو زندگی دینے والے ہیں۔ اس سے بھی شرمناک بات یہ ہے کہ امریکہ جس القاعدہ اور طالبان کو دہشت گرد کہہ کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا چکا ہے۔ آج وہ انھی دہشت گردوں کے ساتھ مل کر شام کے خلاف جنگ کا طبل بجانے جا رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما اپنی پریس کانفرنس میں واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ "ہم نے شام کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اگر ہمارے ساتھ کوئی بھی نہ کھڑا ہوا تو ہم اکیلے بھی حملہ کر دیں گے۔ کیونکہ امریکہ جو کہتا ہے، وہ کرتا ہے۔"
 
اب تک باراک اوباما جنگ کی منظوری کا مسودہ کانگریس کو بھیج چکا ہے۔ جس کے منظور ہونے میں کم و بیش دس دن لگ سکتے ہیں۔ لیکن ایک بات قابل غور ہے، وہ یہ کہ امریکہ بڑی حد تک پریشان اور تنہا ہوتا نظر آرہا ہے۔ برطانیہ جیسا اہم اتحادی اس کے ساتھ جنگ میں شامل نہیں ہو رہا۔ اٹلی اور جرمنی میں عوامی مخالفت زوروں پر ہے۔ فرانس بھی اپنے عوام کے شدید احتجاج کی وجہ سے پیچھے ہٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور ترکی اب تک اصرار کرتے نظر آرہے ہیں کہ بشار الاسد کی حکومت کا جلد از جلد خاتمہ ہونا چاہیے۔
 
قارئین کرام! امریکہ نے حملہ کرنے کا بیان دے کر اپنے آپ کو مشکل میں ڈال لیا ہے اور ایسا کرکے اُس نے اپنے لیے خود ہی بند گلی کا انتخاب کیا ہے۔ اب اُس نے پاگل کتے کی طرح کسی نہ کسی حالت میں کاٹنا ضرور ہے۔ کیونکہ وہ اگر حملہ کئے بغیر چلا جاتا ہے تو بحیرۂ روم میں موجود اس کے جدید اسلحے سے لیس چھے جنگی بیڑوں اور امریکہ کی طاقت اور چوہدراہٹ پر حرف آئے گا۔ ویسے بھی چار پانچ سو جدید میزائل فائر کرنا اس کے لیے معمولی سی بات ہے۔ چاہے اُس سے ہزاروں بے گناہ بچے، بوڑھے اور خواتین کی موت ہی کیوں نہ واقع ہوتی ہو۔ لیکن ایک بات اُس کے تھنک ٹینک ضرور یاد رکھیں گے کہ اگر روس، چین، ایران،شام، عراق اور حزب اللہ اپنے اپنے بیانات اور عزائم کے مطابق مورچوں پر ڈٹے رہے تو امریکہ کو تاریخ کی ذلت آمیز صورت حال کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ اس سے دُنیائے اسلام کو جالوت اور طالوت، جنگ بدر اور حزب اللہ کی اسرائیل سے تینتیس روزہ جنگ بھی یاد آجائے گی اور دنیائے اسلام کا ایمان تازہ ہوجائے گا۔ 

اس وقت دنیا کے دفاعی امور اور قوموں کی مذہبی اور نفسیاتی کیفیتوں کا گہرا مطالعہ کرنے والے ماہرین اور دانشور حضرات یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ جنگ امریکہ کے لیے عراق، افغانستان اور لیبیا کی طرح آسان ثابت نہیں ہوگی۔ یہ جنگ شروع کرنا تو شاید اوباما انتظامیہ کے بس میں ہو، لیکن اس خوف ناک جنگی بھنور سے نکلنا انکے لیے مشکل ہوگا، بلکہ ویت نام کی یاد تازہ ہوجائے گی۔ یہ بات بھی سوفیصد حتمی ہے کہ اسرائیل شام کی طرح اس جنگ کا برایِ راست متاثر ملک ہوگا۔ شاید اسی وجہ سے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو امریکہ کو شام پر حملہ کرنے سے روکتا ہوا نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی عرب خطے کے دیگر ممالک بھی اپنے آپ کو اس خونی آگ سے محفوظ نہیں رکھ پائیں گے۔ جس کا صاف صاف عندیہ سختی کے ساتھ سعودی عرب کو روس بھی دے چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 298141
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

khuda ki zaat is ko zalil kray gi .inshallah
Pakistan
great analysis
United States
nice column
malik sb
ہماری پیشکش