0
Tuesday 24 Sep 2013 12:13

انسداد دہشتگردی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری

انسداد دہشتگردی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری
تحریر: تصور حسین شہزاد

وفاقی کابینہ نے اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کی منظوری دے دی۔ کابینہ کا اجلاس وزیراعظم میاں نواز شریف کی سربراہی میں ہوا جس میں وفاقی وزیر زاہد حامد نے انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کی سفارشات پیش کیں جن پر بحث مباحثے کے بعد ان کی منظوری دے دی گئی۔ نئی ترامیم کے مطابق ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے سے قبل 90 دن تک حراست میں رکھا جا سکے گا اور یہ حراست کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی۔ یاد رہے کہ ملزمان کو تین ماہ تک زیرِ حراست رکھنے کی تجویز گذشتہ دورِ حکومت میں بھی سامنے آئی تھی تاہم اسے پارلیمان کی منظوری حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اب سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی گواہی بھی عدالت کے لیے قابل قبول ہوگی اور جو اہلکار کسی بھی شدت پسند کو گرفتار کرے گا وہی گواہی کے لیے عدالت میں بھی پیش ہو سکے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے شدت پسندی کے مقدمات میں سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی گواہی تسلیم نہیں کی جاتی تھی۔ان ترامیم میں دہشت گردی کے مقدمات میں سرکاری وکلاء اور گواہان کا تحفظ بھی یقینی بنایا گیا ہے۔

نائن الیون کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت نے جس طرح پورے نظام کو تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے اس نے خاص طور پر ہمارے نظام عدل اور سکیورٹی ایجنسیز کے لئے بہت ساری مشکلات کھڑی کر دی تھیں، بالخصوص قومی سلامتی کے اداروں اور عدلیہ کے درمیان اس بات پر نزاع پایا جاتا تھا کہ پولیس اور ایجنسیاں جن مجرموں کو پکڑتی ہیں عدالتیں انہیں عدم ثبوت کی بنا پر رہا کر دیتی ہیں جس سے معاشرے میں جرائم خصوصاً دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پانے میں رکاوٹیں درپیش رہیں اس ضمن میں اعلیٰ عدلیہ اور فوج کی طرف سے حکومت کو کئی بار قانون سازی کیلئے کہا گیا تھا، انسدادِ دہشت گردی کا قانون 1997ء میں پہلی مرتبہ منظور کیا گیا تھا۔ 2010ء میں بھی اس قانون میں ترمیم کے لیے کابینہ کی جانب سے منظوری دی گئی تھی تاہم ان ترامیم کو پارلیمنٹ سے منظور نہ کروایا جا سکا اور یہ معاملہ اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی سطح پر دب کر رہ گیا تھا۔ گم شدہ افراد کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ میں کیسوں کی جاری سماعت کے دوران سکیورٹی ایجنسیز کو ضروری قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے نامناسب حالات کا سامنا کرنا پڑتا رہا جس سے ان کی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔

اس تناظر میں موجودہ حکومت ابتداء میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی پالیسی کا مسودہ سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی بنیاد پر تیار کرنے کا ارادہ رکھتی تھی تاہم وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے اصرار پر وزیراعظم نواز شریف نے پالیسی کا مسودہ پہلے تیار کرنے اور پھر اسے سیاسی جماعتوں کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ گذشتہ ماہ کے اوائل میں وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ملک میں انسدادِ دہشت گردی کی نئی پالیسی کے خدوخال بیان کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے "نیکٹا" کو فعال بنانے اور ملک کی تمام خفیہ اور سکیورٹی ایجنسیوں پر مشتمل ایک مشترکہ انٹیلی جنس سیکرٹریٹ قائم کرنے کا اشارہ دیا تھا۔ اس کے علاوہ ترمیمی ایکٹ میں خصوصی عدالتیں بھی بنانے کی منظوری دی گئی ہے، جو سات دن یا زیادہ سے زیادہ تیس دن میں مقدمات کا فیصلہ کریں گی۔ جو جج اس عرصے میں فیصلہ نہ کر سکے تو مقدمہ اور جج کے خلاف شکایت چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس جائے گی، خیال رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں پہلے سے ہی کام کر رہی ہیں۔

زیرنظر ترامیم میں ایک ترمیم رینجرز کو تفتیش کے اختیارات دینے سے متعلق ہے۔ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے رینجرز کو یہ اختیار پہلے ہی خصوصی طور پرحاصل ہے تاہم اب اسے قانون کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ مزید برآں رینجرز کو خصوصی حالات میں دہشت گردوں، بھتہ خوروں اور دیگر مشتبہ افراد کو وارننگ جاری کرنے کے بعد موقع پر ہی گولی مارنے کا اختیار بھی ہو گا، ترمیمی ایکٹ میں دہشت گردی کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے کے علاوہ اس سلسلے میں موبائل پر ایس ایم ایس بھیجنے والوں کو بھی سزا دینے کی تجویز ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس بل میں یہ تجویز بھی رکھی گئی ہے کہ اگر کسی فرد کے اکاؤنٹ میں منتقل ہونے والی رقم کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ایسے شواہد ہوں کہ اْسے شدت پسندی کی وارداتوں میں استعمال کیا جائے گا تو انہیں اْس کے خلاف بھی کارروائی کرنے کا اختیار ہو گا۔

ہم 2002ء سے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ فوج، رینجرز، پولیس، وفاقی تحقیقاتی ادارہ اور سراغ رساں ایجنسیوں کی طرف سے مسلسل تقاضا کیا جا رہا تھا کہ اگر حکومت ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تو پھر اسے سکیورٹی ایجنسیز کو مطلوبہ قانونی تحفظ اور اختیارات دینا ہوں گے، امید کی جانی چاہیئے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم پارلیمنٹ سے اتفاق رائے سے منظوری کے بعد قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے زیادہ تن دہی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں گے تاہم اس بات کا اہتمام بھی کیا جانا ضروری ہے کہ لامتناہی اختیارات کا ناجائز استعمال نہ ہو اور کوئی بےگناہ با اختیار اداروں کے اہلکاروں کی خود سری کا شکار نہ ہو۔

حالات کے مطابق قانون سازی نہ ہونے کے باعث ہی قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کا فعال نہ ہونا پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی پالیسی کی تشکیل میں اب تک سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ مزید برآں حکومتوں کے تذبذب میں رہنے کی وجہ سے واضح پالیسی گائیڈ لائنز موجود نہ ہونے کے باعث سکیورٹی اداروں میں ہم آہنگی کا فقدان بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے سلامتی کے اداروں کی کارگردگی متاثر کرتا رہا ہے۔ اسی تناظر میں میاں نواز شریف کی حکومت نے ملک کو اس نحوست سے نجات دلانے کا عزم صمیم کیا اور ان کی رہنمائی میں وزارت داخلہ کی جانب سے تیار کی جانے والی انسداد دہشت گردی ایکٹ میں یہ ترامیم ایک طرف جہاں سکیورٹی ایجنسیز کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا موقع فراہم کریں گی وہیں یہ ان کے لئے امتحان سے بھی کم نہیں۔

کیا ہماری سلامتی کے ضامن ادارے اس امتحان میں پورا اتر سکیں گے؟ اس سوال کا جواب وقت دے گا تاہم معترضین کا یہ کہنا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں مجوزہ ترامیم فورسز کو غیر معمولی اختیارات تفویض کرتی ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ہمیں غیر معمولی دہشت گردی کا سامنا ہے جس پر قابو پانے کے لئے اس قسم کے دلیرانہ فیصلے کی ضرورت تھی۔ بھارت، سری لنکا، برطانیہ، امریکا غرضیکہ دنیا میں جس جگہ بھی شدت پسندی نے ملکی استحکام اور سلامتی کو چیلنج کیا حکومتوں نے اسے کچلنے کے لئے فوری طور پر ہنگامی اقدامات کئے اور اپنے شہریوں کی جان و مال اور ملک بچانے کے لئے ملک دشمنوں کو انجام تک پہنچایا ہمیں بھی یہی کرنا ہوگا حکومت نے ملکی بقا کے لئے جرأت مندانہ قدم لیا ہے قوم کو اس کی تائید کرنا ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 304518
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش