0
Wednesday 25 Sep 2013 01:28

ہندو دہشتگردی کی آگ میں جلتے بھارتی مسلمان

ہندو دہشتگردی کی آگ میں جلتے بھارتی مسلمان
تحریر: جاوید عباس رضوی

بھارت جمہویت و سکیولرزم کا ڈھول پیٹنے والا اپنی تمام تر کاوشیں بروے کار لا کر یہاں مسلم کشی میں برسوں سے مصروفِ بربریت ہے، ابھی مسلمانان ہند کے پرانے زخم تازہ ہی ہوتے ہیں تو نئی مصیبت آن پڑتی ہے، کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، جگہ جگہ پر امن قائم کرنے کے نام پر مسلمان نسل کا وجود ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، گجرات کا خونین معرکہ اب تک بھارت کے ذی شعور مسلمانوں کو خون کے آنسو رلاتا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل مودی کو اب بھارت کا وزیراعظم نامزد کیا جا رہا ہے،  گجرات واقعہ کے بعد سے بھارت کا ہر مسلمان اپنی عصمت و ناموس کو خطرے میں محسوس کر رہا ہے، ساتھ ہی ساتھ اپنی جان و املاک کو بھارت میں غیر محفوظ مانتا ہے۔

بھارتی مسلمان کو دن میں سکون نہ رات کو چین، ہر آئے دن جان ہتھیلی پر لئے ہوئے کام کاج کے لئے بیرون خانہ نکلتے ہیں کہ نہ جانے کب کس ہندو شدت پسند کا شکار ہو جائیں، روز بروز مسلمانان ہند کو بھارت میں نئے نئے الزامات میں ملوث کیا جا رہا ہے، کبھی انکو دہشتگرد کا نام دیا جاتا ہے تو کبھی پاکستان نوازی کا، کبھی ہمارے صحافی حضرات کو گرفتار کیا جا رہا ہے تو کبھی ان کے قلم پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، کبھی ہماری مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کیا جاتا ہے تو کبھی ہمارے جلوسوں پر قدغن عائد کیا جاتا ہے، کبھی مسلمانوں کو انتخابات میں حصہ لینے نہیں دیا جاتا تو کبھی ووٹ ڈالنے کا حق چھینا جاتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مسلمانوں کو بھارت میں رہنے کا حق نہیں ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بھارت کی حکومت، بھارت کے ایوان، بھارتی عدلیہ اور بھارت کے شدت پسند ہندو مسلمانوں سے کہہ رہے ہوں کہ اے مسلمان تونے بھارت کو چن کر اور پاکستان کا انتخاب نہ کرکے بڑی غلطی کی ہے اب ہمیشہ بگھتو۔

گجرات سانحہ مصیبت کی آخری کڑی نہیں تھی بلکہ بھارت میں مسلمانوں پر رنج و الم کی ابتداء تھی، اس سانحہ سے گجرات کے علاوہ دیگر ریاستوں میں بھی ہندو شدت پسندوں کو حوصلہ افزائی ملی اور انہوں نے مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ڈھانے شروع کئے، جس کی جھلکیاں بھرت پور، مراد آباد اور حال ہی میں یوپی مظفرنگر میں دیکھنے کو ملتی ہیں، دہلی کا بٹلہ ہاوس انکونٹر بھی مسلمانوں سے بےرخی و دہرے معیار کی تمثیل ہے، غرض کہ مسلم جوانوں اور مسلم خواتین کو بھارت میں کسی نہ کسی بہانے اذیت و تکلیف ہر حال میں دی جاتی ہے، ہندو شدت پسند قاتلان بھارت میں عزت و آزادی سے گھومتے ہیں اور نریندر مودی کی شکل میں حکمرانی بھی چلاتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ انہیں بھارتی حکومت تحفظ بھی فراہم کر رہی ہے، اور نریندر مودی جیسے قاتل کو بھی وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کیا جا رہا ہے۔

بھارتی ریاست یوپی کے ضلع مظفر نگر میں ہونے والے حالیہ فسادات نے ہزاروں مسلمانوں کی زندگیاں چند گھنٹوں کے اندر اندر تہہ و بالا کر کے رکھ دیں، اب یہ ہزاروں لوگ امدادی کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں، امدادی کیمپوں میں رہ رہنے والے بےگناہ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ’’وہ اتنے بےبس ہیں کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا اور امید کی کوئی کرن بھی نہیں دکھائی دیتی، ہمارا کچھ ہے ہی نہیں، ہندوں کے ہاتھ میں قانون ہے، حکومت ان کی، لاٹھی ان کی ہے، طاقت انکے پاس ہے، گاؤں ان کا، انہی کی چلے گی، جب ان کی چلے گی تو اب ہمیں ایسی جگہ بھیج دو جہاں ان کی نہ چلے اور ہم کچھ کما کھا سکیں‘‘۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں ’’بھارت کا باشندہ ہونے کے باوجود اکثر پاکستانی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے‘‘۔

مظفر نگر کے حالیہ ایک متاثر محمد یاسین کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کا کوئی بھی ذمہ دار انکی مدد کے لئے آگے نہیں آیا، وہ کہتے ہیں کہ میری بیوی کے پیٹ میں بچہ تھا، ہندو شدت پسندوں نے لات مار کر اسے ختم کر دیا، مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ بچی تھی یا بچہ تھا، میری داڑھی کھینچی گئی، 90 سال کے ایک ضعیف کو زندہ جلایا، یاسین نے بتایا کہ 20 دن قبل فساد کی رات قیامت کا منظر تھا، گاؤں سے ان کے خاندان کو اجاڑ دیا گیا اور اب وہ کہیں کے نہیں رہے، ہم کوئی محتاج نہیں، لیکن اب ماحول یہ ہے کہ ہم اجرت پر کام بھی نہیں کرسکتے، ہمارا گاوں اب رہنے کے لائق نہیں رہا، ہمارے گاوں میں اب ہمارا کوئی نہیں ہے، اب ہم جائیں تو جائیں کہاں،؟ کس سے فریاد کریں اور کون داد رسی کرے، آخر ہمارا قصور کیا ہے اور ہمیں کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے۔؟

بیس دن پہلے ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں تقریباً پچاس سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے اور اس وقت تقریبـاً چالیس ہزار مسلمانوں نے پناہ گزین کمیپوں میں پناہ لے رکھی ہے، فسادات کے دوران سینکڑوں گاؤں میں مسلمانوں کی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا، جان بچا کر بھاگنے والے بیشتر مسلمان اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ اپنے گاؤں واپس جانے کے لئے تیار نہیں ہیں، بہت سے متاثرین کا خیال ہے کہ فسادات مسلمانوں کو ان کی زمین سے بےدخل کرنے کے لئے کئے گئے تھے، انہیں خدشہ ہے وہ اپنی زمین واپس حاصل نہیں کرسکیں گے اور ماضی کے گجرات فسادات کی طرح اس بار بھی مجرموں کو شاید کوئی سزا نہ مل سکے کیوں کہ ان فسادات میں اعلیٰ افسران بھی شامل و شریک تھے اور حکومت کی پشت پناہی بھی۔

مظفر نگر فسادات خود ساختہ نوعیت کے نہیں تھے اور اگر گزرے ہوئے دنوں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو یہ صاف طور پر پتہ چلتا ہے یہ فسادات کرائے گئے تھے اور ان میں سرگرم سیاسی جماعتیں شامل تھیں، اس سیاسی صورتحال کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ مظفر نگر میں بھیانک فسادات رونما ہوئے جس میں 50 سے زیادہ جانیں تلف ہوئیں جمیت العلماء ہند نے دورے کے بعد مہلوکین کی جو فہرست شائع کی ہے اس میں پچاس نام ہیں اور ایک کے سوا سب مسلمان ہیں، ان کے علاوہ کچھ غیر مسلم بھی مارے گئے مثلاً گورو اور سچن جنہوں نے شاہنواز کو بھرے بازار میں مار ڈالا اور جنہیں مشتعل ہجوم نے ہلاک کر دیا، اس طرح گویا فساد کی ابتداء ہو گئی، ان کے علاوہ آئی بی این ٹی وی چینل کا ہلاک ہونے والا صحافی راجیش ورما اور بس۔

مسلمانوں کے نقطہ نظر سے یہ فسادات اس بات کے غماز ہیں انتخابی سیاست سے بیجا توقعات انہیں تحفظات فراہم نہیں کر سکتے، جوڑ توڑ کی انتخابی سیاست پر تعمیر ہونے والے ہوا محل کو ہوا کا معمولی سا جھونکا زمین دوز کر دیتا ہے، جن کو دوست سمجھ کر ووٹ دیا جاتا وہ دشمنوں کے ہمنوا ہوتے ہیں، گذشتہ دس سالوں سے مظفر نگر کے مسلمان کمال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدت پسند جماعت بی جے پی کو کامیاب ہونے سے روک رہے ہیں، ان لوگوں نے اسمبلی میں ایس پی کو جتایا جس نے حکومت بنائی، پارلیمان میں بی ایس پی کو کامیاب کیا جو حزب اقتدار کی حلیف ہے اس کے باوجود مظفرنگر کے مسلمان بدترین قسم کے فساد سے دوچار ہوئے اور پچاس لوگوں کی شہادت کے ساتھ ہزاروں کو بےگھر ہونا پڑا، اس لئے بھارتی مسلمانوں کے لئے یہ سمجھ لینا کہ انتخابی کامیابی جادوئی کا چراغ ہے اور اس کے اندر سے نکل کر آنے والا جن ہمارا تحفظ کرے گا ایک خام خیالی سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔

مظفرنگر فسادات میں حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آئی یا یہ انتہا پسند ہندو تنظیمیں شاید حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں کیونکہ اس طرح کے ظالمانہ واقعات پہلے بھی کئی بار ہوچکے ہیں اور ایسے واقعات روکنے کے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں ہوتے ہیں، افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس سے پہلے بعض واقعات میں انتظامیہ کے ملوث ہونے کے بھی ثبوت ملے ہیں جیسے کی گجرات فسادات جو براہ راست اس وقت کے اور موجودہ ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ نریندی مودی نے کرائے، محسوس ہوتا ہے کہ اس ظلم و ستم میں انتظامیہ اور ہندو بلوائی دونوں برابر کے شریک ہوتے آئے ہیں ان حالات میں مظلوم کو حق اور انصاف ملنا دور کی بات ہے۔
خبر کا کوڈ : 304111
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش