0
Friday 4 Oct 2013 00:59

اسرائیلی کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں امریکہ اور یورپ کا کردار

اسرائیلی کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں امریکہ اور یورپ کا کردار
اسلام ٹائمز- اپریل 1948ء میں اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوربن جو اس عقیدے کا مالک تھا کہ "مملکت اسرائیل" کی بنیاد فلسطینی ویرانوں اور فلسطینی عوام کی لاشوں پر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، نے یورپ میں موجود یہودیوں کی ایجنسی کے ایک نمائندے کو خط لکھا۔ اس نے اس خط میں تاکید کی کہ ایسے سائنسدانوں کو بھرتی کیا جائے جو "اسرائیل کو وسیع پیمانے پر انسانوں کا قتل عام کرنے یا ان کا مداوا کرنے کی صلاحیت عطا کر سکیں"۔

اسرائیل کے انتہائی مہلک بائیولوجیکل ہتھیاروں کے پروگرام کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ بعض مائیکروبائیولوجی کے ماہرین جیسے ارنسٹ ڈیوڈ برگ مین، اوراھام مارکوس کلین برگ اور کاٹاچالسکی بردرز جو سب کے سب امریکی شہری تھے کا نام مختلف اسناد و مدارک میں ذکر کیا گیا ہے جو اسرائیل کے بائیولوجیکل ہتھیاروں کے پروگرام سے منسلک ہو گئے۔ یہ افراد بعض دوسرے سائنسدانوں کے ہمراہ "نالج آرمی" نامی یونٹ کا حصہ بن گئے جو بذات خود ایک بڑے مسلح گروہ "ھاگانا" کا حصہ تھی۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس مسلح گروہ کے اندر ایک نیا یونٹ تشکیل پایا جو آج تک نت نئے بائیولوجیکل ہتھیاروں کی تیاری کیلئے علمی تحقیقات کی ذمہ داری انجام دے رہا ہے۔ اس جدید یونٹ کا نام “Biological Research Center of Israel” بتایا جاتا ہے۔ اسرائیل کے اس بائیولوجیکل تحقیقاتی ادارے کی سرگرمیاں انتہائی مخفیانہ طور پر انجام پاتی تھیں اور اسے انتہائی راز میں رکھا گیا تھا جس کے نتیجے میں کئی سالوں تک دنیا میں کسی کو اس تحقیقاتی مرکز کے بارے میں کوئی اطلاع نہ تھی۔ لیکن 4 اکتوبر 1992ء کو ایک ایسا حادثہ رونما ہوا جس کی وجہ سے شروع ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں اس خفیہ تحقیقاتی مرکز کی سرگرمیاں منظرعام پر آ گئیں۔

4 اکتوبر 1992ء کو ایک ہوائی جہاز ہالینڈ کے شہر آمسٹرڈم میں چند عمارتوں سے ٹکراتا ہے۔ اس حادثے میں جہاز میں سوار 4 افراد اور فلیٹس میں رہنے والے 39 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ حادثہ ہالینڈ کی تاریخ کا بدترین ہوائی سانحہ قرار پاتا ہے۔ ہالینڈ کی حکومت نے اس حادثے کے فورا بعد یہ اعلان کیا کہ اس جہاز میں پھل فروٹ، عطر اور کمپیوٹر کے پارٹس منتقل کئے جا رہے تھے لیکن بعض حقائق ایسے تھے جو اس رسمی اعلان سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ ہالینڈ میں رونما ہونے والے اس ہوائی سانحے کے ایک سال بعد علاقے کے رہائشی افراد اور وہاں کام کرنے والے افراد میں مشابہ قسم کی بیماریاں ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔ ڈاکٹرز سے رجوع کرنے والے افراد شکایت کرتے تھے کہ انہیں بے خوابی، نظام تنفس میں انفکشن، بدن میں درد اور بے چینی، جنسی طاقت کا خاتمہ اور پیشاب میں تکلیف جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ان افراد کا خیال تھا کہ یہ سب بیماریاں کسی نہ کسی طرح حادثے کا شکار ہوائی جہاز سے مربوط ہیں۔

جب شور شرابا حد سے بڑھا تو اکتوبر 1993ء میں ہالینڈ میں نیوکلئیر ریسرچ اکیڈمی کی جانب سے تحقیقات انجام پائیں اور ان تحقیقات کے نتیجے میں اعلان کیا گیا کہ گرنے والے ہوائی جہاز کی دم میں باقی تمام بوئنگ 747 طیاروں کی مانند کمزور شدہ یورینیم موجود تھا جس کی وجہ سے یہ تمام بیماریاں پھیلی تھیں۔ بعض اداروں کی جانب سے حکومت پر تاکید کی گئی کہ وہ ہوائی جہاز میں سوار افراد کے بارے میں بھی تحقیقات انجام دے لیکن حکومت کی جانب سے ان مطالبات پر کوئی توجہ نہ دی گئی بلکہ یہی جواب دیا گیا کہ علاقے کے افراد میں پائی جانے والی بیماریوں کا ہوائی سانحے سے کوئی تعلق نہیں۔

1997ء میں اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ میں ایک سائنسدان نے ایک ایسی رپورٹ پیش کی جس نے اس حادثے کے بارے میں دوبارہ تحقیقات انجام پانے کی ضرورت کو زندہ کر دیا۔ اس سائنسدان نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ بوئنگ 747 طیارے کی دم میں موجود کمزور شدہ یورینیم کے جلنے سے کوئی ایسا کیمیکل ہوا میں نہیں پھیلتا جو مذکورہ بالا بیماریاں پیدا ہونے کا باعث بن سکے اور انسان کی صحت کیلئے مضر سمجھا جائے۔ اس رپورٹ کے ایک سال بعد یعنی 1998ء میں ہالینڈ کے ایک صحافی کارل نیپ نے بعض تحقیقات انجام دیں جس کے نتیجے میں کافی سنسنی خیز حقائق منظرعام پر آئے۔ ان تحقیقات کی روشنی میں نہ صرف یہ معلوم ہوا کہ ہالینڈ کی حکومت نے جھوٹے بیانات کے ذریعے حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی بلکہ اسرائیل کے پاس موجود بڑے پیماے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی تیاری میں امریکہ کے کردار سے متعلق حقائق بھی کھل کر سامنے آ گئے۔

کارل نیپ جو ہالینڈ سے شائع ہونے والے ایک معروف اخبار کے سائنس اینڈ ٹیکنولوجی سیکشن کے چیف ایڈیٹر بھی ہیں نے 1998ء میں فاش کیا کہ حادثے کا شکار ہونے والے اس جہاز میں عطر اور پھل فروٹ نہیں تھے۔ اخبار اس وقت شائع ہونے والے اپنے شمارے میں لکھتا ہے:
"اس باربردار طیارے سے مربوط اسناد و مدارک ظاہر کرتے ہیں کہ اس میں "ڈی میتھائل میتھائل فاسفیٹ" نامی کمیکل اور دو دوسرے کیمیائی مادے رکھے ہوئے تھے جو خطرناک کیمیائی ہتھیار سیرائن کی تیاری میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ جہاز میں موجود ان کیمیکلز کی مقدار تقریبا 50 گیلن تھی جس نے 3 ہزار سے زیادہ ہالینڈ شہریوں کی جان کو خطرے میں ڈال رکھا تھا"۔

یاد رہے کہ سیرائن این انتہائی خطرناک قسم کا کیمیائی ہتھیار ہے جو گیس کی صورت میں ہوتا ہے اور مسٹرڈ اور کلورین گیسوں سے کہیں زیادہ مہلک اور جان لیوا ہے۔ ہالینڈ کے اس صحافی کی جانب سے انجام پانے والی تحقیقات نے بے شمار حقائق سے پردہ اٹھایا جن میں سے ایک یہ حقیقت تھی کہ اسرائیل میں ایک تحقیقاتی مرکز موجود ہے جس کا نام “Biological Research Center” ہے اور اس کا کام نت نئے بائیولوجیکل ہتھیار تیار کرنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہو گیا کہ اس کیمیکل مادے کے نقل و حمل کی اجازت امریکہ وزارت تجارت نے صادر کی تھی جو کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی محسوب ہوتی ہے۔

اسرائیل کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں امریکہ کے کردار کے بارے میں بھی بہت سے حقائق سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل میں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ماہرین میں سے 140 کا تعلق امریکہ کے بعض اہم سرکاری مراکز سے ہے۔ ان امریکی سرکاری اداروں میں پینٹاگون سے وابستہ "والٹر ریڈ"، امریکہ کی مرکزی حکومت سے وابستہ "انٹیگریٹڈ میڈیکل سسٹمز"، امریکہ کی یوٹا یونیورسٹی سے وابستہ مرکز برائے کیمیائی و بائیولوجیکل ہتھیار اور اسی قسم کے دوسرے اہم مراکز کا نام قابل ذکر ہے۔

البتہ فاش ہونے والے حقائق صرف امریکی مراکز تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بعض یورپی ممالک میں واقع تحقیقاتی مراکز بھی کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے میں مصروف ہیں۔ ان میں سے برطانیہ کے بائیولوجیکل ہتھیاروں کے پروگرام، جرمنی اور ہالینڈ کے مراکز کا بھی نام سامنے آیا ہے۔ ان رپورٹس سے دنیا پر واضح ہو چکا ہے کہ اسرائیل نہ صرف بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی، بائیولوجیکل اور ایٹمی ہتھیار بنانے میں مصروف ہے بلکہ روز بروز ان کے حجم اور تعداد میں بھی اضافہ کر رہا ہے جس کی وجہ سے آج اسرائیل مشرق وسطی میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

مارچ 2003ء میں بی بی سی پر "اسرائیل کے پراسرار ہتھیار" کے عنوان سے ایک ڈاکومنٹری نشر کی گئی جس میں اسرائیل میں تیار کئے جانے والے کیمیائی، بائیولوجیکل اور جوہری ہتھیاروں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔

اب جبکہ شام حکومت اپنا کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق پروگرام ترک کر چکی ہے اور کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کو تسلیم کرنے کے بعد اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کو یہ ہتھیار تلف کرنے کی اجازت بھی دی چکی ہے، سیاسی ماہرین کی نظر میں اسرائیل کے پاس موجود ان مہلک ہتھیاروں کی نابودی اور خطے کو کیمیائی ہتھیاروں سے پاک خطہ قرار دینے کا سنہری موقع فراہم ہو چکا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اسرائیل کے پاس موجود بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں سے متعلق اپنی ہمیشہ کی خاموشی کو توڑ پائیں گے جن کی تیاری میں ان کا اپنا بھی موثر کردار شامل ہے؟ آیا امریکی صدر براک اوباما اپنے اس دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "امریکہ تقریبا گذشتہ سات عشروں سے دنیا کی سیکورٹی کا مرکز و محور رہا ہے" کوئی عملی قدم اٹھا پائیں گے؟ یا وہ بھی اپنے گذشتہ صدور مملکت کی مانند اسرائیل میں موجود کیمیائی، بائیولوجیکل اور جوہری ہتھیاروں کے ذخائر سے اپنی نظریں بند ہی رکھیں گے؟

اب تک صدر براک اوباما کا گذشتہ امریکی صدور مملکت سے صرف یہی فرق نظر آیا ہے کہ انہیں امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 307974
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش