0
Tuesday 17 Sep 2013 14:35

شہید ناموس رسالتؐ سید علی رضا تقوی ؒ کا عزم و حوصلہ

شہید ناموس رسالتؐ سید علی رضا تقوی ؒ کا عزم و حوصلہ
تحریر: حجۃ الاسلام علامہ سید صادق رضا تقوی

اتوار کے دن لوگ معمولاً ہفتہ بھر کاروباری اور ملازمت کی مصروفیات کی وجہ سے انجام نہ شدہ کاموں کی انجام دہی کیلے رات گئے تک جاگنے نیز ہفتہ کی تھکن اتارنے کی غرض سے دیر تک سونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 16 ستمبر 2012ء اتوار کے دن لوگ اسی طرح کی مصروفیات میں مشغول تھے لیکن شہر کراچی میں ایک عجیب سا سماں تھا، آسمانوں کے فلک نشینوں میں ایک ہلچل سی مچی تھی اور صاحبان دل کے دلوں میں ایک عجیب سی تمنا کروٹیں بدل رہی تھی۔ یوں تو طے شدہ منصوبے کے مطابق توہین رسالتؐ کے خلاف امریکہ اور یورپ کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی جانی تھی جو اپنے مقررہ راستوں سے ہوتی ہوئی امریکی سفارتخانے پر جاکر اختتام پذیر ہوتی، یاداشت پیش کی جاتی اور پر امن طریقے سے ختم ہو جاتی۔ اِس ریلی کیلئے باقاعدہ اجازت لی گئی تھی اور تمام راستے پولیس اور حساس ادارے موجود تھے۔ مظاہرین کو ایک امریکی سفارتخانے کے کئی فرلانگ دور ایک خاص مقام تک روکنے کیلئے ہیوی کنٹینرز کی رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھی۔ 8 کلو میٹر سے زیادہ اِس سفر میں ابتداء سے آخر تک کہیں کوئی بدمزگی سامنے نہیں آئی۔

ریلی میں شریک ہر ایک شخض ایک جذبے سے سرشار تھا، معاملہ ہی کچھ ایسا تھا، توہین رسالت مآب ؐ کا۔ ایسی لئے تو ایک خاص قسم کا جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا تھا، ہر جوان، بزرگ، بچہ اور خاتون سبھی بے چین، مضطرب اور ایمان کی سلامتی کے حوالے سے پریشاں دکھائی تھے، رنگ برنگ پرچم اور لبیک یا رسول اللہ ؐ کے سبز پرچموں نے سب کو ہم جہت و ہم صدا کردیا تھا، مگر ایک بات ضرور ہے کہ تمام شرکائے ریلی نے اپنے تمام کاموں کی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی کہ وہ ریلی کے اختتام پر کیا کیا کام انجام دیں گے، اُنہوں نے کیا کرنا ہے اور اُن کا اگلا قدم کیا ہوگا! مگر ان شرکاء میں ایک ایسا جوان بھی تھا جو کچھ اور ہی سوچ کر آیا تھا، اُس کی راہ سب سے الگ اور جدا تھی اور اُس کے ذہن میں کچھ اور ہی منصوبہ بسا ہوا تھا، گو کہ وہ بہت کم گو تھا لیکن اُس دن اُس کے دل میں تڑپنے والی آرزو در حقیقت اُس کے مافی الضمیر کو بیان کرنے پر اُسے مجبور کررہی تھی۔

شہید ناموس رسالتؐ سید علی تقوی ؒ نے اس ریلی سے کچھ اور ہی معاہدہ کیا ہوا تھا، وہ الگ ہی سوچ کا حامل تھا کہ جس کا اظہار اُس نے گذشتہ چند روز سے اپنے اہل خانہ اور دوست و احباب سے کیا ہوا تھا۔ وہ ریلی میں گویا سب سے پیچھے تھا مگر سب سے آگے دیکھا گیا! وہ خاموش ضرور اور چپ طبیعت کا مالک ضرور تھا لیکن اُس دن اُس کی پراسرار خاموشی اور مسکراہٹ اُس کے من میں چھپے طوفان کا پتہ دے رہی تھی، ریلی میں اُس کے وہ بریدہ بریدہ جملے، دوستوں سے اشاروں کنایوں میں باتیں، رموز و اسرار سے لبریز اشارے سبھی اس کے متمنی شہادت ہونے کا پتہ دے رہے تھے۔

اُس کی شہادت کے بعد یہ راز کھلا کہ اُس کی تمام حرکات و سکنات اور باتیں اِس بات کا ثبوت فراہم کر رہی تھیں کہ وہ شہادت کا کتنا شوقین، تشنہ اور دلدادہ تھا۔ اُس کی تحریریں آج بھی اِسی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ شہید سید علی رضا تقوی اپنے گھر میں چار بہنوں کے بعد پہلا بیٹا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ سے گھر والوں کی آنکھوں کا تارا تھا، مگر آٹھویں جماعت میں والد کے انتقال کے بعد اُس کی محنت و مشقت والی زندگی نے اُسے پر عزم، با حوصلہ اور آتش فشاں بنا دیا تھا۔ اُس کا کمسنی میں ہی ملازمت کرنا اُس کے حوصلوں کی پختگی نیز اسے عشق کی بھٹی میں کندن بنانے میں مددگار بنا۔ وہ خاموش ضرور تھا مگر اپنی کم گوئی سے اہل وطن کو یہ پیغام دے گیا کہ کچھ کرنے کا جذبہ رکھو، حالات سے مت گھبراؤ، سخت حالات انسان کو مضبوط بناتے ہیں، اُس کے ارادوں کو مستحکم اور یقین کو محکم کرتے ہیں۔

شہید سید علی رضا تقوی ؒ اپنی زندگی میں عشق و محبت رسول و آل رسول ؐ کی اعلیٰ مثال تھے۔ وہ تمام افراد کہ جنہوں نے اپنی زندگی میں کار ہائے نمایاں انجام دیئے اُن کی زندگی کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ افراد ابتداء ہی سے اپنے دل میں کچھ کرنے کی تمنا رکھتے ہیں، فرق یہ ہے کہ بعض افراد کو اپنی زندگی میں موقع مل جاتا ہے اور وہ اپنی زندگی میں ہی کوئی بڑا کارنامہ انجام دیتے ہیں اور کچھ لوگ مناسب موقع نہ ملنے اپنی موت سے پیغام دے جاتے ہیں کہ کچھ کرنے والے اپنی منزل کی جانب بڑھنے والے اپنے قدموں کی رفتار کو نہیں روکتے۔ شہید علی رضا تقوی ؒ نے جب میٹرک پاس کیا تو اُنہیں نائن کلاس کی جانب سے الوداعی پارٹی میں ایک شعر دیا گیا جو ان کی زندگی پر پورا اُترتا ہے، منزل پر پہنچنے کی طلب ہوتی ہے جن کو رستے میں کھڑے ہوکے وہ سوچا نہیں کرتے۔

یہی وجہ ہے کہ شہید اپنی تمام زندگی میں عزم و حوصلے، استقامت، جدوجہد، حرکت و فعالیت اور ہر دور میں ہر زمانے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی اعلیٰ اور زندہ مثال تھے۔ ہزاروں عاشقان رسول ؐ میں سے گولیوں نے صرف علی رضا تقوی ؒ کا ہی انتخاب کیا اور یہی اُن کی حقانیت کی دلیل ہے کہ آپ کا جذبہ شہادت اس حد تک جا پہنچا تھا کہ آپ نے بارہا اس کا تذکرہ کیا۔ شہید نے اپنی شہادت سے دنیا کے تمام نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ آپ اپنے دل میں جذبہ شہادت کو زندہ رکھیں اور خلوص نیت سے عمل کریں تو خداوند عالم آپ کو وہ موقع ضرور عطا کرے گا کہ وہ اپنے خون میں نہا کر اپنے رب سے ملاقات کرے۔ شہید علی رضا تقوی نے اسم علی مرتضیٰ کی لاج رکھتے ہوئے محمد ؐ پر اپنی جاں نثار کردی۔ اگر یہ کہا جائے کہ شہید علی رضا تقوی اسم مسمّیٰ تھا یعنی نام کا بھی علی تھا اور کام بھی علی۔

وہ یہی کہنا چاہتا تھا ........... گویا کہہ بھی گیا کہ ............
دل میں آرزو رکھو کچھ کر گزرنے کی ......... تمنا کو زندہ رکھو......
حالات کتنے دشوار ہی کیوں نہ ہوں ............. تمنا کو زندہ رکھو.....
خبر کا کوڈ : 302581
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش