0
Friday 6 Sep 2013 01:36

یوم دفاعِ پاکستان، حالات و واقعات اور ہماری ذمہ داری

یوم دفاعِ پاکستان، حالات و واقعات اور ہماری ذمہ داری
تحریر: ممتاز ملک
 
6 ستمبر 1965ء کا دن ہماری قوم یوم دفاع کے نام سے مناتی ہے۔ اس دن ہم پیدا تو نہیں ہوئے تھے لیکن ہمارے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ مسجدوں سے اعلانات ہوتے تھے "رات کے وقت اپنے گھروں کے چراغ بجھا دیں، کہیں دشمن کے جہاز حملہ نہ کر دیں۔" جنگ کے انہی دنوں میں لاہور اور راولپنڈی کے شہری تو دشمن کے ہوائی حملوں سے مانوس ہوچکے تھے اور ملی جوش و جذبہ اس قدر عروج پر تھا کہ لوگ جوق در جوق اپنے وطن کے دفاع کی خاطر مختلف رضاکارانہ خدمات کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے نظر آتے تھے۔ تمام تر لسانی، صوبائی اور مذہبی اختلافات کو بھلا کر پوری قوم یک زبان اور یک جان ہوکر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوگئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنے سے کئی گنا عددی اور عسکری لحاظ سے طاقتور دشمن کو ناکوں چنے چبوانے پر قادر ہوگئے۔
 
پاکستان سے کشمیر کو مسلح افراد کو بھیجے جانے کا بھارتی الزام زیادہ شفاف تو نہیں ہے، لیکن جس کارروائی سے ہندوستان ایک بڑے فوجی حملے پر اُتر آیا، اُسے "آپریشن جبرالٹر" کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹے پیمانے کی کشمیر میں کارروائی تھی۔ جسے آرمی کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کی بھی تائید حاصل تھی۔ جو صدر ایوب خان کے قابل اعتماد وزیر تھے، لیکن اس آپریشن میں دو غلطیاں ہوئیں، جن کا خمیازہ پاکستان اور ایوب خان کو بھگتنا پڑا۔ یہ کھلم کھلا جوا تھا جو ایوب خان نے اپنی ڈوبتی ہوئی اقتدار کی کشتی کو سہارا دینے کے لیے کھیلا۔ ہماری سب سے پہلی غلطی تو یہ تھی کہ ہم سمجھ بیٹھے کہ کشمیری مکمل طور پر عوامی بغاوت پر اتر آئیں گے اور دوسرا یہ کہ ہمارے اس آپریشن کی محدود کارروائی کے مقابلے میں نئی دہلی تصادم کو صرف کشمیر تک ہی محدود رکھے گا۔ 

بحران کا آغاز 1965ء کے اوائل میں ہی ہوچکا تھا، لیکن کشمیر کے پہاڑوں میں نہیں بلکہ ویران اور دلدلی صحرائی علاقے رن کچھ میں۔ جو کہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت سے ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ کے بارڈر پر متنازع سرحدی علاقہ تھا۔ سرحدی پولیس کے درمیان جھڑپیں آخرکار مکمل جنگ کا روپ دھار چکی تھیں۔ جس میں پاکستان آخر کار فاتح رہا۔ اس کے بعد 30 جون کو جنگ بندی ہوئی اور اگست کے مہینے میں دوبارہ جموں کے علاقے میں جھڑپیں ہوئی۔ پاکستان کے ریگولر یونٹس اور مجاہدین کا چھمب اور اکھنور کے محاذ پر دباؤ اس قدر بڑھ گیا کہ بھارت نے 6 ستمبر کی صبح پنجاب کے بارڈر لاہور اور سیالکوٹ کی طرف سے ایک بڑا فوجی حملہ شروع کر دیا۔ جس میں دُنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی گئی۔ جو پاکستان کے ایم۔ 48 اور بھارت کے سنچورین ٹینکوں کے مابین تھی۔
 
 22 ستمبر 1965ء کو ایوب خان نے جنگ کے ٹھیک سترہ دن بعد جنگ بندی کا فیصلہ قبول کرلیا۔ جس پر انہیں شدید عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جس میں سب سے زیادہ متحرک اور تیز کردار ایوب خان کے اُس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کا رہا۔ جنھوں نے جنوری 1966ء میں ہونے والے تاشقند کے پاک بھارت مذاکرات کے دوران سے ہی صدر ایوب خان کو وہیں چھوڑ کر پاکستان واپسی کی راہ لی تھی اور یہاں آکر عوام میں یہ بات پھیلا دی کہ پاکستان کی بہادر فوج دشمن سے جو جنگ میدان میں جیت گئی تھی، اُسے ایوب خان نے امریکہ اور برطانیہ کے دباؤ اور کشمیر کے عوض مذاکرات کی میز پر ہار دیا ہے۔ جب کہ ایک خیال یہ بھی تھا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی قراردادوں کو منظور کرنے کی بڑی وجہ تیزی سے ختم ہوتا ہوا اسلحہ تھا۔ کیونکہ 8ستمبر کو امریکہ نے اسلحہ کی فراہمی پر پابندی لگا دی تھی۔
 
آج 6 ستمبر یومِ دفاع پاکستان ہے۔ ہم سب اپنے پاکباز شہداء کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے وطن عزیز کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو اتحاد و ہمت کے ساتھ شکست فاش دیں گے۔ موجودہ دور کے تمام درپیش چیلنجز سے بخوبی نمٹتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ملک کے وسیع ترمفادات، ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیں گے۔ کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد نے اس پاک وطن کو بنایا تھا اور آج ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ یہ اس ملک، قوم اور آنے والی نسل کا ہم پر قرض ہے۔
خبر کا کوڈ : 299080
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش