1
0
Thursday 5 Sep 2013 01:14

آج کے یزید کا بندر، جس کی سزا موت ہے

آج کے یزید کا بندر، جس کی سزا موت ہے
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

جنگل کا ماحول بدل گیا ہے، عام سا بندر طاقتور ہے، کئی درندے اس کے ساتھی ہیں، دنیا کا سب سے بڑھا ڈاکو اس کا سرپرست ہے، کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں انسانوں کی آبادی ہو اور انہوں نے وہاں جنگ کی آگ نہ بھڑکائی ہو۔ امریکی پوری دنیا میں حکمرانوں کی جاسوسی کرتے ہیں۔ برازیل نے الزام لگایا ہے ان کی جاسوسی امریکی سفیر نے کی ہے۔ لیکن بندر کے ملک میں امریکیوں کو جاسوسی کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ وہ بندر جس نے مسلمان دشمن طاقتوں کی جاسوسی کرنا تھی وہ خود امریکہ اور اسرائیل کا جاسوس ہے۔ ڈارون مغربی تہذیب کا خالق ہے کہ انسان انسان نہیں بلکہ بندر ہے، قرآن کی سرزمین پہ قابض بندر کو اس کا یقین ہے کہ وہ انسان نہیں۔ بندر مسلمانوں کے ٹکڑوں پہ پلتا ہے لیکن ہمارے بچوں کو خوشی نہیں بلکہ دکھ دیتا ہے۔ اپنے مالک کے اشاروں پہ فلسطین، عراق اور اب شام میں مسلمان بچوں کو مروا رہا ہے۔ ہر مسلمان کا سینہ چھلنی ہے اور قلب و جگر ٹکڑے ٹکڑے۔

بندر کا دل مچلتا ہے کہ کسی طرح آج پھر دمشق میں یزید کے مبنر تک رسائی ملے اور یہ وہاں سجدہ ریز ہو، اپنا ماتھا ٹیکے، کورنیش بجا لائے، اچھل کود کرے، شغل دکھائے، تاکہ یزید کے اجداد جنہوں نے ورثے میں یزید کو بندر دیا تھا، ان کی جہنمی روح کو تفریح کا سامان میسر ہو۔ بندر کی ڈور آج کے یزید کے ہاتھ میں، اس کا مالک بھی یہی چاہتا کہ دمشق کو یزیدی کنٹرول میں لے آئے۔ بندر اور یزید دونوں کے مقابل کربلا میں یزیدی لشکر کو شکست دینے والے حسینی قافلے کے شیر ہیں۔ انہی حسینیوں سے یزید وقت کی ناجائز اولاد کو بھی خطرہ ہے اور خود بندر کی تماشا گر روح بھی ان سے خائف ہے۔ بندر ایک جگہ ٹک نہیں سکتا، جنگل میں ہو تو ایک درخت سے دوسرے درخت پہ پھدکتا رہتا ہے اور آبادیوں میں ہو تو کبھی ایک شہر تو کبھی دوسرے۔ آج کے یزید امریکہ کے طور طریقے، چودہ سو سال پہلے والے یزید کی نسبت بدل چکے ہیں، اسی طرح بندر کی حرکات و سکنات اب محلوں اور شہروں تک محدود نہیں بلکہ اس کے کھیل کو جاسوسی کہتے ہیں، کبھی کبھی ڈپلومیسی نام کا تماشا بھی کہتے ہیں۔ اسکی حرکتوں کا دائرہ بہت وسیع ہے، لیکن یہ جس ملک بھی جائے اسکی باگ ڈور یزید کے ہاتھ رہتی ہے۔

جب ہم جنگ کی بات کریں تو جنگ سے پہلے اور دوران جنگ سب سے زیادہ اہمیت دشمن سے متعلق معلومات کی ہوتی ہے۔ جنگ کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اپنی قوم کے راز دشمن کے ہاتھ نہ لگیں، لیکن بندر تو ایسی جگہ بیٹھا ہے جہاں پوری دنیا کے مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے حالات کا تبادلہ کرتے ہیں، افسوس اس بات کا ہے کہ بندر ایک مسلمان جاسوسی ادارے کا سربراہ ہے اور اسکی رسائی مسلمانوں کے اہم رازوں تک ہے اور بندر تک ہمارے دشمن کی رسائی ہے۔ جنگ میں بندر ہمارے ساتھ نہیں بلکہ دشمن کے ساتھ ہے۔ جب تک بندر ہے دشمن کی موج ہے، مسلمانوں کی جنگی معلومات دشمن تک پہنچ رہی ہیں اور دشمن کے خلاف جنگ جیتنا یا دشمن کو جنگ کو ترک کرنے پر مجبور کرنا مشکل ہوگا۔ جب پاکستانی ٹی وی اینکر جو کڑوا سچ بیان کرتے ہیں، بے شک وہ کڑوا ہے لیکن سچ ہے کہ بندر کے ملک نے ہر دفعہ ہر مسلمان ملک کے خلاف اپنے مالک کو حملے کرنے کے لیے اپنی زمین پر بیس فراہم کئے ہیں اور دنیا میں ان کا آخری سہارا اسرائیل ہے، کیونکہ آج کے یزید کو جو محبت اسرائیل جیسی اولاد سے ہے، ویسا پیارا اپنے بندر سے بھی ہے۔

امریکہ نے اسی طرح کا رشتہ صدام سے بھی بنایا تھا، لیکن جب تماشا ختم ہوگیا تو اسے مار دیا۔ آخر بندر کو یہ کیوں سمجھ نہیں آتا کہ کل جس صدام سے تمہیں ڈرا رہے تھے، وہی صدام انہی امریکیوں سے اسلحہ لیتا تھا، جو شام میں مسلمانوں کے بچوں کو موت کی نیند سلانے کے لیے گولیاں اور بارود فراہم کر رہے ہیں۔ جس طرح صدام کو ان کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بعد ذلت آمیز اور رسوائی والی موت نصیب ہوئی، ان عالمی درندوں کا سہارا بننے اور انکو سہارا دینے والوں کا انجام یہی ہے، چاہے وہ امریکی مفادات کے لیے جنگ لڑیں یا چاہے بندر کی طرح جاسوسی کریں۔

بندر پہلے اپنا نام بدلے، تاکہ انسانی ضمیر کی حقیقت سے آشنا ہو، کیونکہ انسان کی زندگی اور اس کے کردار پر اس کے نام کے کافی اثرات ہوتے ہیں۔ خیر یہ تو تب ہے جب کبھی اس کا گذر انسانوں کی بستی سے ہو، یہ بھی درست نہیں کہ وہ ہدایت کہاں سے لے، پوری دنیا کے لیے جو منبع ہدایت ہے، وہ وہاں موجود ہے۔ ہدایت صرف اسے نصیب ہوتی ہے جسے ہدایت کی طلب ہو، جسے ہدایت کی جستجو ہو، اللہ کی سنت یہ ہے کہ جس کی آرزو صادق ہو، اسے ہدایت بھی ملتی ہے چاہے، وہ عرب سے ہزاروں میل کے فاصلے سے ہی کیوں نہ آیا ہو۔ وہ کا اللہ کا محبوب بھی ہوتا ہے اور اللہ کا محبوبؑ اسے اپنے اہلبیت میں قرار بھی دیتا ہے۔ بندر جیسے کردار ہر دور میں رہے ہیں، بہلے انہیں اسلامی قانون کے مطابق جاسوس کی سزا دی جاتی تھی اور آج بدقسمتی سے وہ موت کے پروانے جاری کرتا ہے، حالانکہ خود بندر جیسے جاسوس کی سزا موت ہے۔

جس طرح بندر کی چالاکی مشہور ہے، اسی طرح بندر تماشا بھی دکھاتا ہے۔ مداری کرنے والوں کا ذریعہ روزگار بھی بندر ہے، جس کے ذریعے وہ بچوں کا دل بہلاتے ہیں اور پیسے کماتے ہیں۔ عالمی سیاست میں امریکہ کے کردار کی مثال ایک مداری جیسی ہے۔ امریکی دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل کر اپنی روزی روٹی چلا رہے ہیں۔ امریکی معیشت کا سہارا کئی ایسی بندر نما چیزیں ہیں، جن کا تماشا دکھایا جاتا ہے اور دولت اکٹھی کی جاتی ہے۔ دنیا میں حقیقتوں کو سمجھنے کے لیے مثالوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور کبھی امتحان کی غرض سے ایک جیسی خصوصیات رکھنے والی چیزوں کی علامتیں بیان کی جاتی ہیں اور اشاروں کنائیوں کو سمجھنے والے ذہین لوگ علامات کی مدد سے بتا دیتے ہیں، حقیقت میں اس سے مراد فلاں چیز ہے۔ ہمارے مورد نظر بھی ایک کردار ہے۔ جسے پہچاننا بہت آسان ہے کیونکہ جیسا اس کا نام ہے ویسا ہی اس کا کردار ہے۔ بس اتنی وضاحت ضروری ہے کہ آج کے دور میں جس طاقت کا کردار عین یزیدی ہے، وہ امریکہ ہے۔ امریکہ کی دیگر خصوصیات کی طرح ایک یزیدی صفت غیر فطری تفریح بھی ہے۔ جس طرح چودہ سو سال پہلے کے یزید کے پاس بندر تھا، ایک بندر آج کے یزید کے پاس بھی ہے۔ آج کا یزید خطرناک بھی ہے اور چالاک بھی۔ لیکن بندر بھی کچھ کم نہیں۔ امریکی بندر چلا ہے بازی گری کرنے خدا خیر کرے۔

بندر کی حرکتوں سے پوری دنیا تنگ ہے، دنیا جانتی ہے کہ پوٹین نے بندر کو یہ کیسے باور کرایا کہ جنگ تو جنگ ہوتی ہے بندر کا تماشا نہیں۔ بندر کا تازہ ترین تماشہ شامی عوام کے خلاف اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کیمیائی بموں کا حملہ ہے۔ بس یہی کافی کہ ہم سمجھ سکیں کہ بندر کو اسکا مداری کیسے استعمال کر رہا ہے۔ شرق و غرب کے تماشا گروں نے جو ظلم عرب مسلمانوں پہ ڈھایا ہے، اب بندر جیسے پوری اسلامی دنیا میں بے نقاب ہو رہے ہیں۔ شام میں سرکشی منظم کرنے سے پہلے مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کو گرانے اور وہاں اسرائیل نواز جنتا کو لانے میں سب سے بڑا کردار بندر کا ہے۔ بندر کی انٹیلی جنس نے حسنی مبارک کو بچانے کی بہت کوشش کی، مصری انتظامیہ کے نام بندر کے خفیہ خطوط منظر عام پہ آچکے ہیں، جن میں اخوان کو اپنا سب سے بڑا دشمن بیان کیا گیا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا گیا کہ مصر میں ایسی حکومت ہی رہے جو فلسطینیوں کے خاتمے میں اسرائیل کا پورا پورا ساتھ دے۔ جب مصر میں اخوانی مسلمانوں کی حکومت بنی تو سید قطب اور حسن البناء کی تعلیمات کے حامل تمام سعودی مسلمانوں کو عتاب کا نشانہ بناتے ہوئے جیلوں میں بند کر دیا گیا۔

بندر کا ملک اس وقت صحیح العقیدہ مسلمانوں کے لیے قید خانہ ہے، حالانکہ دنیا میں امن اور آزادی کے اعتبار سے حرمین شریفین سے بڑھ کر کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔ چودہ سو سال پہلے کا یزید بھی بندر تماشوں میں مصروف رہتا تھا اور اس نے حرم میں نواسہ رسولؑ کو شہید کروانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جس طرح جوانان جنت کے سردارؑ اور ان کے جان نثار ساتھیوں نے بندروں کے شغل میں مست رہنے والوں کو قیامت تک کے لیے نشان عبرت بنا دیا، اسی طرح کربلا کے متوالے مجاہدین حزب اللہ سعودی بندر کے جرائم کی تکمیل نہ ہونے دیں گے اور شام کی آزادی بھی برقرار رہے گی۔ انشاءاللہ وہ دن بھی دور نہیں کہ جب حرمین شریفین انکے حقیقی وارثوں کو واپس ملیں گے اور عدالت کا راج ہوگا، نہ کوئی بندر بچے گا نہ یزید کہ بندروں کو استعمال کرے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان غافل نہ ہوں، ورنہ آج کی کربلا میں ہم تماشائی بنے رہے اور اپنا کردار ادا نہ کیا تو حسینؑ پھر تنہا رہیں گے اور ہمارا انجام یزیدیوں کے ساتھ ہوگا۔ خدا ہمیں یزیدیت کے ظلم کے خلاف ڈٹ کر جان دینے والوں میں شمار فرمائے۔ دنیا میں حق کا پرچم اونچا رکھنے والے حزب اللہ مجاہدین کو یزید وقت کے مقابل کامیابیاں نصیب ہوتی رہیں۔ آمین!
خبر کا کوڈ : 298691
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

mashaallah baloch sb kamal kar dia ap ne...............A
ہماری پیشکش