0
Wednesday 4 Sep 2013 21:40

پاکستان میں امریکی سازشیں اور ہمارے حکمران

پاکستان میں امریکی سازشیں اور ہمارے حکمران
تحریر: تصور حسین شہزاد

امریکی جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا پاکستان کی ایٹمی تنصیبات اور نیوکلیئر پروگرام کی جاسوسی کے لئے دنیا کے مہنگے ترین اور وسیع جاسوسی نظام پر 53 ملین ڈالر سالانہ خرچہ کر رہا ہے اور اس ضمن میں امریکی جاسوسی نیٹ ورک میں مزید توسیع کے لئے بے دریغ فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں۔ امریکی جریدے میں شائع ہونے والی خفیہ دستاویزات مشہور زمانہ سنوڈن جاسوس کی فراہم کردہ رپورٹس سے اخذ کی گئی ہیں، جن میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ پاکستان پر مسلط کرنے والے امریکا نے اپنی اس فرنٹ لائن ریاست کو قربانی کا بکرا بنانے کے باوجود اس پر اعتماد کرنے کی بجائے ہمیشہ اسے مشکوک ہی سمجھا اور اس کے حکمرانوں کی ذاتی وفاداریاں خریدنے کے بعد بھی ان پر ہمیشہ عدم اعتماد ہی کیا۔

9/11 کے بعد پاکستان کو امریکا کی غلامانہ حد تک تابعدار ریاست بنانے والے جنرل (ر) مشرف نے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ کے نام پر ملک کے ہوائی اڈے اور سرزمین استعمال کرنے کی کھلی چھٹی دی اور اس دوران امریکا افغانستان سے زیادہ پاکستان میں فاتحانہ انداز سے داخل ہوا اور اس نے اسلام آباد و بلوچستان میں اپنے زیر تصرف علاقہ جات کو اپنی ذاتی ملکیت کی طرح خود پاکستانیوں کے لئے ممنوعہ بنائے رکھا۔ گذشتہ دور حکومت میں تو امریکی دراندازی نے ماضی کے سارے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے اور امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے امریکا میں پاکستان کے سفار تخانے میں بیٹھ کر امریکا کے لئے ایک امیگریشن کلرک کا کردار ادا کرتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی جاسوسوں کو یوں ویزے جاری کئے جس کی نظیر کسی ملک سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ سی آئی اے کے اس ایجنٹ سفیر کے سیاہ کارناموں کی بدولت میمو سکینڈل سامنے آیا، جس کے باعث پاک آرمی کی سبکی ہوئی اور سول و سیاسی حکمرانوں کے درمیان غلط فہمیوں نے فروغ پایا۔ نتیجتاً ایبٹ آباد کا واقعہ ظہور پذیر ہو کر پوری دنیا میں پاکستان کے لئے بدنامی کا باعث بنا۔

امریکی جریدے میں سامنے آنے والے واقعات باخبر پاکستانیوں کے لئے نہ تو کوئی انکشاف ہیں اور نہ ہی کوئی چونکا دینے والا عنصر لئے ہوئے ہیں۔ اہل نظر بخوبی جانتے ہیں کہ امریکا پاکستان کا بے حد ناقابل اعتبار حلیف ہے جو صرف اپنے مفادات کے لئے پاکستان کو استعمال کرتا چلا آیا ہے۔ 1957ء میں سوویت یونین کی جاسوسی کیلئے لاہور کے ہوائی اڈے سے یو ٹو طیاروں کی اڑان تاریخ کا حصہ ہے۔ جس کے بعد پشاور سے امریکی جاسوس طیارے کی پرواز جسے روس نے مار گرایا تھا، اس دوران پاکستان کی سرزمین کو چین کے خلاف جاسوسی کے لئے بھی استعمال کیا گیا۔ یاد رہے کہ بھارت نے روس و چین کی جاسوسی کے لئے امریکا کو اپنی حدود استعمال کرنے سے انکار کرکے امریکی حکام کو پاکستان کا راستہ دکھایا تھا، جہاں سے اسے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خاں اور خارجہ و دفاع و خزانہ امور کے سیکرٹری درجے کے بیورو کریٹ اور ایوب خاں جیسے فوجی افسروں کی خدمات نہایت ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوگئیں، جنہیں بعد میں ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے حکمران بنا کر امریکی مقاصد حاصل کئے گئے، اسی لئے ہمارے ان حکمرانوں نے قومی مفادات کی بجائے اپنی خواہشات نفسانی کے تحت امریکا بہادر کی ذلت آمیز غلامی کا طوق گلے میں ڈالا اور ملک کی کشتی کو ایک ایسی بے سمت ہوا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جو اسے آج تک منجدھار میں بھٹکائے پھرے جاتی ہے۔

حالات کی موجوں کے بے رحم تھپیڑے اس کا آدھا حصہ الگ کرچکے ہیں اور باقی کے حصے میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور یہ دراڑیں ڈالنے والے خود ہی رپورٹیں مرتب کرکے نشاندہی کر رہے ہیں کہ اس ملک کے سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی کے خطرے اور ایٹمی ہتھیاروں کی وسعت پذیر فہرست کے پیش نظر ان کے اپنے جاسوسی کے نظام میں نقائص پریشان کن ہیں۔ اسی لئے وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے والے اداروں اور ایٹمی اسلحے پر قبضہ کرنے کے ہنگامی منصوبے پر عمل کر رہا ہے۔ امریکا کے منکشف ہونے والے یہ دستاویزی ثبوت ہمارے ان حکمران طبقات کے لئے لمحہ فکریہ ہیں، جو برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے 65 برسوں میں رضاکارانہ امریکی غلامی قبول کئے آج تک ادراک نہیں کر پائے کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا۔ یہ بے حمیت حکمران ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے باوجود غیر ملکی آقاؤں کے آگے بھیگی بلی بنے بلا چوں و چراں انکی باتیں مانتے چلے گئے اور آج نوبت بایں جا رسید کہ ہمیں اپنے داخلی معاملات میں سدھار کے لئے بھی انہی کی دی ہوئی گائیڈ لائنز پر عمل کرنا پڑا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ نئی حکومت تین مہینے اقتدار میں رہنے کے بعد بھی اس اعتماد اور فیصلہ سازی سے محروم ہے جو پاکستان کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کیلئے ضروری ہے۔

امریکا پاکستان کا بظاہر دوست ہے مگر اس نے مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان میں اپنے جاسوس ہر جگہ داخل کرکے پورے نظام حکومت پر اپنی گرفت مضبوط بنائی ہوئی ہے، اسی لئے نئی حکومت ریاستی امور چلانے میں بے بس نظر آتی ہے۔ وزیراعظم رواں مہینے میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکا روانہ ہونے والے ہیں، لیکن تاحال امریکا میں پاکستانی سفیر کا تقرر نہیں کیا جاسکا جو کہ اس دورے کی تیاری اور وزیراعظم کے پروگرام کو حتمی شکل دینے کیلئے اشد ضروری ہے۔ شاید وہ حسین حقانی کے تلخ تجربے سے ڈر چکی ہے اور کسی ایسے قابل اعتماد شخص کی تلاش میں ہے جو بیک وقت عسکری اداروں، امریکا اور خود ان کی اپنی جماعت کے لئے قابل بھروسہ ہو اور جو دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضا بحال کرنے میں فعال کردار ادا کرسکے۔

اب امریکی جریدے میں سامنے آنے والے اس انکشاف کے بعد کہ امریکا نے پاکستان کے حساس مقامات، تنصیبات اور پروگراموں کی جاسوسی کا نیٹ ورک وسیع کر دیا ہے، کیا کوئی محب وطن شخص امریکا جیسے ناقابل اعتبار ملک میں سفارتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیار ہوگا؟ اور کیا امریکا اپنے ملک میں کسی ایسے آدمی کو بطور سفیر لینے کو تیار ہوگا جس کی وفاداریاں خالصتاً پاکستان کے ساتھ ہوں اور وہ صرف اور صرف قومی مفادات کے تحفظ کے لئے اپنی خدمات وقف کرچکا ہو۔ امریکی جریدے کی رپورٹوں سے تو یہ اندازہ لگاتے ہوئے روح کو چرکے لگتے ہیں کہ پاکستان کے حکمران اور سفارتکار پاکستان سے زیادہ امریکا کے وفادار رہ کر کام کرتے ہیں، جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں کہ ’’نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ اور چلے ہیں کراچی جیسے کثیر القومی شہر میں قیام امن کا خواب دیکھنے، جہاں ہر سیاسی جماعت مبینہ طور پر کسی نہ کسی غیر ملکی پاکستان دشمن قوت کے اشارے پر کام کر رہی ہے اور ان ممالک کے اپنے جاسوسوں کی فوج ظفر موج الگ سے شہر کو جہنم بنائے ہوئے مذموم مقاصد کی تکمیل میں مصروف ہے۔ دریں حالات حکومت کے اعلانات اور دعوے کس حد تک نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں؟ وقت ہی بتائے گا۔
خبر کا کوڈ : 298647
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش