0
Friday 4 Oct 2013 23:46

حکومت طالبان مذاکراتی عمل اور میڈیا کا کردار

حکومت طالبان مذاکراتی عمل اور میڈیا کا کردار
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے جس کا شکار صرف شیعہ اور سنی ہی نہیں اب غیر مسلم بھی ہونا شروع ہوگئے ہیں اور دہشت گردوں نے اپنی وارداتوں کا دائرہ کار بڑھا لیا ہے۔ اس حوالے سے امید افزا بات یہ ہے کہ حکومت نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ موثر اور بار آور دکھائی دے رہی ہے اور اگر اس میں حکومت کامیاب نہ بھی ہوئی تو یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ طالبان سمیت دیگر دہشت گرد گروہ عوامی حمایت کھو دیں گے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ طاقت کے استعمال میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ ہتھیاروں کی زبان کی بجائے زبان کے ہتھیار کو استعمال کرنا چاہتی ہے مگر سنجیدہ مذاکرات کا عمل تبھی کامیاب ہوسکتا ہے جب یہ میڈیا کی آنکھ سے اوجھل رہ کر پس پردہ ماحول میں کئے جائیں۔ وفاقی وزیر کو خدشہ ہے کہ میڈیا کے ذریعے ہونے والے مذاکرات اس عمل کو خراب کر دیں گے اور فریقین کسی بھی متفقہ سمجھوتے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میڈیا بیانات اور پریس ریلیز کے ذریعے مذاکراتی عمل کرنے کی بجائے میز پر بیٹھ کر معاملات سلجھانا ہی بہترین راستہ ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے وفاق المدارس کے علماء کی جانب سے جاری کی گئی امن اپیل کے جذبہ کی تعریف کی ہے۔

ادھر طالبان کے مبینہ ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بیان جاری کیا ہے کہ اگر حکومت مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہے تو وہ ڈرون حملے بند کروائے وگرنہ مذاکراتی عمل کا سلسلہ آغاز نہیں ہوسکے گا۔ ان کے مطابق تحریک طالبان پاکستان سمجھتی ہے کہ ڈرون حملے حکومت پاکستان کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوسکتے، اگر حکومت پاکستان مذاکرات میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے ڈرون حملے بند کروانا ہوں گے کیونکہ ہمیں ڈرون کے خوف سے کہیں جم کر بیٹھنے کی مہلت ملے گی تو ہم مذاکراتی ٹیم فائنل کرسکیں گے۔ ادھر سوات میں طالبان کے امیر ملا فضل اللہ نے مذاکرات کو بھی جنگ کا جزو قرار دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ جنگ اب بھی جاری ہے۔ سوشل نیٹ ورک پر سوات کے جنرل آفیسر کمانڈر میجر جنرل ثناءاللہ نیازی شہید کی شہادت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بیان میں ملا فضل اللہ نے اپنا اگلا ہدف آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور کور کمانڈر پشاور کو قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت میں ابھی تک شوریدہ سر طالبان کیخلاف کسی قسم کی کارروائی کی بجائے ان کے ساتھ گفت و شنید کرنے کی تمنا کے اظہار کے باوجود فریق مخالف کی جانب سے ملک بھر خصوصاً پشاور میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے نے گو حالات گھمبیر بنا دیئے ہیں، تاہم ابھی تک حکومت نے اپنے اعصاب اور جذبات قابو میں رکھنے کا حوصلہ دکھایا ہے، یہاں تک کہ طالبان نے فوج کے ایک اعلٰی ترین افسر کو بھی شہید کر دیا مگر نہ ہی فوج اور نہ ہی حکومت نے اتنے بڑے حادثے پر کوئی ایسا ردعمل دیا جس سے اے پی سی میں کئے گئے فیصلے کی روشنی میں دی گئی مذاکرات کی دعوت غبار آلود ہو جاتی۔

وفاقی حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات پرویز رشید آج بھی اپنی حکومت کی جانب سے مذاکراتی عمل کے بارے میں پرامید ہیں، البتہ ان کی طرف سے یہ کہنا کہ مذاکرات میڈیا میں نہیں پس پردہ رہ کر کئے جانے میں عافیت ہے، بالکل درست اور قرین حقیقت بات ہے۔ گو کہ وزیر موصوف نے اپنے بیان کی وضاحت میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ میڈیا بیانات اور پریس ریلیز کی بجائے میز پر بیٹھ کر گفتگو اہمیت رکھتی ہے، مگر ہم سمجھتے ہیں کہ میز پر بیٹھ کر کی گئی گفتگو بھی نتیجہ خیز اور کارآمد بنانے کیلئے میڈیا کی نظروں اور دست برد سے محفوظ رکھنا اشد ضروری ہے، خاص طور پر ایسا میڈیا جسے نہ تو ریاستی اداروں کی توقیر عزیز ہے اور نہ ہی ریاست کی عزت و ناموس سے کوئی غرض، جس کا واحد مقصد کاروباری دنیا میں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ مفادات سمیٹنا ہے، اس مقصد کیلئے اسے اپنی ریٹنگ بڑھانے کیلئے جس حد تک بھی جانا پڑے وہ جانے سے گریز نہیں کرتا۔ ایسے خود غرض میڈیا کو امن مذاکرات سے دور رکھنا ہی قومی مفاد میں ہے۔ اگر دہشت گردی کی جنگ کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے مقاصد پورے کرنے میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے میڈیا نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ بریکنگ نیوز میں سبقت لیجانے اور سب سے پہلے خبر دینے کی روایت برقرار رکھنے کے دعویداروں نے دہشت گردی کے واقعات کی براہ راست کوریج اور غیر تربیت یافتہ ناسمجھ عملے کے ذریعے غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے ذریعے ایک چھوٹے سے شہر میں ہونے والے واقعے کو پورے ملک میں پھیلا کر ساری قوم کو ہراساں کیا اور دنیا میں اپنے وطن کا تاثر خراب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

یہ کڑوا سچ ہے کہ میڈیا نے دہشت گردوں کو گلیمرائز کیا اور ان کے نام نہاد ترجمانوں کے بیانات براہ راست ناظرین تک پہنچانے کا بندوبست کرکے انہیں ہیرو بنا دیا۔ آج اگر دہشت گردوں کے بیسیوں گروہ وجود میں آکر اپنے اپنے گروپ کی قوت منوانے کیلئے ریاستی اداروں کے ساتھ جنگ آزما ہیں تو یہ سب میڈیا میں دہشت گردوں کی غیر ضروری کوریج اور ان کو دی جانے والی اہمیت کا شاخسانہ ہے۔ معاشرہ میں جرائم کو فروغ دینے میں بھی ایسے ہی میڈیا کا ہاتھ ہے جس نے محض نمبر ایک کہلانے کے شوق میں جرائم کی دنیا کے کرداروں کو ٹیلی ویژن سکرین تک رسائی دی۔ انہیں عام ناظرین کے سامنے آنے کا موقع دیکر معاشرے کے ناپختہ سوچ کے حامل کچے ذہنوں کو جرائم کی دنیا کی طرف راغب کیا اور طالبان جیسے گروہوں کو نئے سے نئے لوگ دیئے اور بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دیگر وارداتوں کے ’’گر‘‘ سکھانے میں رہنمائی مہیا کی۔ بعض لوگوں کے اس زاویہ نظر سے بھی اتفاق کرتے ہی بنے گی کہ بھتہ خوری جو صرف کراچی تک ہی محدود تھی، اسے میڈیا نے پورے ملک میں پھیلانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ غلط انداز فکر کے حامل معاشرے کے منفی کرداروں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی جرم کی وارداتوں کے ارتکاب کے ذریعے پورے ملک میں خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کر دی ہے کہ لوگ اپنے گھروں تک میں خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔

دہشت کی اس فضا میں کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ گیا ہے، جس سے پاکستان کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے، جس کی بحالی کیلئے وزیراعظم نواز شریف نے سب سے پہلے ملک میں قیام امن کو اپنی اولین ترجیح بنانے کا اعلان کیا اور اس کیلئے طالبان کو مذاکرات کی باقاعدہ دعوت دی ہے۔ اے پی سی بلائی اور سیاسی جماعتوں سے مینڈیٹ حاصل کیا، اسی کی روشنی میں حکومت آج بھی اپنے موقف پر قائم ہے کہ اس نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، حالانکہ طالبان نے مذاکرات کی حکومتی پیشکش کے جواب میں دہشت گردی کو فزوں تر کرکے حالات خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہاں تک کہ فوج کے اعلٰی ترین افسر کی شہادت کے بعد اب وہ عسکری قیادت کے سب سے محترم و مکرم عہدے پر فائز شخص کو اپنا ہدف بنانے کا اعلان کر کے جلتی پر تیل چھڑکنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وفاقی وزیر پرویز رشید کا یہ کہنا بجا دکھائی دیتا ہے کہ ملک دشمن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں، ان ملک دشمنوں کا کھوج لگانے کیلئے زیادہ دماغ سوزی کی ضرورت نہیں۔ صرف وزیر موصوف کا یہ اشارہ کافی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میڈیا کے ذریعے نہیں میز پر ہونا چاہئیں اور وہ بھی میڈیا کی دست برد سے دور، کہ انہیں نتیجہ خیز بنانے کیلئے ان کا اخفا میں رہنا بہت ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 308040
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش