0
Saturday 7 Sep 2013 20:53

باراک اوباما، امریکی صدر یا دہشتگردوں کے سرپرست

باراک اوباما، امریکی صدر یا دہشتگردوں کے سرپرست
تحریر: صابر کربلائی

کیا امریکی صدر باراک اوباما یہ بات جانتے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور بالخصوص حالیہ دور میں جاری بحرانوں میں دہشتگرد قرار دی جانے والی خطرناک تنظیموں کا کام انجام دے رہے ہیں، یا ان کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ مشرق وسطٰی میں بالخصوص مصر، عراق، لبنان اور شام میں پیدا کئے جانے والے بحرانوں کا ذمہ دار کون ہے؟ امریکی صدر باراک اوبامہ موجودہ دور میں القاعدہ نامی دہشتگرد گروہ کی سرپرستی کر رہے ہیں، بلکہ القاعدہ کے ذریعے مشرق وسطٰی میں بحرانوں کو پیدا کرنے میں بھی براہ راست ملوث ہیں۔ یقیناً امریکی صدر اوباما کی یہ اولین کوشش ہے کہ مشرق وسطٰی کو بحران کا شکار کرنے کے ساتھ ساتھ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناپاک عزائم کہ جس میں \'\'گریٹر اسرائیل\'\' کا قیام بھی شامل ہے، سر فہرست ہے۔ یہ وہ ناپاک منصوبہ ہے جسے صیہونیوں نے آج سے کئی سال قبل ترتیب دیا تھا۔
 
جس کے تحت صیہونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کی سرحدیں نہ صرف پورے مشرق وسطٰی میں پھیلیں گی بلکہ مسلمانوں کے تمام مقدسات اور خصوصاً مکہ مکرمہ \'\'بیت اللہ\'\' پر بھی قبضہ کرنا شامل ہے۔ اس ناپاک منصوبے کے عملدرآمد کے لئے صیہونیوں نے 1948ء میں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا اور پھر اسی طرح 1967ء میں جنگ کے ذریعے فلسطین سمیت مصر اور شام کے متعدد علاقوں پر قبضہ جما لیا، جو تاحال جاری ہے، تاہم اب صیہونی غاصب اسرائیل کا منصوبہ یہ ہے کہ 2014ء تک پورے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کر لیا جائے اور اسی ناپاک منصوبے کی تکمیل کی غرض سے مشرق وسطٰی میں بحران پیدا کئے گئے ہیں۔ مشرق وسطٰی میں پیدا ہونے والے بحرانوں میں سب سے اہم ترین بحران اس وقت شام ہے اور پھر مصر ہے، مصر کے عوام نے اگر شام کے حالات سے سبق نہ سیکھا تو مصر کو بھی شام بننے میں دیر نہیں لگے گی۔

شام میں جاری بحران میں حالیہ دنوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے، جس کی بنیادی وجہ 21 اگست کو شام میں ہونے والا کیمائی حملہ ہے، جس میں سینکڑوں معصوم انسان شہید ہوئے ہیں، اس کیمائی حملے کے بعد سب سے زیادہ تشویش امریکی صدر باراک اوباما اور امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری کو لاحق ہوئی ہے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ شامی حکومت نے عوام پر کیمائی ہتھیار استعمال کئے ہیں، البتہ صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے جو امریکہ اور اس کے حکمران بہت اچھی طرح جانتے بھی ہیں، لیکن حق گوئی سے کام لینا امریکی حکمرانوں کا وتیرہ نہیں رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شامی حکومت ایسے حالات میں کہ جب دنیا بھر سے دہشتگرد شام پہنچ کر شامی حکومت کے خلاف جہاد کے نام پر فساد پھیلا رہے ہوں تو شامی حکومت اپنے ہی ملک کے لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار کا استعمال کر سکتی ہے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کیمائی ہتھیاروں کے استعمال کا فائدہ کسی بھی طرح خواہ وہ سیاسی ہو یا کسی اور طرح کا، شامی حکومت کو پہنچتا ہے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہی ہوگا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے عراق کی تاریخ کو دہراتے ہوئے شام پر تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے اور خود ہی کالعدم قرار دیئے جانے والی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور بارہا میڈیا پر یہ کہا ہے کہ امریکہ شام میں موجود حکومت مخالف گروہوں کو اسلحہ کی فراہمی جاری رکھے گا، اور پھر امریکہ کی تاریخ بدنامی اور سیاہ دھبوں سے بھری ہوئی ہے کہ ماضی میں بھی ناگاساکی پر امریکہ نے ہی ایٹم بم کا استعمال کیا تھا، جس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ تاہم امریکی صدر باراک اوباما نے ایک مرتبہ پھر افغانستان، عراق، پاکستان کی طرح شام میں بھی اپنے ہی پالے ہوئے دہشت گردوں کے ذریعے شامی عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کروائے ہیں اور پھر شام پر افغانستان اور عراق کی طرح فوجی چڑھائی کا عندیہ دیا ہے، امریکی صدر اوباما کی جانب سے شام پر امریکی فوجی چڑھائی کرنے کے اعلان سے ایک بات تو بڑی واضح ہوگئی ہے کہ شام میں ہونے والا کیمیائی حملہ شامی حکومت نے نہیں بلکہ امریکی ایجنٹ دہشتگردوں نے کیا ہے۔ دراصل امریکی صدر باراک اوباما کہنے کو تو امریکہ کے صدر ہیں، لیکن حقیقت میں وہ القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے سرپرست اعلٰی ہیں کہ جنہوں نے امریکی مقاصد اور صیہونی ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے مشرق وسطٰی سمیت جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء میں بھی ہولناک تباہی پھیلا رکھی ہے۔

ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لئے امریکہ اور دہشتگرد گروہوں بالخصوص القاعدہ جو کہ شام میں النصرة فرنٹ کے نام سے کام کر رہی ہے، ان سب کے مقاصد ایک ہیں، مغربی استعمار اور چند عرب ریاستیں یہ چاہتی ہیں کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے اور وہاں ایسے حکمران کو لایا جائے جو براہ راست امریکہ اور اسرائیل سمیت سعودی عرب اور ان کے دیگر اتحادیوں سے ہدایات حاصل کرے اور انہی ہدایات کے مطابق ملک کے معاملات کو چلائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ شام میں القاعدہ کو بھرپور مالی اور مسلح معاونت کر رہا ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ شام پر امریکی ممکنہ جارحیت کے دوران القاعدہ اور اس سے ملحقہ گروہ امریکہ کے لئے جاسوسی کا کام انجام دینے میں کارگر ثابت ہوں گے۔

شام میں گذشتہ ڈھائی برس سے جاری بحران میں براہ راست امریکہ اور اس کے اتحادی جن میں یورپی ممالک، ترکی اور سعودی عرب شامل ہیں، اس کوشش میں مصروف عمل رہے ہیں کہ شام میں مسلح گروہوں کی مدد سے شامی حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے، لیکن تاحال مغربی استعمار اور عرب اتحادی اس ناپاک مقصد کی تکمیل میں ناکام رہے ہیں۔ البتہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے ان ڈھائی سالوں میں القاعدہ کے ساتھ روابط کو مضبوط کر لیا ہے، جبکہ پاکستان میں اور یمن میں القاعدہ کے خلاف ڈرون حملے جاری ہیں، جس میں القاعدہ کے لوگ تو نہیں بلکہ عام شہری ہی قتل ہو رہے ہیں، جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما القاعدہ کو باقی رکھنا چاہتے ہیں اور عراق سمیت شام اور دیگر مشرق وسطٰی کے ممالک اور مصر میں انہی کی مدد سے بحران کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق شائع ہونے والی ابتدائی رپورٹ میں کہا جا چکا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کئے ہیں بلکہ یہ مہلک ہتھیار دہشت گرد گروہوں کی جانب سے استعمال کئے گئے ہیں، تاہم امریکی صدر باراک اوبامہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم و دائم ہیں اور اس بات پر بضد ہیں کہ شام پر امریکی فضائی حملہ کیا جائے، جس کا حتمی نتیجہ مشرق وسطٰی کی تباہی اور بربادی ہوگا۔ امریکہ ماضی میں بھی جھوٹ کی بنیاد پر عراق میں مہلک ہتھیاروں کے نام پر لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون پانی کی طرح بہا چکا ہے، افغانستان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے، یمن میں امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ قتل ہونے والے بے گناہ معصوم شہریوں کا حال بھی ہمارے سامنے ہے، اب شام میں بھی امریکی صدر اوباما ایک جھوٹ کی بنیاد پر داخل ہو کر وہاں مزید خانہ جنگی کو فروغ دینا چاہتے ہیں، جس کا بنیادی مقصد مشرق وسطٰی کی تباہی اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے \'\'گریٹر اسرائیل\'\' کے ناپاک منصوبے پر عملدرآمد کروانا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکی صدر کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ امریکہ کے صدر ہیں یا پھر دنیا بھر میں دہشتگردی پھیلانے والوں کے سرپرست ہیں؟ کیونکہ شام کے معاملے میں امریکی عوام کی اکثریت امریکی صدر کے شام پر حملے کے فیصلے کو مسترد کرچکی ہے اور عوام یہ چاہتے ہیں کہ امریکی صدر بھی عوام کی امنگوں اور رائے عامہ کا خیال پاس رکھتے ہوئے انکی رائے کا احترام کریں۔ اب فیصلہ اوباما کو کرنا ہے کہ وہ امریکہ کے صدر کہلوانا پسند کریں گے یا پھر دہشتگردی کے بانی؟
خبر کا کوڈ : 299615
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش